قربانی کا اصل مقصد ہے رضائے الہی
تحریر:مفتی رضوان احمد مصباحی
اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی مقدس کتاب میں ارشاد فرماتا ہے "{فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَ انْحَرْ _____ ترجمہ :تو تم اپنے رب کے لیے نماز پڑھو اور قربانی کرو۔ سورہ کوثر ،آیت نمبر :2}”
اور دوسری جگہ ارشاد فرماتا ہے :
"{لَنْ یَّنَالَ اللّٰهَ لُحُوْمُهَا وَ لَا دِمَآؤُهَاوَ لٰكِنْ یَّنَالُهُ التَّقْوٰى مِنْكُمْؕ_______ ترجمہ :اللہ کے ہاں ہرگز نہ ان کے گوشت پہنچتے ہیں اورنہ ان کے خون البتہ تمہاری طرف سے پرہیزگاری اس کی بارگاہ تک پہنچتی ہے_______سورہ حج، آیت نمبر :37}”
شانِ نزول:
دورِجاہلیّت کے کفار اپنی قربانیوں کے خون سے کعبہ معظمہ کی دیواروں کو آلودہ کرتے تھے اور اسے قرب کا سبب جانتے تھے،جب مسلمانوں نے حج کیا اور یہی کام کرنے کا ارادہ کیا تواس پر یہ آیت ِکریمہ نازل ہوئی اور ارشاد فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ہرگز نہ ان کی قربانیوں کے گوشت پہنچتے ہیں اورنہ ان کے خون، البتہ تمہاری طرف سے پرہیزگاری اس کی بارگاہ تک پہنچتی ہے اور قربانی کرنے والے صرف نیت کے اِخلاص اور تقویٰ کی شرائط کی رعایت کر کے اللہ تعالیٰ کو راضی کر سکتے ہیں ۔
(مدارک، الحج، تحت الآیۃ: ۳۷، ص۷۴۰ بحوالہ تفسیر صراط الجنان)
حدیث پاک میں ہے :
طبرانی حضرت امام حسن بن علی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہما سے راوی ہے کہ حضورصلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: ’’ جس نے خوشیِ دل سے طالب ثواب ہو کر قربانی کی وہ آتش جہنم سے حجاب (روک) ہو جائے گی۔”*. *( المعجم الکبیر بحوالہ بہار شریعت )
مذکورہ حدیث پاک اور قرآن پاک کی آیتوں پر غور و فکر کرنے سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ قربانی کیا ہے؟ اور اس کا اصل مقصد کیا ہے؟؟؟ صرف جانور خرید کر ذبح کرنا اصل قربانی نہیں بلکہ قربانی کا اولین مقصد صرف اور صرف رضائے الٰہی ہے ۔
*چنانچہ صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ اپنی مشہور کتاب بہار شریعت میں لکھتے ہیں:_____*
” مخصوص جانور کو مخصوص دن میں بہ نیت تقرب ذبح کرنا قربانی ہے” _____ لفظ تقرب نے قربانی کے اصل مقصد کو واضح کر دیا کہ قربانی کرنے کا مطلب و مقصد صرف اور صرف اللہ کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنا ہے نہ کہ محض گوشت کھانا-
فخریہ انداز میں بیش قیمت لگا کر جانور خرید کے گلی کوچوں میں اپنی شان و شوکت کا برملا اظہار کرنا کہ ہم نے پچاس ہزار کا جانور خریدا تاکہ لوگ ہماری واہ واہی کریں ۔
یاد رکھیں!!
آپ نے پچاس ہزار تو کیا پچاس لاکھ کا بھی جانور خرید لیا مگر اس میں تقرب اور رضائے الٰہی شامل نہیں بلکہ صرف یک گونہ شہرت کمانے کی خاطر ایسا کیا تو یہ رب کی بارگاہ میں قابل قبول نہیں بلکہ اس پچاس ہزار اور لاکھ سے زیادہ پانچ ہزار کا ہی جانور زیادہ اہمیت رکھتا ہے جسے خلوص وللہیت کے ساتھ اپنے رب کی خوشنودی حاصل کے لئے قربان کیا گیا ہو ۔ یہی وجہ ہے کہ فقہائے کرام نے فرمایا : *”حصے داروں میں سے کسی ایک کی بھی نیت اگر گوشت کھانے کی ہو اور تقرب نہ پایا گیا تو نہ صرف اس کی قربانی بلکہ جتنے لوگ شریک ہیں کسی کی بھی قربانی ادا نہ ہوگی ۔* اس لئے جانور خرید نے سے لے کر اس کے اختتام تک کبھی بھی ہم کو رضائے الٰہی کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے اور ہر فعل میں ہماری نیت صرف تقرب الٰہی ہی ہونی چاہیے ۔
نوٹ :
قربانی چونکہ ایک عظیم عبادت اور شعار اسلام ہے اس لئے ہر سال ہمیں یہی درس دیتا ہے کہ کوئی بھی کام رب کی اطاعت و فرماں برداری کہ بغیر نہیں کرنا چاہیے ۔ خاص طور پر اس بات کا پیغام کہ ہم ہمیشہ اللہ کے فرامین و احکام کی بجا آوری کے لیے کوشاں اور منتظر رہیں، ایک جانور کی قربانی ہی نہیں بلکہ رب کی جانب سے جس چیز کا بھی حکم آ جائے ہم اس کو رب کی بارگاہ میں پیش کرنے کے لیے تیار رہیں، خواہ مال و دولت ہو یا پھر اولاد، دنیا کی کوئی بھی عظیم تر شی ہو ہم اس کو رب کے حضور قربان کرنے کے لیے راضی برضا رہیں ۔ جیسا کہ اللہ کے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام نے نہ صرف اپنی دولت و ثروت کو رب کی بارگاہ میں لٹایا بلکہ اپنے لخت جگر، نور نظر، جگر پارہ، فرزند ارجمند حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی تک بھی پیش کر دی اور اپنے رب کی رضا حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔
مولی تعالٰی ہم سب کو اپنی رضا حاصل کرنے اور عمل خیر کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین یا رب العالمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم
تحریر:مفتی رضوان احمد مصباحی
رکن البرکات ویلفیئر ٹرسٹ
مقیم حال :راج گڑھ ،جھاپا ،نیپال
شائع کردہ:
دار العلوم فیضان تاج الشریعۃ زیر اہتمام البرکات ویلفیئر ٹرسٹ ٹھاکر گنج.