پریس ریلیز: درگاہ اعلیحضرت بریلی
ناصر قریشی
صحافتی ترجمان
ہندی و نیپالی پسماندہ مسلم طبقات کی مذھبی،مسلکی،تعلیمی، سماجی اور معاشی زبوں حالی کو دور کرنے اور غریب طبقات کی تعمیر و ترقی میں کلیدی کردار ادا کیا تھا مفتی اعظم ھند نے:مفتی سلیم بریلوی۔
مرکز اھلسنت خانقاہ رضویہ درگاہ اعلیحضرت بریلی شریف کی اھم شخصیت اور مجدددین و ملت اعلیحضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی قدس سرہ کے شہزادے سیدی سرکار مفتی اعظم ھند علامہ مصطفٰی رضا خاں نوری بریلوی قدس سرہ کا ایک روزہ اکتالیسواں عرس قادری نوری مرکز اھلسنت خانقاہ قادریہ رضویہ دربار اعلیحضرت بریلی شریف میں کووڈ ۱۹/ گائڈ لائن کے ضابطوں کی پابندی کے ساتھ محدود افراد کی موجودگی میں مرکز اھلسنت کے سربراہ حضرت سبحانی میاں صاحب کی سرپرستی اور سجادہ نشین حضرت مفتی احسن میاں صاحب کی صدارت و نگرانی میں نہایت سادگی سے انعقاد پذیر ہوا۔
شب میں ایک بج کر چالیس منٹ پر خانقاہی اور صوفیانہ رسم و رواج کے ساتھ قل شریف کی رسم ادا کی گئی۔بعد نماز فجر قرآن خوانی و حلقہ ذکر سے تقریبات عرس کا آغاز ہوا۔قاری رضوان نے تلاوت کی۔حاجی غلام سبحانی اور عاصم نوری نے میلاد پاک کی محفل سجائی۔تحریک تحفظ سنیت نے تقریبات کی ذمہ داریاں سنبھالیں۔فاروق مدنا پوری اور محشر پدارتھ پوری نے نعت و مناقب کے گلدستے پیش کئے۔
صحافتی ترجمان ناصر قریشی نے بتایا کہ منظر اسلام کے مفکر و دانشور اور نباض زمانہ استاذ مفتی محمد سلیم بریلوی صاحب نے اپنے خطاب میں مفتی اعظم کی حیات و خدمات کے ایک اھم، منفرداور اچھوتے گوشے پر روشنی ڈال کر محققین رضویات کو ایک اھم عنوان دیا۔مفتی سلیم صاحب نے بتایا کہ دنیا آج اور اب پسماندہ طبقات کے عروج و ترقی کی باتیں کررھی ہے۔۔حکومتیں اب پسماندہ کمیشن تشکیل دےرھی ہیں
زمانہ اب پسماندہ اور پست و زوال پذیر طبقات کی ترقی کی تحریکیں چلا رھا ھے مگر سرکار مفتی اعظم ھند نے تو آج سے ایک صدی قبل ہی مسلم پسماندہ سماج کی مذھبی، مسلکی، تعلیمی، سماجی، اور معاشی زبوں حالی و پسماندگی کو دور کرنے کی نہایت خلوص و خاموشی کے ساتھ مھم چلائی تھی۔اس کے لئے آپ نے ھندوستان و نیپال کے بے شمار پسماندہ و زبوں حال خطوں کے دورے کرکے وھاں کی مذھبی ،تعلیمی و سماجی زبوں حالی دور کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔
مفتی سلیم نوری نے مزید کہا ک کسی بھی قوم کی سب سے بڑی پسماندگی آس کی مذھبی و تعلیمی،معاشرتی و ذھنی زبوں حالی اور احساس کمتری ہے۔مفتی اعظم ھند نے ھند و نیپال کے ان دبے کچلے غریب و نادار لوگوں کو اپنے دامن کرم میں جگہ دی۔انھیں گلے لگایا، اپنے پاس امیروں کے برابر میں بیٹھایا۔مرید کیا۔اسلام و سنیت کی سچی اور حق تعلیم دی۔
اجازت و خلافت سے سرفراز فرمایا۔ان پسماندہ طبقات کی تعلیم و تربیت کرکے اسلام کے اھم و مقدس منصب منصب امامت پر فائز کیا۔ان کے دلوں سے احساس کمتری ختم کرکے احساس برتری پیدا کیا۔اس طرح آپ نے اس دبے کچلے سماج کو امیر و کبیر سماج کی قطار میں صف اول پر لاکھڑا کیا۔
آپ کے ھند و نیپال۔بنگلہ دیش و پاکستان اور افریقی ممالک وغیرہ میں لاکھوں مرید و خلفاء ہیں جن میں پسماندہ طبقات کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ہمیں مفتی اعظم ھند کے نقش قدم پر چل کر سماجی پسماندگی کو دور کرنے کی تحریک چلانا ہوگی۔رنگ و نسل اور ذات و برادری کے نام پر پنپنے والی نفرت کا خاتمہ کرنا ہوگا۔بحیثیت مسلمان اخوت دینی کے جذبات پیدا کرنے ہوں گے۔
مفتی ایوب خاں نوری نے مفتی اعظم کو حق و صداقت کی عظیم نشانی بتایا۔علامہ مختار بہیڑوی نے مفتی اعظم کو جرآت و بہادری اور اخلاق و کردار کا سچا علم بردار قرار دیا۔مفتی عاقل رضوی نے کہا کہ مفتی اعظم تقوی و پرہیزگاری میں بے مثال تھے۔ان کے علم و فن کا عرب عجم کے علماء نے بھی اعتراف کیا۔قاری عبد الرحمن خان قادری نے کہا کہ مفتی اعظم مادرزاد ولی تھے۔سرکار نوری میاں مارہروی علیہ الرحمہ نے ان کی ولادت کی بشارت سنائی۔چھ ماہ چند دن کی عمر میں روحانیت کے خزانے آپ کے سینے میں انڈیل کر اجازت و خلافت آور بیعت سے سرفراز فرمایا۔
ایک بجکر چالیس منٹ پر قل شریف مفتی افروز مفتی معین۔مفتی جمیل۔مولانا اختر سید شاکر نے پڑھا۔مولانا مختار بہیڑوی نے شجرہ پڑھا۔مفتی احسن میاں صاحب نے قوم و ملت۔مریدین و متوسلین اور ملک و بیرون ملک کے محبین مسلک اعلیحضرت کے لئے دعا کی۔لنگر تقسیم ہوا۔حاجی جاوید خاں۔پرویز خاں نوری۔اورنگ زیب خاں نوری۔شاھد خاں نوری۔اجمل نوری، طاہر علوی ۔کامران خاں۔ظہیر احمد۔،طارق سعید،منظور خاں ساجد۔شان۔مجاھد بیگ۔سید ماجد۔سید اعجاز۔کاشف۔عشرت۔ذھیب وغیرہ نے انتظامات سنبھالے۔