کون ہیں اعلی حضرت،کیا ہیں اعلی حضرت؟
ازقلم: ابوضیاغلام رسول سعدی
(خصوصی پیشکش بموقع ولادت اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی10شوال 1442ھ)
اعلی حضرت امام اہل سنت مجدددین وملت امام احمد رضا خاں بریلوی رضی اللہ عنہ کی ولادت با سعادت دس شوال 1272ھ بمطابق 14جون 1856ءظہرکے وقت محلہ جسولی شہر بریلی شریف، یوپی میں ہوئی.
پیدائشی نام "محمد” اور تاریخی نام اَلْمُختارْ ہے. جدامجد مولانا رضا علی خاں رضی اللہ عنہ نے آپ کا اسم شریف "احمد رضا” رکھا. خود اعلی حضرت نے اپنی ولادت کا سن ھجری اس آیت کریمہ سے نکالاہے.
اُولئِکَ کَتَبَ فِیْ قُلُوْبِھِمُ الْاِیْمانَ وَاَیَّدَھُمْ بِرُوْحٍ مِنْہُ
” ” ” ” ” ” 1272ھ””””””””””””””
یعنی یہ ہیں وہ لوگ جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان نقش فرمادیاہے اور اپنی طرف کی روح سے ان کی مدد فرمائی ہے.
یعنی تو نہ پائے گا انہیں جواللہ اور قیامت پر ایمان رکھتے ہیں کہ ان کے دل میں ایسوں کی
محبت آنے پائے جنہوں نے خدا اور رسول سے مخالفت کی ہے چاہے وہ ان کے باپ یا بیٹے یا بھائی یا عزیز ہی کیوں نہ ہوں
یہ ہیں وہ لوگ جن کے دلوں میں اللہ ایمان نقش فرمادیا اور اپنی طرف کی روح سےان کی مدد فرمائی.
آیت کریمہ کا حاصل یہ ہے کہ جو شخص اللہ ورسول عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے دشمنوں سے نفرت کرےگا ان سے بیزار ہو کرتنکاتوڑالگ رہے گا. ان سے میل جول دوستی نہ رکھے گا تو اس کے لئے وعدہ الہیہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے دل میں ایمان نقش فرمادےگااور
اس کو اپنی مدد خاص سے نوازےگا.
اپنے اور غیر سب جانتے ہیں کہ اعلیٰ حضرت کی ذات گرامی خدا ورسول کے مخالفوں اور دشمنوں سے نفرت کرنے اور بیزاررہنے میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے. لہٰذا یہ کہنا بالکل بجااور درست ہے کہ اعلیٰ حضرت خدائے تعالیٰ کے ان خاص بندوں میں ہیں جن کے دلوں میں خدائے تعالیٰ نے ایمان نقش فرمادیاہےچنانچہ خود اعلی حضرت نے فرمایا ہے اگر میرے دل کے دوٹکڑے کردیئے جائیں تو خداکی قسم ایک پر لکھا ہوگا
لاالہ الا اللہ اور دوسرے پرلکھاہوگا
محمد رسول اللہ
عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم (بحوالہ سوانح اعلی حضرت ص88،89)
جن کی ایسی شان ہو ایسے اللہ والوں کی مقبولیت مخلوق خدا میں کیسی ہوتی ہے.
حدیث پاک میں ملاحظہ فرمائیں :رسول اعظم نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے:جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت فرماتاہے تو حضرت جبریل علیہ السلام کو نداکی جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ فلاں بندے سے محبت فرماتا ہے لہٰذا تم بھی اس سے محبت کرو تو حضرت جبریل علیہ السلام اس سے محبت کرتےہیں پھر حضرت جبریل علیہ السلام آسمانی مخلوق میں ندا کرتےہیں کہ اللہ تعالیٰ فلاں سے محبت کرتاہے لہذا تم بھی اس سے محبت کرو. پس آسمان والے بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں پھر زمین والوں میں اس کی مقبولیت رکھ دی جاتی ہے. (بخاری شریف :456/1)
اس حدیث پاک کی روشنی میں اعلیٰ حضرت امام اہل سنت مجدددین وملت امام احمد رضا خان بریلوی رضی اللہ عنہ کی مقبولیت کا انداز آپ خود لگالیں.
