مسلم سیاسی پارٹی:مفید یا مضر قسط دوم

مسلم سیاسی پارٹی:مفید یا مضر ایک تجزیہ قسط دوم

Table of Contents

مسلم سیاسی پارٹی:مفید یا مضر ایک تجزیہ قسط دوم

تحریر: غلام مصطفےٰ نعیمی

مسلم سیاسی پارٹی:مفید یا مضر قسط دوم
مسلم سیاسی پارٹی:مفید یا مضر قسط دوم

مسلم پارٹیوں کے ساتھ سیکولر پارٹیوں اور جمیعۃ کا رویہ

مولانا آزاد اور جمیعۃ کی بدولت شمالی ہند میں مسلم پارٹی کے دروازے شروع ہی میں بند کر دیے گیے تھے لیکن جنوبی ہند میں آل انڈیا مسلم لیگ نے آہستہ آہستہ اپنی جڑیں جما لی تھیں۔بعد میں متحدہ آندھرا پردیش میں اسدالدین اویسی کے دادا عبدالواحد اویسی صاحب نے مجلس اتحاد المسلمین کو از سر نو زندہ کیا۔حالانکہ یہ پارٹی 1927 میں قائم ہوئی تھی مگر تقسیم وطن کے بعد اس کے ذمہ داران پاکستان چلے گیے تھے اس لیے یہ پارٹی بھی ختم ہوگئی۔

ریاست حیدرآباد کے بھارت میں ضم ہوجانے کے بعد سن 1957 میں عبدالواحد اویسی نے نئے دستور کے ساتھ اس پارٹی کو ری لانچ کیا، آہستہ آہستہ یہ پارٹی حیدرآباد میں مضبوط ہوتی گئی۔1962 میں اسدالدین کے والد سلطان صلاح الدین اویسی نے اسمبلی انتخاب جیتا اور 1984 میں حیدرآباد پارلیمانی سیٹ پر کامیابی حاصل کی، تب سے لیکر آج تک حیدرآباد پارلیمانی سیٹ پر مجلس کا قبضہ برقرار ہے۔

اپنے والد کے بعد بیرسٹر اسدالدین اویسی اس سیٹ سے لگاتار چوتھی بار منتخب ہوئے ہیں۔غیر منقسم آندھرا اور اب نو تشکیل شدہ تلنگانہ میں اس پارٹی کے سات ممبران اسمبلی موجود ہیں۔یہ پارٹی ایک صوبائی پارٹی کا درجہ حاصل کر چکی ہے۔اسدالدین نے پارٹی کی توسیع کرتے ہوئے مہاراشٹر اور بہار میں اسمبلی انتخاب لڑا جہاں دو اور پانچ سیٹیں حاصل ہوئیں۔

اس سے قبل کشن گنج بہار کے ضمنی انتخاب میں پارلیمانی سیٹ بھی مجلس کے حصے میں آئی تھی، فی الحال حیدرآباد کے باہر اورنگ آباد سے امتیاز جلیل بھی رکن پارلیمان منتخب ہوئے ہیں۔اس پارٹی کے ساتھ کانگریس اور سیکولر پارٹیوں کا سلوک کبھی اچھا نہیں رہا آج بھی سیکولر پارٹیوں اور جمیعۃ سے تعلق رکھنے والے افراد مجلس اور اویسی پر تنقید کرنے اور بی جے پی کا ایجنٹ بتانے سے باز نہیں آتے۔

سیکولر پارٹیاں کسی بھی نو زائدہ پارٹی سے سیاسی اتحاد بہ خوشی کر لیتی ہیں لیکن اویسی سے کوئی اتحاد نہیں کرنا چاہتا، کیوں کہ ہر سیکولر پارٹی مسلم قیادت کو دیکھنا پسند نہیں کرتی، افسوس اس بات کا ہے کہ سیکولر پارٹیوں کے ساتھ مسلم دانش ور/صحافی بھی مسلم قیادت کی کردار کشی میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتے۔

_______جنوبی ہند میں مسلم پارٹیاں جد وجہد کر رہی تھیں تو شمالی ہند میں بھی کانگریس اور جمیعۃ کی پالیسی کے تئیں بے چینی بڑھ رہی تھی، آخرکار ڈاکٹر عبدالجلیل فریدی نے 1968 میں مسلم مجلس کے نام سے سیاسی پارٹی تشکیل دی ڈالی۔یہ پارٹی مسلم مجلس مشاورت کے بطن سے نکلی تھی جس کے بانی ڈاکٹر سید محمود تھے۔جو ایک زمانے میں نہرو کابینہ میں شامل رہ چکے تھے۔

