حضور اعلی حضرت کا حیرت انگیز قوت حافظہ

حضور اعلی حضرت کا حیرت انگیز قوت حافظہ

Table of Contents

حضور اعلی حضرت کا حیرت انگیز قوت حافظہ
حضور اعلی حضرت کا حیرت انگیز قوت حافظہ

حضور اعلی حضرت کا حیرت انگیز قوت حافظہ

تحریر: شہباز احمد مصباحی

اللہ عزوجل نے مجدد اعظم، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری حنفی محدث بریلوی قدس سرہ کو حیرت انگیز قوت حافظہ عطا فرمایا تھا ۔ ایک بار جس عبارت یا کتاب کو پڑھ یا سن لیتے، حافظہ میں محفوظ ہوجاتی ۔ قوت یاد داشت کا عالم یہ تھا کہ متقدمین و متاخرین فقہا و محدثین کی کتب و شروح کا حوالہ فی البدیہہ ارشاد فرماتے، جس کتاب، جلد،صفحہ اور سطر کی تعیین کرتے اس میں کوئی فرق نہیں ہوتا ۔

*استاد گرامی حیرت میں:*
اعلیٰ حضرت – رضي الله عنه – خود فرمایا کرتے تھے کہ میرے استاد جن سے میں ابتدائی کتابیں پڑھتا تھا، جب مجھے سبق پڑھادیا کرتے تو ایک دو مرتبہ کتاب دیکھ کر میں کتاب بند کردیتا، جب سبق سنتے حرف بحرف، لفظ بلفظ سنادیتا۔ روزانہ یہ حالت دیکھ کر سخت تعجب کرتے۔ ایک دن مجھ سے کہنے لگے کہ احمد میاں! یہ تو بتاؤ کہ تم آدمی ہو یا جن؟ کہ مجھ کو پڑھانے میں دیر لگتی ہے اور تم کو یاد کرتے دیر نہیں لگتی۔ میں نے عرض کی:” خدا کا شکر ہے میں انسان ہی ہوں، اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم شامل حال ہے” ۔
(فیضان اعلیٰحضرت ،ص:85/84، ناشر: شبیر برادرز، لاہور)

*ایک ماہ میں حفظ قرآن:*
جناب سید ایوب علی رضوی علیہ الرحمہ کا بیان ہے کہ ایک روز حضور نے ارشاد فرمایا کہ بعض ناواقف حضرات میرے نام کے ساتھ”حافظ” لکھ دیا کرتے ہیں، حالانکہ میں اس لقب کا اہل نہیں ہوں۔ یہ ضرور ہے کہ اگر کوئی حافظ صاحب کلام پاک کا کوئی رکوع ایک بار پڑھ کر مجھے سنا دیں، دوبارہ مجھ سے سن لیں۔ بس ایک ترتیب ذہن نشین کرلینا ہے اور اسی روز سے دور شروع فرمادیا، جس کا وقت غالباً عشا کا وضو فرمانے کے بعد سے جماعت قائم ہونے تک مخصوص تھا۔ اس لیے کہ پہلے روز کاشانۂ اقدس سے آتے وقت سورہ بقرہ شریف تلاوت میں تھی اور تیسرے روز تیسرا پارہ قراءت میں تھا۔ جس سے پتا چلا کہ روزانہ ایک پارہ یاد فرما لیا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ تیسویں روز تیسواں پارہ سننے میں آیا۔ (حیات اعلیٰ حضرت، ج :1،ص:129، ناشر: اکبر بک سیلرز، لاہور)
اس واقعہ سے عقل حیران ہے کہ حضور اعلیٰ حضرت قدس سرہ نے ایک بار سن کر یاد کرلیا۔ صرف یاد ہی نہیں، بلکہ تراویح میں مکمل قرآن مجید بھی سنادیا ۔ جب کہ عام طور پر، ایک حافظ قرآن کا سالہا سال میں حفظ مکمل ہوتا ہے ۔ وہ روزانہ یاد کرتا رہتا ہے، تراویح سنانے والے دنوں میں تیاری میں پورا وقت گزر جاتا ہے، صرف ایک ہی کتاب پر پوری توجہ ہوتی ہے، ان محنتوں کے باوجود بھی اس دن حافظ قرآن کی جو دلی کیفیت ہوتی ہے وہی محسوس کرتا ہے ۔ مگر اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالٰی عنہ کی شان ہی کچھ اور ہے ۔ذٰلِكَ فَضْلُ اللّٰهِ یُؤْتِیْهِ مَنْ یَّشَآءُؕ-وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ(سورۃ المائدۃ، الاٰیۃ:45) ترجمۂ کنزالایمان:یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہے دے، اور اللہ وسعت والا علم والا ہے۔

