مسلم سیاسی پارٹی مفید یا مضر ایک تجزیہ قسط سوم

مسلم سیاسی پارٹی مفید یا مضر ایک تجزیہ قسط سوم

Table of Contents

مسلم سیاسی پارٹی مفید یا مضر ایک تجزیہ قسط سوم

از قلم:غلام مصطفےٰ نعیمی

مسلم سیاسی پارٹی مفید یا مضر ایک تجزیہ قسط سوم
مسلم سیاسی پارٹی مفید یا مضر ایک تجزیہ قسط سوم

اپنی قیادت کے فوائد

سیاست طاقت، دباؤ اور موقع کا کھیل ہے، جس کے پاس سیاسی طاقت ہوتی ہے وقت پڑنے پر اس کا سیاسی حریف بھی شراکت کو مجبور ہوتا ہے۔اس کا مشاہدہ آئے دن ہوتا رہتا ہے، کشمیر میں بی جے پی محبوبہ مفتی، یوپی میں مایاوتی اکھلیش، بہار میں لالو پرساد نتیش کمار اور مہاراشٹر میں کانگریس شو سینا اتحاد کے بارے میں کون سوچ سکتا تھا؟ مگر اقتدار کے لیے نظریاتی حریفوں کے درمیان بھی اتحاد ہوا، کیوں کہ اقتدار کے لیے سارے نظریات دھرے رہ جاتے ہیں۔سیاست میں کوئی دائمی دشمن ہوتا ہے نہ دوست، یہاں مصلحت اور مفاد سب سے اہم ہوتا ہے۔اس لیے یہ خدشہ کہ اپنی قیادت سے مسلمان سیاسی اچھوت ہوجائیں گے، ایک مفروضے سے زیادہ نہیں ہے۔مخلوط حکومتوں کے دور میں دو چار سیٹ والی پارٹیاں بھی اہم رول نبھاتی ہیں، جیسا کہ مسلسل دیکھنے میں آرہا ہے،رہا یہ سوال کہ؛
مسلم پارٹی سے ہندو ووٹر متحد ہوجائے گا !!

یہ بات اس وقت ممکن ہوسکتا ہے جب ملک کی تمام پارٹیاں کسی ایک پارٹی میں ضم ہوجائیں اور سارے ہندو کسی ایک پارٹی کے تحت آجائیں، یہ کام عملاً ناممکن ہے۔کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ کانگریس بی جے پی کے لیے خود کو ختم کر سکتی ہے، یا بی جے پی خود کو مٹا کر شو سینا میں شامل ہوسکتی ہے؟
کیا لالو پرساد ،اکھلیش یادو، شرد پوار ، نتیش کمار ، نوین پٹنائک ، کے سی آر، جگن موہن ریڈی اور چندر بابو نائڈو جیسے لیڈر اور ان کی برادریاں خود کو ختم کرنے پر آمادہ ہوجائیں گی؟

اقتدار کا نشہ بہت خطرناک ہوتا ہے اس کے لیے انسان خونی رشتوں کو بھول جاتا ہے تو محض مسلم دشمنی میں وہ خود کو قربان کرنے کی ہمت نہیں جٹا سکتے۔جب کہ مسلم پارٹی کے ساتھ مل کر اقتدار میں رہنے کا راستہ بھی کھلا ہے اس لیے یہ خدشہ بھی ایک مفروضہ سے زیادہ نہیں ہے۔1941 میں ہندو مہا سبھا جیسی کٹر مسلم دشمن پارٹی نے محمد علی جناح کی مسلم لیگ کے ساتھ بنگال میں مشترکہ حکومت بنائی تھی، جس کے وزیر اعظم مسلم لیگ کے فضل الحق تھے اور وزیر خزانہ جَن سَنگھ کے بانی اور بی جے پی کے سب سے بڑے رہنما شیاما پرساد مکھرجی تھے۔اس نظیر سے یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ اقتدار کے لیے سخت ترین حریف سے بھی ہاتھ ملایا جا سکتا ہے۔

سیاست کرنے کے دو طریقے ہیں:

1- تابع داری 2- حصہ داری

مولانا آزاد اور جمیعۃ علماے ہند کی ان تھک کوششوں کی بدولت مسلمانان ہند نے تابع داری کی سیاست کو پسند کیا،مسلمانوں کی طرح دلتوں اور پس ماندہ ذاتوں نے بھی شروعاتی دور میں تابع داری ہی کی سیاست کی، اس لیے کانگریس نہایت آرام وسکون کے ساتھ ملک پر راج کرتی رہی۔اسّی کی دہائی میں دلتوں اور پچھڑوں نے اپنی قیادت اور حصہ دارانہ سیاست کی اہمیت کو سمجھا، سن 1984 میں کانشی رام نے دلتوں کے لیے بہوجن سماج پارٹی تشکیل دی۔اس سے پہلے تک دلت سماج بھی مسلمانوں کی طرح نہرو اور کانگریس کا غیر مشروط وفادار تھا۔تابع داری کا ہی نتیجہ تھا کہ دلتوں کے مسیحا امبیڈکر کو ریزرو سیٹ پر بھی ہار کا منہ دیکھنا پڑا تھا۔کانشی رام کی قیادت میں دلتوں نے حصے دارانہ سیاست کا آغاز کیا اور محض گیارہ سال کی محنت کے بعد ایک دلت خاتون یوپی کی وزیر اعلی بن چکی تھی۔دلتوں کی بیداری دیکھ کر پس ماندہ قوموں نے بھی انگڑائی لی اور مختلف صوبوں میں پچھڑے سماج کے کئی لیڈر ابھر کر آئے۔سن 1992 میں یوپی میں ملائم سنگھ نے سماج وادی پارٹی ، سن 1997 میں بہار میں لالو پرساد نے راشٹریہ جنتا دَل ، نتیش کمار نے 2003 میں جنتا دَل یونائٹیڈ ، دیوے گوڑا نے کرناٹک میں 1999 میں جنتا دَل سیکولر ، بیجو پٹنائک نے اڑیسہ میں 1997 میں ہی بیجو جنتا دَل بنا کر حصے دارانہ سیاست کا آغاز کیا۔اب تک یہ قومیں تابع داری والی سیاست کرتی آئی تھیں اس لیے ہمیشہ دوسروں کی دریاں ہی بچھاتے رہے لیکن حصے دارانہ سیاست نے ان ذاتوں کو وزارت اعلی اور مرکزی وزارتوں میں اہم قلم دان دلائے، دیکھتے ہی دیکھتے یہ قومیں ملکی اور صوبائی سطح پر طاقت ور قومیں بن گئیں۔اس فہرست میں کیرل کی مسلم لیگ کو بھی شامل کرلیا جائے یہ پارٹی دلتوں اور پچھڑوں کی طرح وزارت اعلی تک تو نہیں پہنچی لیکن حصے دارانہ سیاست کی سوچ اور اپنی قیادت کی اہمیت جاننے کی بنا پر کانگریس جیسی پارٹی اس سے اتحاد کرنے اور صوبائی حکومت میں حصے داری دینے پر مجبور رہتی ہے۔صوبائی طاقت کی بدولت یہ پارٹی مرکز میں بھی اہم وزارت سنبھال چکی ہے۔اگر پورے صوبے کے مسلمان اس کے ساتھ ہوجائیں تو کسی موقع پر وزارت اعلی تک بھی رسائی ہوسکتی ہے۔
اپنی قیادت کی اہمیت سمجھنے کے لیے بہار کی نو زائدہ پارٹی وی آئی پی (VIP) کی مثال بہت خاص ہے۔اس پارٹی کے بانی مکیش سہنی ہیں، جو ماہی گیر طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔بہار میں ماہی گیروں کی تعداد پانچ فیصد ہے، اس سماج کے دم پر مکیش سہنی نے 2018 میں اپنی پارٹی بنائی اور 2019 کے انتخاب میں لالو اور کانگریس نے سہنی سے اتحاد کرتے ہوئے تین پارلیمانی سیٹیں دیں۔سہنی تینوں سیٹیں ہار گئے مگر برادری کے یک مشت ووٹ پرسینٹ کی بنا پر سیاسی پکڑ بن گئی جس کا پھل 2020 کے اسمبلی الیکشن میں ملا جب بی جے پی جیسی پارٹی نے سہنی سے اتحاد کیا اور گیارہ سیٹیں دیں۔اس بار سہنی کی پارٹی چار سیٹیں جیتنے میں کامیاب رہی اور آج بہار کابینہ میں شامل ہے۔

غور کریں!

اگر ماہی گیر سماج نے یہ سوچا ہوتا کہ ہم اکیلے کیا کر پائیں گے تو وہ آج بھی دریاں بچھا رہے ہوتے لیکن انہوں نے اپنی طاقت کو یکجا کیا، طاقت بنتے ہی دوسرے لوگ بھی جڑ گئے اور آج ان کی قیادت جڑ پکڑ چکی ہے۔

