نشان کربلا

از: واصف رضاواصف
کس طرح سے ہو ادا حقِ بیانِ کربلا
خونچکاں اور جاں گسل ہے داستان کربلا
خیمہ زن ہیں چارسو کیوں رنج وغم کےقافلے
کیوں لہو روتی ہے چشم آسمان کربلا
لقمہ نار مصاٸب ہیں عدوے اہل بیت
شادماں ہرگام پر ہیں حامیان کربلا
صبر کا تاج حسیں سر پہ سجاکر آے ہیں
سرز مین کربلا میں اہلیان کربلا
استقامت صبرو استقلال کی تختی پہ ہے
روز روشن کی طرح واضح نشان کربلا
سربخم ہوتے نہیں اعدا ے د یں کے سامنے
عزم کی چٹان ہیں پیرو جوان کربلا
کیوں رخ گل پر نمایاں ہے اداسی کی لکیر
نوچ لی ہے کس نے شاخ گلستان کربلا
”انتم الاعلون “ کے مصداق ہوجاٸیں گے ہم
گر رکھیں ہردم نظر میں درس جان کربلا
خون سے سینچا ہے آل سید ابرار نے
ہے بہار گلشن دیں ارمغان کربلا
روک لے اپنا قلم واصف رضا اب روک لے
حیطہ ٕ تحریر سے باہر ہے شان کربلا
از: واصف رضاواصف
مدھوبنی بہار