*تیرہ سو برس کی کتابیں حِفظ تھیں:*
حضرت ابوحامِدسیِّدمحمدمحدِّث کچھوچھوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ تکمیل جواب کے لیے جُزئِیّاتِ فِقْہ کی تلاشی میں جو لوگ تھک جاتے، وہ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خدمت میں عَرض کرتے اور حوالہ جات طلب کرتے تو اُسی وقت آپ ارشاد فرماتے: *یہ تو بڑا پرانا سوال ہے، علامہ ابن ہمام نے” فتح القدیر” کے فلاں صفحہ میں، علامہ ابن عابدین شامی نے” ردالمحتار”کی فلاں جلد اور فلاں صفحہ پر،” فتاویٰ ہندیہ” میں،” خیریہ” میں، یہ عبارت صاف صاف موجود ہے۔* اب جو کتابوں کو کھولا تو صفحہ، سطر اور بتائی عبارت میں ایک نقطہ کا فرق نہیں۔ اس خداداد فضل و کمال نے علما کو ہمیشہ حیرت میں رکھا ۔ (حوالہ سابق، ص:130 بتغییر قلیل)
آج ہمارا حال یہ ہے کہ کسی کتاب کا مطالعہ کرنے کے چند روز بعد کوئی مسئلہ پوچھنے پر صفحہ بتانا مشکل ہوجاتا ہے، بلکہ بعض اوقات تو مسئلہ کی حلت و حرمت میں بھی شک پیدا ہوجاتا ہے ۔ مگر اعلیٰ حضرت امام احمد رضا کی قوت حافظہ پر عقلیں دنگ رہ جاتی ہیں، گذشتہ فقہا و محدثین کی کتابوں سے حوالے فی البدیہہ پیش کرتے ہیں، اصل سے مطابقت کی صورت میں کوئی فرق بھی نہیں ہوتا ۔

