اعلی حضرت امام احمد رضا قادری کا عشق رسول

اعلی حضرت امام احمد رضا قادری کا عشق رسول

Table of Contents

اعلی حضرت امام احمد رضا قادری کا عشق رسول

سلیم خان

متعلم دار العلوم اہل سنت معین الاسلام شیخ نگر پیپاڑ جودھ پور

امام احمد رضا قادری فاضل بریلوی کا سچا عاشق رسول ہونا نا قابل انکار حقیقت ہے کیونکہ مجدد دین و ملت امام احمد رضا خان قادری بریلوی میں عشاق کی وہ تمام علامتیں پائی جاتی ہیں جو علامہ محاسبی نے بیان فرمائی ہیں وہ فرماتے ہیں کہ عشاق اپنے محبوب کا ذکر کثرت سے دائمی طور پر اس طرح کرتے ہیں کہ نہ تو کبھی چھوڑتے ہیں اور نہ کبھی کوتاہی کرتے ہیں اور حکما کا اسی پر اجماع ہے کہ محب محبوب کا کثرت سے ذکر کرتا ہے اور محبوب کا ذکر محبوبوں کے دلوں پر ایسا غالب ہوتا ہے کہ نہ تو اس سے بدل جاتے ہیں اور نہ تو اس سے پھرتے ہیں اگر ان کا ذکر ان سے جدا ہو جائے تو ان کے زندگی تباہ ہو جائے اور وہ کسی چیز میں ذلت و حلاوت نہیں پاتے جو ذکر محبوب میں پاتے ہیں
اعلی حضرت کی ذات مبارکہ میں عشق کی ان علامتوں کا جلوہ ان کے ان اشعار میں ملاحظہ فرمائیں ہیں وہ فرماتے ہیں
جان ہے عشق مصطفی روز فروز کرے خدا
جس کو ہو درکا مزہ ناز دوا سے دوا اٹھائے کیوں

عشق صادق کا ہی نتیجہ ہے کہ نازک سے نازک موڑ پر بھی عشق صادق نے آپ کی دستگیری کی اور حدود شرح میں ادب کی صحیح راہ دیکھائی کتنی ہوشیاری کے ساتھ جذبہ عشق کا اظہار کیا ہے اور احتیاط کے دامن کو چھوڑا بھی نہیں فرماتے ہیں
پیش نظر واہ نو بہار کو دل ہے بے قرار
رو کیے سر کو رو کیے ہاں یہی امتحان ہے
اے شوق دل یہ سجدہ گر ان کو روا نہیں
اچھا وہ سجدہ کیجیے کہ سر کو خبر نہ ہو

حضور سید المرسلین صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے امام احمد رضا کے عشق صادق کا یہی نتیجہ تھا کہ حضور کو آپ نے عالم بیداری میں اپنے دیدار پر انوار سے سرفراز فرمایا اور امام احمد رضا خان قادری علیہ الرحمہ کا بارگا نبی میں انتظار بھی ہو رہا تھا

دربارِ رسالت میں انتظار

بیداری میں دیدارِ مصطَفٰی صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہٖ و سلّم
جب آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ دوسری بار حج کے لیے تشریف لے گئے تو زیارتِ نبیِّ رحمت صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہٖ و سلّم کی آرزو لیے روضہ اَطہر کے سامنے دیر تک صلوٰۃ وسلام پڑھتے رہے، مگر پہلی رات قسمت میں یہ سعادت نہ تھی۔ اس موقع پر وہ معروف نعتیہ غزل لکھی جس کے مَطْلَع میں دامنِ رحمت سے وابستگی کی اُمّیددکھائی ہے ۔

وہ سُوئے لالہ زار پھرتے ہیں
تیرے دن اے بہار پھرتے ہیں

لیکن مَقْطَع میں مذکورہ واقِعہ کی یاس انگیز کیفیت کے پیشِ نظر اپنی بے مائیگی کا نقشہ یوں کھینچا ہے۔

کوئی کیوں پوچھے تیری بات رضاؔ
تجھ سے شَیدا ہزار پھرتے ہیں

اعلیٰحضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے مِصرعِ ثانی میں بطورِ عاجزی اپنے لیے “کُتّے” کا لفظ اِستعمال فرمایا ہے مگر سگِ مدینہ عُفِیَ عَنْہُ نے اَدَباً یہاں “شیدا” لکھ دیا ہے

یہ غزل عرض کرکے دیدار کے اِنتظار میں مُؤَدَّب بیٹھے ہوئے تھے کہ قسمت جاگ اٹھی اور چشمانِ سر سے بیداری میں زیارتِ حُضُورِ اَقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہٖ و سلّم سے مشرَّف ہوئے۔ (حیات اعلٰی حضرت ،ج ۱، ص ۹۲، مکتبۃ المدینہ، بابُ المدینہ کراچی)
میں سمجھتا ہوں کہ دنیا کے گوشے گوشے میں آج اعلی حضرت علیہ الرحمہ کے عاشق موجود ہے اور لوگ آپ کے نام پر جان تک قربان کر دیتے ہیں امام کی مقبولیت کا راز عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہے باقی علوم و فنون کے ماہرین تو دنیا میں بہت گزرے ہیں لیکن دنیا ان کو بھول چکی ہے لیکن امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ آج ہر سنی کے دل میں بستے ہیں


 

حضور اعلی حضرت کا حیرت انگیز قوت حافظہ

 

اعلی حضرت: دو صدیوں کے رہبر اعظم

 

پریس ریلیز: درگاہ اعلیحضرت بریلی

شیئر کیجیے

Leave a comment