اسلیے ان لوگوں کا مطمح نظر مسلم قیادت کی بجائے سیکولر پارٹیوں کو مضبوط کرنا تھا، جب کہ فریدی صاحب کا ماننا تھا کہ جب تک اپنی قیادت مضبوط نہیں ہوتی تب تک سیکولر پارٹیاں بھی مسلمانوں کا جائز حق نہیں دیں گی۔ ابتداً ڈاکٹر فریدی صاحب کچھ نہ کر سکے لیکن بعد میں انہوں نے مسلم مجلس کے بینر پر 1971 میں یوپی اسمبلی انتخاب میں پانچ سیٹیں جیت کر اپنا سیاسی سفر شروع کیا۔

یوپی کے قدآور لیڈر اعظم خان نے بھی اپنا سیاسی سفر مسلم مجلس کے ساتھ ہی شروع کیا تھا، سن 1974 اور 1977 میں انہوں نے دو الیکشن مسلم مجلس کی جانب سے لڑے حالانکہ دونوں بار شکست ہوئی۔اس کے بعد وہ چودھری چرن سنگھ اور پھر ملائم سنگھ کے ساتھ چلے گئے۔
مسلم مجلس نے اسمبلی کے بعد سلطان پور اور الہ آباد پارلیمانی سیٹیں بھی جیتیں، اس طرح یوپی میں مسلم سیاست جڑ پکڑ رہی تھی مگر جمیعۃ اور کانگریسی افراد مسلسل اس پارٹی کے خلاف تھے، سن 1965 میں جب مجلس کا ایک اجلاس دیوبند میں مدرسہ اصغریہ کے پاس چل رہا تھا تو جمیعۃ کے اشارے پر دارالعلوم دیوبند کے طلبہ نے جلسے پر حملہ کردیا۔

اسٹیج کے سارے لوگ جان بچا کر بھاگ کھڑے ہوئے، حالانکہ اس وقت اسٹیج پر مفتی عتیق الرحمن اور ڈاکٹر فریدی جیسے کئی اہم ذمہ دار موجود تھے مگر طلبہ نے کسی کا لحاظ نہیں کیا، مائک ٹینٹ وغیرہ سب کچھ توڑ پھوڑ کر نالے میں پھینک دیا۔
اس طرح کی درجنوں مثالیں ہیں جب مسلم قیادت کے خلاف کانگریس/سیکولر پارٹیوں اور جمیعۃ نواز افراد نے کھلے چھپے سازشیں کیں اور ہر ممکن کوشش کی کہ مسلم قیادت پروان نہ چڑھنے پائے۔

سیکولر پارٹیوں کی بے وفائیاں

آزادی وطن کے بعد مسلمان آنکھ بند کرکے سیکولر پارٹیوں کے وفادار رہے لیکن سیکولر پارٹیاں مسلمانوں کو زبانی تسلیوں اور چند ایک علامتی کاموں سے ہی بہلاوا دیتی رہیں، ان علامتی کاموں میں عید وبقر عید، محرم اور عید میلادالنبی وغیرہ کی مبارکباد، عرسوں میں چادر بھیجنا، افطار پارٹی کرانا، مشاعرے کرانا اور موقع بہ موقع اردو زبان کی اہمیت پر لیکچر دینا تھا۔

مسلمانوں انہیں کاموں سے خوش ہوتے رہے اور سیکولر پارٹیوں کو اپنا مسیحا اور نجات دہندہ تصور کرتے رہے جب کہ سیکولرزم کے "بابائے اعظم” جواہر لعل نہرو نے اقتدار سنبھالتے ہی مسلمانوں کے آئینی اور مذہبی حقوق پر نقب زنی شروع کردی۔بعد میں ہر سیکولر لیڈر نے نہرو جی کی اتباع میں مسلمانوں سے یک مشت ووٹ بھی لیے اور ان کا سیاسی استحصال بھی کیا، ذیل میں نہرو سمیت سیکولر لیڈروں کی کارستانیاں ملاحظہ فرمائیں؛

