اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ بحیثیت مصنف اعظم

اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ بحیثیت مصنف اعظم

Table of Contents

اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ بحیثیت مصنف اعظم
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

تحریر : شہباز احمد مصباحی
(جامعۃ المدینہ فیضان تاج الشریعہ ـ پڑاؤ )
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

اللہ پاک نے اعلیٰ حضرت، امام احمد رضا قادری حنفی محدث بریلوی قدس سرہ کو گونا گوں فضائل و کمالات کا حامل بنایا تھا ۔ جس طرح آپ ایک عظیم مجدد، محدث، فقیہ، مفسر، مناظر، ادیب اور متکلم تھے، یونہی بلاشبہ، ایک عظیم الشان مصنف تھے ۔ پچاس سے زائد علوم و فنون پر مہارت تامہ رکھتے تھے ۔ کم و بیش ایک ہزار (1000) تصانیف بطور یادگار چھوڑیں۔ ماضی قریب میں ایسے کثیر التصانیف بزرگ سیدنا امام جلال الدین سیوطی شافعی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ ہوئے۔
اعلیٰ حضرت، امام احمد رضا قادری محدث بریلوی نے جس موضوع پر قلم اٹھایا، حق تحقیق ادا کردیا۔ جس عنوان پر خامہ فرسائی کی اس کا گوشہ گوشہ روشن کردیا ۔ تصنیفات رضا میں علم و تحقیق کے وہ خزانے ہیں جن پر عقلیں دنگ اور اہل علم حیران ہیں۔ آپ کا ایک ایک رسالہ علوم ومعارف کا بحر بیکراں ہے۔

تصانیف رضا کی تقسیم: مصنف اعظم، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہ کی تصنیفات کو موضوع کے اعتبار سے خیرالاذکیا، علامہ محمد احمد مصباحی مدظلہ العالی کے بقول، تین اہم حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
❶ اصلاح عقائد اورتصحیح نظریات
❷اصلاح اعمال اور تصحیح عادات
❸ علمی افادات اور فنی تحقیقات

پہلی قسم زیادہ اہم ہے، اس لیے کہ جب اہل باطل کی طرف سے اسلام مخالف نظریات سامنے آئے تو آپ نے انھیں دعوت حق پیش کی۔ باطل کو باطل اور حق کو حق ثابت کیا۔ ان مخالف اسلام خیالات و نظریات کی تردید اور اسلامی عقائد و افکار کے اثبات میں مفصَّل و مدلَّل کتابیں تصنیف کیں ۔ چند کتابوں کے نام یہ ہیں: (1) اعتقادُ الاحباب فی الجمیل و المصطفی والاٰل والاَصحاب (2) الصَمْصام علی مُشککِ فی اٰیۃ عُلوم الارحام (3) کیفرکردار آریہ (4) السُوءُ والعقاب عَلی المسیح الکذاب (5) تمہید ایمان باٰیات قرآن ۔

دوسری قسم سے متعلق وہ کتابیں ہیں جو مسلمانوں میں پھیلی ہوئی بدعات، ناجائز رسوم، احکام شریعت کی خلاف ورزی پر گرفت اور مسلمانوں کی ہدایت و اصلاح پر مشتمل ہیں ۔ اس کے کچھ نمونے یہ ہیں: (1) اَعالی الافادۃ فی تعزیۃ الھند و بیان الشھادۃ (2) الزبدۃ الزکیۃ فی تحریم سجود التحیۃ (3) عطایا القدیر فی حکم التصویر (4) لمعۃ الضحیٰ فی اعفاء اللحیٰ (5) تدبیر فلاح و نجات و اصلاح ۔

تیسری قسم میں آپ کی وہ کتابیں شامل ہیں جو فنی تحقیقات ابداع و ایجاد تک پہنچی ہوئی ہیں ۔پچاس سے زائد علوم و فنون میں نادر علمی تحقیقات کے موتی لٹائے ہیں ۔ علاوہ ازیں تمام کتب متداولہ ( مثلاً: بخاری شریف، مسلم شریف اور دیگر کتب حدیث و تفسیر، کتب فقہ، کتب سیر و تاریخ) پر حواشی لکھے ہیں۔(مصنف اعظم نمبر، ص:923 تا 925، ملخصاً، ناشر: ماہنامہ فیضان شریعت،دہلی)