مسلم پارٹیوں کی ناکامی کے اسباب

آزادی کے بعد کیرل اور کشمیر کے علاوہ کہیں بھی مسلم پارٹی موجود نہیں تھی،1957 میں آندھرا پردیش میں مجلس اتحاد المسلمین دوبارہ منظر عام پر آئی، 1968 میں یوپی میں مسلم مجلس سامنے آئی۔ممبئی انڈر ورلڈ کے بے تاج بادشاہ حاجی مستان مرزا نے 1984 میں "مسلم دلت سُرکشا مہا سنگھ” بنائی۔1995 میں ڈاکٹر مسعود نے یوپی میں NLP نیشنل لوک تانترک پارٹی، سن 2001 میں مولانا توقیر رضا خان نے یوپی میں اتحاد ملت کونسل بنائی، سال 2005 میں مولانا بدرالدین اجمل نے آسام میں یو ڈی ایف اور سال 2008 میں ڈاکٹر ایوب نے یوپی میں پیس پارٹی کی تشکیل کی۔آج ایم آئی ایم، مسلم لیگ اور یو ڈی ایف ہی اپنا سیاسی وجود رکھتی ہیں باقی پارٹیاں بھولی بسری داستان بن چکی ہیں یا دوسری پارٹیوں کے لیے تشہیری ایجنسی بن کر رہ گئیں ہیں۔ان تین پارٹیوں کے علاوہ جماعت اسلامی کی ویلفیئر پارٹی آف انڈیا، پیس پارٹی، علما کونسل اور سوشل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا بھی پاؤں جمانے کی کوششیں کر رہی ہیں۔ماضی میں مسلم پارٹیوں کی ناکامی کے اسباب کیا تھے؟ اس بارے میں مختلف رائیں ہوسکتی ہیں اور صحیح حقائق ان پارٹیوں کے وابستگان ہی بتا سکتے ہیں لیکن حالات اور حقائق کا تجزیہ کرنے کے بعد کچھ اسباب ہماری ناقص سمجھ میں آتے ہیں، اسے سمجھنے کے لیے یہ بنیادی نکتہ ذہن میں رکھیں کہ آزادی کے بعد کشمیر اور کیرل کے علاوہ پورا ملک مسلم پارٹی سے خالی تھا، اس وقت کانگریس اور جمیعۃ نواز افراد ہی مسلمانوں کی سیاسی نمائندگی کر رہے تھے۔ دس بیس سال کے بعد جب مسلم قیادت نے سر اٹھانا شروع کیا تو ان کے سامنے درج ذیل مشکلات تھیں:
🔹 کانگریس پورے ملک میں اپنا دبدبہ رکھتی تھی اس لیے کسی نو زائدہ پارٹی کو مسلمان نظر میں نہیں لاتے تھے۔
🔸 کانگریس ودیگر سیکولر پارٹیاں مالی/افرادی وسائل سے مالا مال تھیں جب کہ مسلم پارٹیوں کے سامنے مالی/افرادی مشکلات بہت زیادہ تھیں۔
🔹 جو مسلم نمائندے کانگریس یا دیگر پارٹیوں سے وابستہ تھے انہوں نے مسلم پارٹی کو اپنے لیے خطرہ سمجھا اور ان کی زبردست مخالفت کی۔
🔸 مسلمانوں کا تعلیم یافتہ طبقہ مسلم پارٹی کی شد ومد سے مخالفت کیا کرتا تھا اس لیے عوامی رجحان بھی مسلم پارٹی کے مخالف بن جاتا تھا۔
🔹 ہندو مہا سبھا اور جَن سَنگھ جیسی پارٹیوں اور فسادات کا خوف دکھایا جاتا تھا۔
🔸 نمائندہ مسلم تنظیمیں سیکولرزم کی علم برداری کے جوش میں ہر مسلم پارٹی کو یکسر مسترد کر دیا کرتی تھیں۔
🔹 کانگریس ودیگر سیکولر پارٹیوں سے وابستہ مسلمان انتظامیہ وغیرہ میں رسوخ اور پہچان رکھتے تھے، عوام کے چِھٹ پُٹ کام کرا دیتے تھے اس بنا پر عوام انہیں کی ہم رائے ہوجاتے تھے۔

مذکورہ مشکلات وہ تھیں جو مسلم پارٹیوں کو بیرونی طور پر پیش آتی تھیں، جب کہ کچھ مشکلات اپنی پالیسیوں اور منصوبہ بندی کی بنیاد پر پیش آتی رہیں؛
🔸 ضرورت سے زیادہ جذباتی ہونا۔
🔹 عوام کے بنیادی کاموں پر زیادہ توجہ نہ دینا۔
🔸 زمینی سطح پر کارکنان نہ بنانا۔
🔹 الیکشن سے کچھ پہلے ہی سرگرم ہونا۔
🔸 بوتھ مینجمنٹ پر توجہ نہ دینا۔
🔹 کارکنان کی تربیت نہ کرنا۔
🔸 کرشمائی چہرے اور اچھے مقررین پر زیادہ منحصر رہنا۔
🔹 سیکولر پارٹیوں پر اعتبار کرکے ان لیے کیمپین چلانا۔
🔸 ٹکٹ تقسیم میں اپنے کارکنان کی بجائے دوسری پارٹیوں کے بھگوڑوں کو ترجیح دینا۔

