جہیز اور اس کا سد باب

جہیز اور اس کا سد باب

Table of Contents

جہیز اور اس کا سد باب

از قلم: غلام مصطفیٰ رضا نظامی

جہیز اور اس کا سد باب
جہیز اور اس کا سد باب

لفظ جہیز ‘جھاز’ سے ماخوز ہے، یہ باب تفعیل جھز یجھز تجھیزا سے مصدر ہے جس کا معنی ہوتا ہے "سامان تیار کرنا، سامان مہیا کرنا”
جیسا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ کریم کے اندر حضرت یوسف علیہ السلام اور ان کے بھائیوں کے قصے کے بیان میں فرمایا: وَلَمَّا جَهَّزَهُمْ بِجَهَازِهِمْ
’’اور جب یوسف علیہ السلام نے ان کا سامان (زاد و متاع) انہیں مہیا کر دیا‘‘۔
(سورہ: يوسف، آیت: 59)

آج کسی بھی انسان پر یہ بات مخفی نہیں ہے کہ جہیز کا رواج قوم مسلم میں کس قدر شباب پر ہے بلکہ یہ کہتے ہوئے بجا نہ ہوگا کہ آج طلب جہیز کے زیر فہرست کم ظرف اور دو ٹکے کے لیے ایمان کو فروخت کر دینے والے عالموں کا بھی نام آتا ہے جب کہ آج شعور کی منزل پہ فائز ہونے والا ہر بچہ جانتا ہے کہ طلب جہیز جائز نہیں ہے_
اسلام نے نکاح کو جتنا آسان بنایا ہے اس مسلم قوم نے اسے اتنا ہی مشکل بنادیا ہے_ نکاح کے بابرکت بندھن پر بے شمار رسومات، تقریبات، خرافات اور فضول اخرجات کے بوجھ کو ایسے فروغ دیا ہے کہ ایک غریب شخص ہی نہیں بلکہ متوسط درجے کے آدمی کے لیے بھی وہ ایک ناقابلِ تسخیر پہاڑ بن کر رہ گیا ہے_ جب کہ چاہیے یہ کہ نکاح میں تمام رسومات و خرافات اور فضول خرچی سے بچے تاکہ فریقین کو مشقت کا سامنا نہ کرنا پڑے_
حدیث پاک ہے جس کے راوی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ہیں فرماتی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "سب سے با برکت نکاح وہ ہے جس میں کم خرچ ہو_

وعن عائشة قالت قال النبي صلى الله عليه وسلم: "إن أعظم النكاح بركةً أيسره مؤنةً”
(مشکوٰۃ المصابیح: ج2، ص268)
آج اپنے سماج و معاشرہ کا جائزہ لیا جائے تو یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ ہر بیوی تسخیر شوہر چاہتی ہے، ہر بہو اپنے سسرال میں پکی پکھائی روٹی توڑنا چاہتی ہے جس کی وجہ سے آئے دن طرح طرح کے فتنہ جنم لیتا ہے اور اس کی وجہ ہے طلب جہیز_
اسلامی شریعت اور امت محمدیہ میں نکاح کا کوئی خرچ عورت کے ذمہ نہیں رکھا گیا بلکہ اس کے برعکس نکاح میں عورت کو مرد کی طرف سے مہر ملے گا جو عورت پر خرچ کیا جائے گا نہ کہ اس سے مانگا جائے گا_یہ الگ بات ہے کہ ہر والدین اپنی بیٹی کو رخصتی کے وقت اپنی خوشی سے تحفہ کے طور پر ضروری سامان دیتے ہیں لیکن اس کو جہیز کا نام دے دینا سراسر غلط ہے_جب حضرت فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ہوا تھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنے بیٹی کو ضرورت کے سامان دیئے تھے جیسا کہ حدیث پاک میں ہے جس کے راوی خود حضرت علی ہیں بیان کرتے ہیں کہ "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا جہیز تیار کیا ایک چادر، ایک مشکیزہ اور ایک تکیہ جس میں اذخر کھاس بھرا ہوا تھا”_

عن علی رضی الله عنه قال جهز رسول الله صلیٰ الله عليه وآله وسلم فاطمة في حميل وقربة ووسادة حشوها ازخر
(سنن نسائی: رقم الحدیث 3386)
مرد کو عورت پر فضیلت حاصل ہے اس کا اہم وجہ مرد کا عورپ پر مال خرچ کرنا ہی ہے_ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اَلرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَی النِّسَآئِ بِمَا فَضَّلَ اﷲُ بَعْضَهُمْ عَلٰی بَعْضٍ وَّبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِهِمْ

ترجمہ:- مرد افسر ہیں عورتوں پر اس لیے کہ اللہ نے ان میں ایک کو دوسرے پر فضیلت دی اور اس لیے کہ مردوں نے ان پر اپنے مال خرچ کیے_
(سورہ: النساء، آیت: 34)
یعنی کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے مرد کو عورت کا حاکم بنایا کیونکہ یہ اس کو مہر دیتا ہے اور اس کا نفقہ ادا کرتا ہے_ لیکن جب کوئی جہیز طلب کرتا ہے تو "النساء قوامون على الرجال” کے مترادف ہو جاتا ہے اور اللہ تعالی اس پر یہ عذاب مسلط فرما دیتا ہے کہ اس کی بیوی تسخیر شوہر چاہنے لگتی ہے_
*اور طلب جہیز کی وجہ ہے بیٹیوں کو وراثت سے نہ دینا* اگر ہر باپ اپنے مال سے اپنے بیٹیوں کا حق دینا شروع کر دے تو میں یہ دعوے کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ ہمارے معاشرے سے جہیز مانگنے کا رواج ختم ہو جائے گا_
تو ایک داعی و مبلغ کے لیے ضروری ہے کہ اس فتنے کے جڑ کو ہی اکھاڑ پھینکے بیٹیوں کو اس کی وراثت دلوا کر (جو بیٹوں کا نصف حصہ ہے)

از قلم:- غلام مصطفیٰ رضا نظامی

جامعہ حضرت نظام الدین اولیاء

مزید پڑھیں

مہر کی مقدار کیا ہے ؟

کیا جہیز ہی لعنت ہے …؟؟؟

 

شیئر کیجیے

Leave a comment