ایک دو کیا سینکڑوں میں بھی نہیں تیرا جواب
محفل انجم میں جیسے جلوہ گر ہوماہتاب
گرنہ ہوتاآپ کا جودوکرم جلوہ فشاں
تو یہاں ماحول کاکچھ اور ہی ہوتاسماں
اس سرزمیں کا ہرایک ذرہ تیرا مشکور ہے
تیرے باعث ذرہ ذرہ اس جگہ پرنورہے
اعلی حضرت امام اہل سنت امام احمد رضا خان بریلوی رضی اللہ عنہ مشائخ اہلسنت کی نظر میں
(1)تاجدار کچھوچھہ مقدسہ شیخ المشائخ ہم شبیبہ غوث اعظم مخدوم الاولیاء حضرت مولانا سید علی حسین اعلی حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :میرامسلک شریعت وطریقت میں وہی ہے جو حضور پرنور اعلی حضرت مولانا الشاہ احمد رضا خان صاحب بریلوی رضی اللہ تعالٰی عنہ کا ہے. لہٰذا میرے مسلک پر مضبوطی سے قائم رہنے کے لئے سیدنا اعلی حضرت رضی اللہ تعالٰی عنہ کی تصنیفات ضرور مطالعہ میں رکھو. (بحوالہ مجدداسلام ص134) سچ ہے کہ بڑےکو بڑےہی جانتےہیں.
ایک بار تاج الفحول حضرت مولانا شاہ عبدالقادر بدایونی نے اعلی حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی رضی اللہ عنہ کو اپنے والد حضرت شاہ فضل رسول بدایونی قدس سرہ کے عرس پاک میں مدعو کیا. اعلی حضرت اشرفی میاں کے وعظ کے بعد امام احمد رضا خان بریلوی رضی اللہ عنہ تقریر کے لئے کھڑے ہوئے تو فرمایا کہ ابھی آپ نے علم ومعرفت سے لبریز ایسی تقریر سماعت فرمائی جس سے قلب منور ہوتے ہیں اور سلوک وتصوف کے وہ حقائق ودقائق سُنے جن کا بیان اولیاء اللہ کے شایان شان ہے. (شیخ اعظم نمبر ص108
بحوالہ رودادعرس قادری 1327ھ)
ویسے”حیات اعلی حضرت” میں حضرت شاہ اسماعیل حسن مارہروی کا بیان موجود ہے کہ امام اہل سنت فاضل بریلوی نے اپنے زمانے کے مقررین وواعظین کے بارے میں اپنا طرز عمل بیان کرتے ہوئے فرمایا :”حضرت (حضور اشرفی میاں) ان میں سے ہیں جن کا بیان میں بخوشی سنتاہوں. ورنہ آج کل کے وواعظین کا وعظ سنناچھوڑدیاہے.،، (شیخ اعظم نمبر ص108 بحوالہ حیات اعلی حضرت ص234)
ان دونوں حضرات (اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی اور اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی رضی اللہ عنہما) کی محبتوں کا اندازہ اس سے بھی لگائیں. حضرت شیخ المشائخ سید علی حسین اعلی حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی رضی اللہ عنہ،
امام اہلسنت کے عہد مبارک میں جب ریل سے بریلی شریف ریلوے اسٹیشن سے گزرتے تو احتراما کھڑے ہوجاتے اور جب ٹرین بریلی شریف کی حدود سے گزرتی تو بیٹھ جاتے کسی نے عرض کیا حضور آپ بریلی شریف کے حدود سے گزر تے تو آپ کھڑے کیوں ہوجاتےہیں؟ اعلی حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی رضی اللہ عنہ نے فرمایا جب(بریلی شہر میں) ایک عالِم آل رسول کی تعظیم کے لئے کھڑا ہے ہے تو آل رسول کیوں نہ عالم کی تعظیم کے لئے کھڑاہو،(سنی آواز جون جولائی 2027ص6)
حضور محدث اعظم ہند علیہ الرحمہ مجلہ "اشرفی” میں بعنوان حیات اشرفی میں رقمطراز ہیں :اعلی حضرت اشرفی میاں کا قیام بریلی شریف میں تھا وہیں سے دہلی کو روانگی تھی کیونکہ محبوب الہی حضرت نظام الدین اولیاء کے عرس مقدس میں حاضری مقصود تھی. اعلی حضرت فاضل بریلوی نے ایک درخواست دربار سلطان المشائخ کے لئے لکھ کر دی. اس میں اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کو اس طرح مخاطب کیا.