*مضمون، عمر بھر کے لیے محفوظ ہوگیا:*
خلیفۂ اعلیٰ حضرت ،حضرت علامہ ظفر الدین رضوی بہاری – رحمة الله عليه – فرماتے ہیں: اعلیٰ حضرت ایک مرتبہ پیلی بھیت تشریف لے گئے اور حضرت استادی مولانا وصی احمد محدث سورت قدس سرہ کے مہمان ہوئے ۔ اثنائے گفتگو میں” عقود الدریہ فی تنقیح الفتاوی الحامدیہ” کا ذکر نکلا۔حضرت محدث سورتی صاحب نے فرمایا: میرے کتب خانہ میں ہے۔ اتفاق وقت باوجود کہ اعلیٰ حضرت کے کتب خانہ میں کتابوں کا کافی ذخیرہ تھا اور ہر سال معقول رقم کی نئی نئی کتابیں آیا کرتی تھیں،مگر اس وقت تک” عقود الدریہ” منگوانے کا اتفاق نہ ہوا تھا، اعلیٰ حضرت نے فرمایا: میں نے نہیں دیکھی ہے، جاتے وقت میرے ساتھ کردیجیے گا۔ حضرت محدث سورتی صاحب نے بخوشی قبول کیا اور کتاب لاکر ساتھ ساتھ فرمایا کہ جب ملاحظہ فرمالیں تو بھیج دیجیے گا؛ اس لیے کہ آپ کے یہاں تو بہت کتابیں ہیں، میرے پاس یہی گنتی کی چند کتابیں ہیں، جن سے فتویٰ دیا کرتا ہوں۔اعلیٰ حضرت نے فرمایا: اچھا ۔ اعلیٰ حضرت کا قصد اسی دن واپسی کا تھا،مگر اعلیٰ حضرت کے ایک جاں نثار مرید نے حضرت کی دعوت کی، اس وجہ سے رک جانا پڑا ۔ شب کو اعلیٰ حضرت نے” عقود الدریہ” کو جو ایک ضخیم کتاب دو جلدوں میں تھی، ملاحظہ فرمالیا ۔دوسرے دن دوپہر کے بعد ظہر کی نماز پڑھ کر گاڑی کا وقت تھا، بریلی شریف روانگی کا قصد فرمایا، جب اسباب درست کیا جانے لگا تو” عقود الدریہ” کو بجائے سامان میں رکھنے کے فرمایا کہ محدث صاحب کو دے آؤ، مجھے تعجب ہوا کہ قصد لے جانے کا تھا، واپس کیوں فرمارہے ہیں؟ لیکن کچھ بولنے کی ہمت نہ ہوئی۔ حضرت محدث سورتی صاحب کی خدمت میں میں نے حاضر کی،وہ اعلیٰحضرت سے ملنے اور اسٹیشن تک ساتھ جانے کیے لیے اپنے مکان سے تشریف لاہی رہے تھے کہ میں نے اعلیٰ حضرت کا ارشاد فرمایا ہوا جملہ عرض کیا ، فرمایا، تم کتاب لیے میرے ساتھ واپس چلو۔ میں اس کتاب کولیے ہوئے حضرت محدث صاحب کے ساتھ واپس ہوا۔ حضرت محدث صاحب نے اعلیٰ حضرت سے کہا کہ میرا یہ کہنا کہ ”جب ملاحظہ فرمالیں تو بھیج دیجئے گا”ملال ہوا کہ اس کتاب کو واپس کیا۔ فرمایا:قصد بریلی ساتھ لے جانے کا تھا اور اگر کل ہی جاتا تو اس کتاب کو ساتھ لیتا جاتا، لیکن جب کل جانا نہ ہوا تو شب میں اور صبح کے وقت پوری کتاب دیکھ لی، اب لے جانے کی ضرورت نہ رہی۔ حضرت محدث سورتی صاحب نے فرمایا: بس ایک مرتبہ دیکھ لینا کافی ہوگیا؟ اعلیٰ حضرت نے فرمایا:” *اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے امید ہے کہ دوتین مہینہ تک توجہاں کی عبارت کی ضرورت ہوگی،فتاویٰ میں لکھ دوں گا اور مضمون تو ان شاء اللہ عمر بھر کے لیے محفوظ ہوگیا”*۔ (حوالہ سابق، ص: 134،133)

*جو فرمادیتے وہی لفظ ملتا تھا:*
اعلیٰ حضرت (امام احمد رضا) کے سامنے کوئی سند پڑھی جاتی اور راویوں کے بارے میں دریافت کیا جاتا تو ہر راوی کے جرح و تعدیل کے، جو الفاظ فرمادیتے، اٹھا کر دیکھا جاتا تو ” تقریب” و” تہذیب” و” تذہیب” میں وہی لفظ مل جاتا تھا ۔ (امام احمد رضا،ارباب علم و دانش کی نظر میں، ص: 21،22،دار القلم، ذاکر نگر، نئی دہلی )

یہ خداداد ذہانت کا ہی کرشمہ تھا کہ اعلیٰ حضرت شاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن کو پچپن (55) سے زائد علوم و فنون پر عبور حاصل تھا ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کی علمی وجاہت، فقہی مہارت اور تحقیقی بصیرت کے جلوے دیکھنے ہوں تو فتاویٰ رضویہ دیکھ لیجیے، جس کی (تخریج شدہ) 30 جلدیں ہیں ۔ ایک ہی مفتی کے قلم سے نکلا ہوا یہ غالباً اردو زبان میں دنیا کا ضخیم ترین مجموعۂ فتاویٰ ہے، جوکہ علما کی تحقیق کے مطابق تقریباً بائیس ہزار (22000) صفحات، چھ ہزار آٹھ سو سینتالیس (6847) سوالات کے جوابات اور دو سو چھ رسائل پر مشتمل ہے، جب کہ ہزار مسائل ضمناً زیرِ بحث آتے ہیں ۔
( فیضان امام اہل سنت ،ص:50، پیش کش: ماہنامہ فیضان مدینہ)