🔸 برٹش حکومت نے بلا امتیاز مذہب شیڈول کاسٹ کو دفعہ 341 کے تحت ریزرویشن دیا تھا۔ نہرو حکومت نے سن 1950 میں آرڈیننس کے ذریعے دفعہ 341 پر مذہب کی قید لگا کر مسلمان اور عیسائی دلتوں کا ریزرویشن ختم کردیا، بعد میں ارتداد کا راستہ کھولنے کے لیے یہ شق بھی لگا دی کہ جو شیڈیول کاسٹ مسلمان، ہندو مذہب قبول کرے گا اسے ریزرویشن کا فائدہ ملنے لگے گا۔

🔹 کشمیر الحاق کے وقت جو معاہدہ کیا گیا اس کی رو سے کشمیر میں "وزیر اعظم اور صدر ریاست” کا فارمولہ تسلیم کیا گیا تھا جس سے کشمیر کی خود مختاری سلامت رہے لیکن نہرو نے اپنے "عزیز ترین دوست” شیخ عبد اللہ پر سازش رچنے کا الزام لگا کر گیارہ سال تک جیل میں رکھا، اس درمیان معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے "وزیر اعظم اور صدر ریاست” کے عہدوں کو وزیر اعلیٰ اور گورنر سے تبدیل کردیا گیا۔

🔹 نہرو حکومت کو بنے دو سال ہی ہوئے تھے کہ چار سو سال قدیم بابری مسجد میں سازشاً مورتیاں رکھ دی گئیں، نمازوں پر پابندی لگا دی اور پوجا شروع کرا دی گئی۔
🔸 ہندو عوام کو خوش کرنے کے لیے نہرو جی کے نواسے راجیو گاندھی نے بابری مسجد کے مقام پر رام مندر کا شلانیاس کرایا۔
🔹 سال 2012 میں ملائم سنگھ نے مسلمانوں کو 18 فیصد ریزرویشن دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن اقتدار میں آنے کے بعد سب کچھ بھول گئے۔

🔸 یوپی میں مسلمانوں کی سب سے بڑی تعداد بستی ہے مگر سازش کے تحت یہاں سے اردو میڈیم ختم کیا گیا جس کی بنیاد پر مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد تعلیمی میدان میں پیچھے رہ گئی۔
🔹 جن علاقوں میں مسلم زمین دار تھے وہاں زمین داری قانون نافذ کرکے ان کی زمینیں ضبط کرلی گئیں لیکن جہاں ہندو زمین دار تھے ان علاقوں کو اس قانون سے مستثنی رکھا گیا۔

🔸 انتخابی حلقوں کی حد بندی میں مسلم آبادی کو کئی حصوں میں تقسیم رکھا گیا تاکہ ان کی جمہوری طاقت یکجا نہ ہوسکے۔
🔹 مسلم اکثریت والی سیٹوں کو جان بوجھ کر ایس سی، ایس ٹی ذاتوں کے لیے ریزرو کیا جاتا رہا تاکہ مسلم نمائندگی کم سے کم ہوسکے۔
🔸 مسلمانوں کو ان کی آبادی کے تناسب میں کبھی ٹکٹ نہیں دئے گئے اس طرح نمائندگی کا تناسب اور گھٹتا گیا۔

🔹 مسلمانوں کو صرف اُنہیں کے حلقوں سے ٹکٹ دیے گئے، ہندو اکثریتی علاقوں سے انہیں کبھی ٹکٹ نہیں دیا گیا اس کے برعکس سیکولر لیڈر لگاتار مسلم اکثریتی علاقوں سے لڑتے اور فتح یاب ہوتے رہے۔
🔸 مسلمانوں کو ہمیشہ غیر اہم وزارتیں دی گئیں، اہم وزارتوں سے انہیں دور رکھا گیا۔
🔹 حکومتی ملازمت میں مسلم امیدواروں کے ساتھ تعصب برتا گیا جس سے مسلمانوں کا تناسب لگاتار گھٹتا گیا۔
(جاری)

3 ذوالحجه 1442ھ
14 جولائی 2021 بروز بدھ

تحریر: غلام مصطفےٰ نعیمی

مدیر اعلیٰ سواد اعظم دہلی

مزید پڑھیں

مسلم سیاسی پارٹی مفید یا مضر: ایک تجزیہ قسط اول

مہر کی مقدار کیا ہے ؟

کیا جہیز ہی لعنت ہے …؟؟؟

جہیز اور اس کا سد باب

شیئر کیجیے

Leave a comment