تصانیف کے اصول اور طریقۂ کار: مصنف اعظم، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری قدس سرہ کا طریقۂ تصنیف اور اس کا معیار کیا ہے؟ خود انہی کی زبانی ملاحظہ فرمائیں:
فقیر حقیر غفرلہ المولی القدیر کو اپنی تمام تصانیف مناظرہ بلکہ اکثر اُن کے ماورا میں بھی جن کا عدد بعونہ تعالٰی اس وقت تك ایك سوچالیس سے متجاوز ہے، ہمیشہ التزام رہا ہے کہ محل خاص نقل واستناد کے سوا محض جمع وتلفیق کلمات سابقین سے کم کام لیا جائے،حتی الوسع بحول وقوت ربانی اپنے ہی فائضات قلب کو جلوہ دیا جائے… اگر اقامت دلائل یا ازاحت اقوال مخالف میں وہ امور مذکور بھی ہوتے ہیں کہ اور متکلمین فی المسئلہ ذکر کرگئے تو غالبًا وہ وہی واضحات متبادرہ الی الفہم ہیں کہ ذہن بے اعانت دیگرے اُن کی طرف سبقت کرے۔انصافًا ان میں سابق ولاحق دونوں کا استحقاق یکساں، مگر ازانجا کہ کلمات متقدمہ میں اُن کا ذکر نظر سے گزرا، اپنی طرف نسبت نہیں کیا جاتا، پھر ان میں بھی بعونہ تعالٰی تلخیص وتہذیب وترصیب وتقریب وحذف زوائد وزیادت فوائد سے جدّت جگہ پائے گی اور کُچھ نہ ہو تو اِن شاء الله تعالٰی طرزِ بیان ہی احلی ووقع فی القلب نظر آئے گی۔ اس وقت تو یہ اپنا بیان ہے جس سے بحمدالله تعالٰی تحدیث بنعمۃ الله عزّوجل مقصود والحمدالله الغفور الودود، اہلِ حسد جس معنے پر چاہیں محمول کریں، مگر اربابِ انصاف اگر تصانیف فقیر کو موازنہ فرمائیں گے بعونہٖ تعالٰی عیان موافق بیان پائیں گے ۔ (فتاویٰ رضویہ مترجم ،ج:5،ص: 164،ناشر: امام احمد رضا اکیڈمی، ممبئی)

(اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ بحیثیت مصنف اعظم)

 

امام احمد رضا کے مطالعہ و تحقیق کا معیار بھی بہت بلند تھا، انھوں نے کبھی لکھی لکھائی اور سنی سنائی پر تکیہ نہ فرمایا، بلکہ اصل متون کا خود مطالعہ فرمایا اور جب تک خود مطمئن نہ ہوتے حوالہ نہ دیتے ۔ ان کے پایۂ تحقیق کا اندازہ” حجب العوار عن مخدوم بہار“ کے مطالعہ سے ہوتا ہے، جس میں انھوں نے متن کتاب کی تحقیق سے متعلق وہ نکات و اصول بیان بیان فرمائے ہیں جو دور جدید کے محققین کے وہم و خیال میں بھی نہیں اور دنیا کا کوئی محقق متن کے لیے یہ اہتمام نہیں کرتا جو امام احمد رضا اہتمام فرماتے تھے ۔ (امام احمد رضا کی فقہی بصیرت، ص: 17، 18، ناشر: رضا دارالاشاعت، لاہور)

تصانیف کی نوعیت: عمدۃ المحققین علامہ محمد احمد مصباحی مدظلہ العالی رقم طراز ہیں: اعلیٰ حضرت امام احمد رضا کی کوئی کتاب ایسی نہیں ہے جو نادر افادات اور حیرت انگیز ایجادات سے خالی ہو ۔ ان میں ایسے مشکل اعتراضات اور صحیح حل بھی ملیں گے جو اگلی کتابوں میں نہیں ۔ علم فقہ و کلام وغیرہ علوم دینیہ میں ان کی مہارت دنیا بھر میں مشہور ہے اور اپنے، بے گانے سب اس کا اعتراف کرتے ہیں ۔
(فتنوں کا ظہور اور اہل حق کا جہاد، ص:226،المجمع الاسلامی، مبارک پور)

تصانیف کی خصوصیات: مصنف اعظم، اعلیٰ حضرت قدس سرہ کی تصنیفات کی کئی خصوصیات ہیں، جن سے آپ کی تصانیف دوسروں سے ممتاز ہوتی ہیں ۔ ہم چند خصوصیت کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
❶ فنون کا تنوع ۔ آپ کے دور میں پائے جانے والے تقریباً تمام علوم و فنون میں تصنیفی خدمات ہیں ۔ جب کہ کثیرالتصانیف مصنفین نے جو کتابیں لکھی ہیں وہ چند موضوعات یا ایک دو فنون تک ہی محدود ہیں ۔
❷ دوسری خصوصیت یہ ہے کہ مختلف زبانوں میں قوم کو تصنیفات سے نوازا ہے، جو اردو، عربی اور فارسی زبان میں ہیں ۔
❸ تیسری خصوصیت یہ ہے کہ نزاعی امور میں لاجواب تصانیف عطا فرمایا، جو اصول و عقائد پر مشتمل ہیں ۔جس موضوع پر کتاب لکھی اس کے بعد سے لے کر آج تک کسی کو جرأت نہ ہوئی کہ اس کا جواب لکھ سکے ۔
(مصنف اعظم نمبر، ص:13،ملتقطاً)