ان وجوہات کے سبب بھی مسلم پارٹیاں مشکلات سے دو چار رہیں اور عوامی اعتماد جیتنے/بحال رکھنے میں ناکام رہیں۔جس کی بنا پر ان کی مقبولیت میں کمی آئی اور عوامی پکڑ دن بدن کمزور ہوتی گئی۔موجودہ مسلم پارٹیوں کو چاہیے کہ وہ سابقہ مسلم پارٹیوں کی غلطیوں کو نگاہ میں رکھیں اور خود کو ان کمزروریوں سے بچائیں جن کی بنا پر پہلے کئی پارٹیاں ختم ہوگئیں۔

آخری بات

مسلم پارٹی کو لیکر جو خدشات ہیں وہ اب کمزور پڑ چکے ہیں۔کانگریس کیرل میں مسلم لیگ، آسام میں بدرالدین اجمل کے ساتھ اتحاد میں ہے۔اس سے قبل آندھراپردیش میں مجلس اتحاد المسلمین کے ساتھ بھی کانگریس اتحاد میں رہ چکی ہے۔لیکن یہ اتحاد تبھی ممکن ہوسکا جب مسلمانوں نے اپنی قیادت پر بھروسہ کیا اگر ان علاقوں کے مسلمان اب تک کانگریس سے ہی وابستہ رہتے تو کیا یہ مسلم پارٹیاں اپنا وجود بنا سکتی تھیں؟
مسلمانوں نے کیرل اور کشمیر کے علاوہ سیکولر پارٹیوں کو پورے ستّر سال دئے، بدلے میں کیا ملا؟
اس لیے بے جا خدشات سے باہر آئیں۔مسلسل محرومیوں کی بنا پر نئی نسل نئی راہوں پر چلنا چاہتی ہے تو ایک طبقہ مسلم قیادت کی مخالفت پر آمادہ ہے، پچھلے دنوں جمیعۃ کے صدر مولانا محمود مدنی نے ایک بڑے مسلم لیڈر کا نام لیکر کہا تھا؛
"ہم انہیں ملک کے مسلمانوں کا لیڈر نہیں بننے دیں گے۔”

ذرا سوچیں!
یہ بیان کس ذہنیت کی غمازی کرتا ہے؟ ملک کا مسلمان نہرو سے ملائم تک غیر مسلم لیڈروں اپنا رہنما مانتا آیا تو کوئی پریشانی نہیں ہوئی لیکن آج ایک مسلم لیڈر کی مقبولیت بڑھ رہی ہے تو آپ کو کس بات کی تکلیف ہورہی ہے؟
جمیعۃ کے سیاسی فلسفے پر ملت اسلامیہ نے پورے ستّر سال آنکھ بند کرکے عمل کیا، لیکن بربادی کے سوا کچھ ہاتھ نہ آیا، چاہیے تو یہ تھا کہ جمیعۃ اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرتی اور مسلم قیادت کی راہیں ہموار کرتی، الٹا پروان چڑھتی قیادت کو روکنے کی دھمکیاں دے رہی ہے۔آخر یہ جارحانہ رویہ اور تلخ تیور کس کے اشارے پر ہیں؟
جمیعۃ کی طرح ہی بہت سارے صحافی، دانش ور اور تنظیمی افراد بھی مسلم پارٹیوں کی مخالفت پر کمر بستہ ہیں۔انہیں چاہیے کہ وہ معروضی انداز میں ملکی صورت حال اور چلی آرہی پالیسی کا جائزہ لیں پھر کسی نتیجے پر پہنچنے کی کوشش کریں۔نئی نسل تبدیلی کی بات کر رہی ہے تو جمیعۃ علماے ہند اور اس سے وابستہ افراد مسلم سیاست کی مخالفت نہ کریں، کیوں کہ ان کا فلسفہ عملی طور پر ناکام ہوچکا ہے اور مسلمانوں کو اس کی بڑی قیمت بھی چکانا پڑی ہے۔اب ضرورت اس بات کی ہے کہ حکمت ودانائی کے ساتھ اپنی قیادت کو مضبوط کیا جائے تاکہ محرومیوں کا دور ختم ہو اور قوم پھر سے عروج وارتقا کا سفر طے کر سکے۔

از قلم:غلام مصطفےٰ نعیمی

روشن مستقبل دہلی

مزید پڑھیں

مسلم سیاسی پارٹی:مفید یا مضر ایک تجزیہ قسط دوم

مسلم سیاسی پارٹی مفید یا مضر: ایک تجزیہ قسط اول

مہر کی مقدار کیا ہے ؟

کیا جہیز ہی لعنت ہے …؟؟؟

جہیز اور اس کا سد باب

شیئر کیجیے

Leave a comment