اشرفی اے رخت آئینہ حسن خوباں
اے نظرکردہ وپروردہ سہ محبوباں مجدداسلام دیکھ رہے تھے کہ محبوب سبحانی غوث اعظم، محبوب الہی نظام الدین اولیاء، محبوب یزدانی مخدوم اشرف سمنانی رضی اللہ عنہم کے کرم کی نگاہیں حضور اعلی حضرت اشرفی کو محیط ہیں اور سب کی آغوش رحمت آپ کے لئے کھلی ہیں. آپ کا نورانی چہرہ ایک آئینہ ہے کہ بزرگوں کی تجلیاں اس میں نظر آتی ہیں.،، (بحوالہ شیخ اعظم نمبر ص108)
اعلی حضرت فاضل بریلوی اور اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی رضی اللہ تعالٰی عنھماکے درمیان بہت خوشگوار تعلقات تھے.
ایک مرتبہ دونوں بزرگوں کی ملاقات ہوئی اعلی حضرت حضور اشرفی میاں نے اعلیٰ حضرت امام اہل سنت امام احمد رضا خان بریلوی رضی اللہ عنہ سے فرمایا :مولانا! آپ کو مصطفی رضا خاں کی ولادت مبارک ہو.،، امام احمد رضا خان بریلوی رضی اللہ عنہ نے بھی آنکھیں بند کئے پھر کھول کر ارشاد فرمایا :”میاں! آپ کو مصطفی اشرف کی ولادت مبارک ہو.،، کچھ دنوں کے بعد بریلی کے تاجدار کے یہاں چھوٹے صاحبزادے مصطفی رضا خان کی پیدائش ہوئی اور کچھوچھہ کے تاجدار کے یہاں چھوٹے صاحبزادے مصطفی اشرف پیدا ہوئے. (بحوالہ شیخ اعظم نمبر107)
اعلی حضرت اشرفی میاں کی نگاہ میں امام اہلسنت کا مقام ملاحظہ فرمائیں.
جب امام اہلسنت کا وصال ہواتو اعلی حضرت اشرفی میاں اپنے دولت کدے پر رونق افروز تھے، وضو فرماتے ہوئے رونے لگے کسی کی سمجھ میں نہیں آیا. استفسار پر فرمایا میں فرشتوں کے کندھے پر قطب الارشاد(اعلیٰ حضرت امام اہل سنت) کا جنازہ دیکھ کرروپڑاہوں. اگلے ہی ہفتے تعزیت کے لئے بریلی شریف روانہ ہوگئے.