تعداد تصانیف: مصنف اعظم، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا نے نوعمری میں تصنیف و تالیف کا جو سلسلہ شروع فرمایا، پوری زندگی جاری رہا ۔ آپ کی تصنیفات کی حتمی تعداد تو نہیں معلوم، البتہ ایک اندازے کے مطابق پچاس (50) سے زائد علوم و فنون پر مشتمل ہزاروں کتب و رسائل اور حواشی و تعلیقات تحریر کیے ۔ خلیفۂ اعلیٰ حضرت ،علامہ ظفر الدین رضوی بہاری – رحمة الله عليه – کی تحقیق کے مطابق تصانیف کی تعداد چھ سو (600) سے زائد ہے ۔ (حیات اعلیٰ حضرت، ج:2، ص:8،ماخوذاً) ڈاکٹر مسعود احمد صاحب قبلہ (پاکستان) لکھتے ہیں: امام احمد رضا کے وصال کے بعد تحقیق سے معلوم ہوا کہ تصانیف کی تعداد ایک ہزار سے بھی متجاوز ہے ۔ امام احمد رضا کی بہت سی تصانیف تو اب تک شائع بھی نہیں ہوسکیں ۔ (امام احمد رضا اور عالم اسلام، ص:73، ناشر : ادارۂ مسعودیہ ،کراچی) مصلح قوم و ملت،علامہ عبدالمبین نعمانی صاحب قبلہ فرماتے ہیں : یقین سے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اعلیٰ حضرت قدس سرہ نے کل کتنی کتابیں تصنیف کیں ۔ایک اندازہ ہے تعلیقات و حواشی کو لے کر کل کتابوں کی تعداد تقریباً ایک ہزار ہوگی، جن میں بعض تعلیقات و حواشی بہت مختصر بھی ہیں، لیکن بلحاظ کیفیت وہ دوسروں کے لمبے چوڑے حواشی پر بھاری ہیں ۔ (المصنفات الرضویہ ،ص: 12،باہتمام: المجمع الاسلامی، مبارک پور)

(اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ بحیثیت مصنف اعظم)

بہت سی کتابیں ضائع ہوگئیں: مجموعۂ رسائل” البارقۃ الشارقۃ“ کے نام سے تیار ہوا تھا، جس میں کلام و عقائد کے موضوع پر متعدد رسائل تھے، جو بالکل غائب ہے، آج تک اس مجموعے کا کچھ پتہ نہیں ۔ چونکہ یہ مجموعۂ رسائل بدمذہبوں کے رد کے لیے خاص تھا، اس لیے ممکن ہے کہ مخالفین نے چابکدستی و فریب دہی سے اس کو غائب کردیا ہو۔ مخالفین و معاندین نے جو کیا وہ تو علیٰحدہ ہے، خود بعض قریبی لوگوں کی غفلت یا حوادث کی وجہ سے بھی اعلیٰ حضرت کی بہت سی قیمتی تصانیف ضائع ہوگئیں ۔(حوالہ سابق، ص: 11)

علمائے حرمین،تالیفات رضا کے منتظر ہوتے: علمائے حرمین شریفین، آپ کی عربی تالیفات و تصنیفات کا مطالعہ کرتے اور انہیں اس کا شدت سے انتظار ہوتا۔ سید محمد مامون الازرنجانی ثم المدنی آپ کے نام ایک مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں:” امید ہے کہ آپ اپنی بعض عربی تالیفات ارسال فرمائیں گے “۔ (امام احمد رضا کی فقہی بصیرت، ص:20)

حافظ کتب الحرم، شیخ اسماعیل بن خلیل مکی نے حضور اعلیٰ حضرت کے نام اپنے ایک مکتوب میں فرمایا:حضرت کو معلوم ہے کہ میں ان تحریرات کا محتاج ہوں جو آپ نے حاشیہ ابن عابدین پر افادہ فرمائیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو محسنین میں شامل فرمائے ۔ (حوالہ سابق)

حاصل کلام یہ ہے کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اعلیٰ حضرت قدس سرہ قلم کے بادشاہ تھے ۔ اللہ پاک آپ کی تصنیفی خدمات کو قبول فرمائے اور آپ کی تربت اطہر پر رحمت کا نزول فرمائے۔( آمین ثم آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم)


حضور اعلی حضرت کا حیرت انگیز قوت حافظہ

مسلک اعلی حضرت اور فقہی مسائل

کون ہیں اعلی حضرت،کیا ہیں اعلی حضرت؟

شیئر کیجیے

Leave a comment