مسلم سیاسی پارٹی مفید یا مضر: ایک تجزیہ

مسلم سیاسی پارٹی مفید یا مضر: ایک تجزیہ

Table of Contents


مسلم سیاسی پارٹی مفید یا مضر: ایک تجزیہ

تحریر: غلام مصطفےٰ نعیمی

مسلم سیاسی پارٹی مفید یا مضر: ایک تجزیہ
مسلم سیاسی پارٹی مفید یا مضر: ایک تجزیہ

قسط اول

آزاد بھارت کا پہلا انتخاب 1952 میں مکمل ہوا تھا۔اس الیکشن نے ملک کی اکثریت کی سوچ اور ان کے مزاج کی جھلک دکھا دی تھی، لیڈران ملک کی بدلتی ہوا کو بھانپ چکے تھے اس لیے کانگریس کی زبردست مقبولیت کے باوجود مذہب اور ذات پر مبنی پارٹیوں نے بھی قسمت آزمائی کی اور کامیابی پائی۔انتخاب میں کانگریس سمیت 54 پارٹیاں شامل تھیں۔جن میں ہندو مہاسبھا اور جَن سَنگھ جیسی کٹّر ہندو پارٹیاں بھی میدان میں اتریں۔

ڈاکٹر امبیڈکر جسیے تعلیم یافتہ شخص بھی ذات پر مبنی SCF "شیڈیول کاسٹ فیڈریشن” نامی پارٹی بنا کر میدان میں اترے۔کانگریس سب سے پرانی اور بڑی پارٹی تھی۔لاکھوں کارکنان تھے، عوامی مقبولیت سب سے زیادہ تھی اس لیے اس کے مقابلے میں کوئی پارٹی نہیں تھی۔489 سیٹوں میں سے 364 سیٹیں جیت کر کانگریس پہلے نمبر پر رہی تو دوسرے نمبر پر کمیونسٹ پارٹی آئی جسے محض 12 سیٹیں حاصل ہوئیں۔

مسلم دشمنی پر مبنی ہندو مہا سبھا اور جَن سَنگھ ( جو بعد میں بی جے پی کہلائی) کو بھی عوامی حمایت حاصل ہوئی، جس کے نتیجے میں ہندو مہا سبھا کو چار اور جَن سَنگھ کو تین سیٹوں پر کامیابی ملی۔امبیڈکر صاحب خود تو الیکشن ہار گئے مگر ان کی پارٹی کے دو لوگ ممبر پارلیمنٹ بننے میں کامیاب رہے۔سب سے اہم بات یہ تھی کہ ملک کی سب سے بڑی اقلیت مسلمان پوری طرح منظر نامہ سے غائب تھے۔

ان دنوں جمیعۃ علماے ہند سب سے بڑی تنظیم اور مولانا آزاد سب سے بڑے لیڈر مانے جاتے تھے۔دونوں ہی پکے کانگریسی اور سچے گاندھی وادی تھے اس لیے آزادی کے فوراً بعد لکھنؤ میں منعقدہ سیمنار میں یہ اعلان کیا گیا:
"جو ہونا تھا سو ہوگیا، لیکن اب ہندوستانی مسلمانوں کو سیاسی پارٹی کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔جو حضرات الیکشن لڑنا چاہتے ہیں وہ انفرادی یا کانگریس کے ٹکٹ پر الیکشن لڑیں۔”

یہ اعلان آگے چل کر گویا خدائی الہام بن گیا۔سیکولرزم کے منافی قرار دے کر مسلم سیاسی پارٹی کا تصور تک گناہ عظیم بنا دیا گیا۔اس لیے یہ سوال پوری شدت سے جواب چاہتا ہے کہ جب تمام طبقات اپنے اپنے سیاسی حقوق کے لیے جد و جہد کر رہے تھے تو مسلمانوں کو سیاسی پارٹی بنانے سے کس لیے اور کس کے اشارے پر روکا گیا اور جمیعۃ کے سیاسی کرادر کا خاتمہ کیوں کیا گیا؟

مولانا آزاد اور جمیعۃ کے اس اعلان کو جنوبی ہند کے مسلمانوں نے سرے سے قبول نہیں کیا۔محمد اسماعیل صاحب کی قیادت میں انڈین یونین مسلم لیگ سامنے آئی۔اس پارٹی کے بانیان پہلے جناح کی مسلم لیگ میں شامل اور اپنی قیادت کی اہمیت کو اچھی طرح جانتے تھے اس لیے انہوں نے محدود پیمانے پر ہی صحیح اپنی ہی قیادت کو پروان چڑھایا لیکن شمالی ہند کے مسلمان آزاد صاحب اور جمیعۃ کی ان تھک کوششوں کے باعث مسلم پارٹی کے نام سے ہی بھاگتے رہے اور ابھی تک بھاگ رہے ہیں۔

أزادی کے بعد مسلم پارٹی کیوں نہیں بنی؟

آزادی تک مسلمان دو سیاسی نظریات میں تقسیم تھے، طبقہ اول کانگریس سے وابستہ اور گاندھی، نہرو کی قیادت کا حامی تھا جبکہ طبقہ دوم کے افراد مسلم لیگ کے ساتھ اور اپنی قیادت کے حامی تھے۔آزادی ملتے ہی طبقہ دوم کے افراد پاکستان ہجرت کر گیے اس طرح ملک میں صرف طبقہ اول رہ گیا جو دل وجان سے کانگریس اور گاندھی جی کا ہم نوا تھا

مولانا آزاد کے علاوہ جمیعۃ کے صدر مولانا حسین احمد مدنی ، مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی جیسے افراد کانگریس کے سب سے بڑے حامی اور وکیل ہوا کرتے تھے۔یہ حمایت غیر مشروط اور بغیر کسی یقین دہانی کے تھی، تینوں ہی حضرات کانگریس اور گاندھی جی سے انتہائی جذباتی وابستگی رکھتے تھے