*ساڑھے آٹھ گھنٹے میں عظیم تحفہ:*
رسالہ” دولت مکیہ” اعلیٰ حضرت کی زندۂ جاوید کرامت ہے کہ آپ نے بخار کی شدت میں بغیر کسی کتاب کی مدد کے محض اپنی خداد داد یادداشت کے بل پر تفاسیر، احادیث اور کتب ائمہ کی اصل عبارتوں کے حوالہ جات کثیرہ نقل فرماتے ہوئے صرف ساڑھے آٹھ گھنٹے کی قلیل مدت میں تصنیف فرمایا،جس میں حقائق و دقائق معارف و عوارف کے بحر ذخار لہریں مار رہے ہیں ۔ اس کے دلائل قاطعہ و براہین ساطعہ باغیوں کی سر کوبی کے لیے تازہ دم لشکر ہیں ۔ ( سوانح امام احمد رضا، ص:305، ناشر: مکتبہ نوریہ رضویہ، سکھر)

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری قدس سرہ کی علمی وسعت،فہم و فراست،فکری بصیرت، فنی مہارت، ذہنی ذکاوت اور کثرت دلائل کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے درج ذیل تصانیف کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے ۔
❶ الامن والعلی لناعتی المصطفی بدافع البلاء ❷ الدولۃ المکیہ بالمادۃ الغیبیہ ❸ منیر العین فی حکم تقبیل الابھامین ❹ تجلی الیقین بان نبینا سید المرسلین ❺ قوارع القہار علی المجسمۃ الفجار ❻ حیات الموات فی بیان سماع الاموات ❼ سبحن السبوح عن کذب عین المقبوح ❽ دوام العیش من الائمۃ من قریش ❾ جزاء اللہ عدوہ باِبائہ ختم النبوۃ ❿ کفل الفقیہ الفاہم في أحکام قرطاس الدراھم وغیرہ ۔
ان کتابوں میں آپ نے ایک ایک ایک مسئلہ پر قرآن و حدیث اور فقہا کی کتابوں سے سینکڑوں دلائل اپنے موقف کے اثبات میں پیش کیے ہیں۔ اس سے آپ کی علمی مہارت اور ذہانت و فطانت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔

*شاعر مشرق کا بیان:*
شاعر مشرق، ڈاکٹر اقبال کا بیان ہے: *ہندوستان کے دور آخر میں ان جیسا طباع و ذہین فقیہ، پیدا نہیں ہوا*۔ میں نے ان کے فتاویٰ کے مطالعہ سے یہ رائے قائم کی ہے اور ان کے فتاویٰ، ان کی ذہانت، فطانت، جودت طبع، کمال فقاہت اور علوم دینیہ میں تبحر علمی کے شاہد عدل ہیں ۔ (امام احمد رضا، ارباب علم و دانش کی نظر میں، ص:116)

اللہ پاک ہمیں بھی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری محدث بریلوی قدس سرہ کے صدقے، ذہانت و فطانت اور قوت حافظہ کی نعمت عطا فرمائے۔ آمین (بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم)

تحریر: شہباز احمد مصباحی

جامعۃ المدینہ––پڑاؤ،بنارس
27 ستمبر، بروز پیر ، 2021ء

مزید پڑھیں:

معاشرہ کی تعمیر میں دینی مدارس کا کردار

اجمل العلما سیرت و خدمات

پر سکون نیند ایک بڑی نعمت ہے

دعوت و تبلیغ کا نبوی منہج

موبائل فون اور ٹاور سے انسانی صحت پر ہونے والے مضر اثرات

سوشل میڈیا کتنا مفید کتنا مضر

پردے کی اہمیت قرآن و حدیث کی روشنی میں

شیئر کیجیے

Leave a comment