گاندھی اور نہرو پر اس قدر بھروسہ تھا کہ دستور ساز کمیٹی میں وندے ماترم جیسے شرکیہ ترانے کو قومی گیت کا درجہ دیا گیا، رہنما ہدایات کے تحت یکساں سِوِل کوڈ شامل کیا گیا مگر یہ حضرات پر اسرار طریقے پر خاموش رہے۔اس کی دو ہی وجہ ہوسکتی ہیں؛ یا تو انہیں ان معاملات کی سنگینی کا احساس نہیں ہوسکا یا پھر گاندھی نہرو پر ضرورت سے زیادہ اعتماد نے انہیں سوچنے ہی نہیں دیا۔انہیں لگتا تھا کہ گاندھی نہرو ان کے ساتھ کچھ غلط کر ہی نہیں سکتے۔

اب جہاں اعتبار واعتماد اس درجے کا ہو وہاں اپنی سیاسی پارٹی کا خیال کیوں کر آسکتا تھا؟ اسی اعتماد یا اشارے پر اپنی خود کی تنظیم جمیعۃ علماے ہند کا سیاسی کردار ختم کردیا گیا۔یہ فیصلہ کس قدر عجیب ہے کہ جب تک ملک انگریزی شکنجے میں تھا تو خوب سیاست کی گئی

جب سیاست کا اصلی دور آیا تو سیاست سے توبہ کرلی گئی۔شمالی ہند میں تو مسلم پارٹی کا دروازہ بند کردیا گیا مگر جنوبی ہند میں انڈین یونین مسلم لیگ مسلم پارٹی کے طور پر سامنے آئی۔اور آج تک مسلم لیگ کیرل میں ایک مضبوط مسلم پارٹی بنی ہوئی ہے۔یہ پارٹی تنہا اقتدار میں تو نہیں آئی مگر سیاسی قوت کی بدولت شریک اقتدار رہی جس کی بدولت کیرل کے مسلمان دوسروں سے زیادہ خوش حال ہیں۔

مسلم پارٹی: خدشات اور حقائق

مسلم پارٹی بنانے اور مسلم کاز کی سیاست کو لیکر ملک کے کئی صحافی، دانش ور اور خاصے پڑھے لکھے لوگ سرے سے خارج کر دیتے ہیں، ان حضرات کے خدشات کچھ اس طرح ہیں؛
🔸مسلم کاز کی سیاست کی گئی تو 80 فیصد ہندو ووٹر متحد ہوجائے گا۔
🔹مسلمان ملک میں 15 فیصد ہیں ایسے میں اکیلے کیا کر سکتے ہیں، چند سیٹیں جیت بھی لیں تو اس سے مسلمانوں کا کیا فائدہ ہوگا؟
🔹سیکولرزم کے سہارے ہی ہندو شدت پسندوں کو روکا جا سکتا ہے، بصورت دیگر مسلمان آسان نوالہ ہوں گے۔
🔸اپنی پارٹی بنانے سے مسلمان الگ تھلگ اور سیاسی طور پر اچھوت ہوجائیں گے۔
🔹 مسلمان کشمیر چھوڑ کر ملک کے کسی بھی صوبے میں حکومت سازی کی پوزیشن میں نہیں آسکتے ایسے میں اپنی پارٹی کا کیا فائدہ؟

اس طرح اور بھی کئی خدشات ہیں جن کی بنا پر مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ سیکولر پارٹیوں سے وابستہ رہنے اور انہیں ہی مضبوط بنانے کی وکالت کرتا ہے۔ہمیں اس طبقے کی نیت پر شک نہیں، یہی خدشات 1947 میں بھی تھے،انہیں خدشات کے پیش نظر مسلمان سیکولر پارٹیوں کے غیر مشروط وفادار بنے رہے۔اس وفاداری کے تحت مسلمان پہلے سے زیادہ خوش حال اور ترقی یافتہ ہونا چاہیے تھے لیکن ستّر سالہ وفاداری کے صلے میں مسلمانوں کے حالات بد سے بدتر ہوتے چلے گئے اور مسلمان اس ملک کی سب سے پس ماندہ قوم بنا دیے گئے۔گذشتہ 74 سالوں میں سیکولر پارٹیوں نے 60 سال حکومت کی ہے اس کے بعد بھی ہماری قوم دن بدن پچھڑتی گئی۔اب ہمارے سامنے دو ہی راستے ہیں؛
1- جیسا چل رہا ہے اسی میں خوش رہیں۔
2- حالات بدلنے کی کوشش کریں۔

اگر موجودہ حالات پر مطمئن ہیں تب تو کوئی بات نہیں آنکھ بند کرکے سیکولر پارٹیوں کو ووٹ دیتے رہیں، اگر موجودہ حالات سے ناخوش ہیں اور اپنے حالات بدلنے کی خواہش ہے تو غیر مشروط وفاداری چھوڑ کر سیاسی مول تول سیکھنا ہی پڑے گا۔
(جاری)

تحریر: غلام مصطفےٰ نعیمی

روشن مستقبل دہلی

حج کی اہمیت و افادیت اور غلط فہمیوں کا ازالہ

جمعہ کے فضاٸل واحکامات

مرکز ہدایت کی طرف اہل حق کو آنے دو

جن کی روحیں طیبہ میں گشت لگاتی ہیں

صالح رسم ورواج کی حیات جاودانی

اسلامیان ہند کے قلیل التعداد طبقات

برصغیر میں اہل سنت وجماعت کون؟

محمد ﷺ کے بارے میں دلچسپ معلومات

شیئر کیجیے

Leave a comment