حضرت صدرالافاضل علیہ الرحمہ نے 1341ھ میں مراد آباد کی سرزمین پر آل انڈیا سنی کانفرنس منعقد کرائی
تو اس کے خطبہ صدارت میں اعلیٰ حضرت اشرفی میاں نے ارشاد فرمایا:
"ان کے (یعنی امام اہلسنت) کے فراق نے میرابازو کمزور کردیا.،، (بحوالہ شیخ اعظم نمبر ص108)
ان دونوں اعلی حضرتوں کی باہمی الفت ومحبت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ امام اہلسنت فاضل بریلوی نے اپنے فرزند اکبر حجۃ الاسلام مولانا حامد رضا خان کو اعلیٰ حضرت اشرفی میاں سے سلسلہ منوریہ میں خلافت دلوائی اور اعلیٰ حضرت اشرفی میاں نے اپنے فرزند اکبر سلطان الواعظین عالم ربانی مولانا سیداحمد اشرف کو مجدداسلام اعلی حضرت فاضل بریلوی سے سلسلہ قادریہ سے خلافت دلوائی کیاایسی یگانگت کی مثال کہیں آسانی سے مل سکتی ہے؟ (بحوالہ شیخ اعظم نمبر ص109،108)
(2)
اعلی حضرت امام اہل سنت امام احمد رضا خان بریلوی رضی اللہ عنہ اپنے زمانہ طالب علمی میں ایک دن اصول فقہ کی مشہور کتاب مسلم الثبوت کا مطالعہ کررہے تھے کہ آپ کے والد ماجد رئیس المتکلمین حضرت مولانا مفتی نقی علی خان علیہ الرحمہ کا تحریر کیاہوگا اعتراض وجواب نظر سے گزرا آپنے کتاب مذکور کے حاشیہ پر اپنا ایک مضمون تحریر فرمایا
جس میں متن کی ایسی تحیقق فرمائی کہ سرے سے اعتراض وارد ہی نہ تھا پھر جب پڑھنے کے لئے حضرت والد ماجد کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضرت مولانا کی نگاہ اعلی حضرت کے حاشیہ پر پڑی دیکھ کر ان کو اتنی مسرت ہوئی کہ اٹھ کر سینے سے لگایا اور فرمایا "احمد رضا” تم مجھ سے پڑھتے نہیں بلکہ مجھکو پڑھاتے ہو. (بحوالہ سوانح اعلی حضرت ص107،106)
(3)
حضور محدث اعظم ہند علیہ الرحمہ علم حدیث میں اختصاص کے بعد آپنے اپنے مامو سلطان الواعظین حضرت علامہ سید احمد اشرف اشرفی جیلانی کچھوچھوی علیہ الرحمہ کی خواہش پر
اعلیٰ حضرت امام اہل سنت رضی اللہ عنہ کی بارگاہ میں فقہ وافتا میں مشق کے لئے جب بریلی شریف تشریف لے گئے، اس کا قصہ الملفوظ کے مرتب حضور مفتی اعظم ھندرضی اللہ عنہ نے یوں بیان فرمایا ہے:”ایک روزحضرت مولانا شاہ سید احمد اشرف صاحب کچھوچھوی (بریلی) تشریف لائے ہوئے تھے، رخصت کے وقت انہوں نے عرض کیا کہ مولوی سید محمد صاحب اشرفی (محدث اعظم ہند) اپنے بھانجے کو میں چاہتاہوں کہ حضور کی خدمت میں حاضر کروں، حضور جو مناسب فرمائیں ان سے کام لیں، ارشاد ہوا، ضرور تشریف لائیں،
یہاں فتوے لکھیں اور مدرسے میں درس دیں، سید محمد اشرفی صاحب تو میرے شہزادے ہیں، میرے پاس جو کچھ ہے وہ انہیں کے جد امجد (حضور غوث پاک رضی اللہ عنہ) کا صدقہ وعطیہ ہے.(الملفوظ حصہ 1ص74،75)
اعلی حضرت کے ارشادات سے محدث اعظم ہند کے لئے حددرجہ محبت وشفقت بھی ظاہر ہوتی ہے کہ اعلیٰ حضرت نے فرمایا، ضرور تشریف لائیں، یہاں فتویٰ لکھیں اور ہمدردی کا بھی پتہ چلتا ہے کہ فرمایا "مدرسے میں درس دیں،، جبکہ اصل مقصود فقہ و افتا میں استفادہ کر نا اور اختصاص حاصل کرنا تھا جیسا کہ دوسالہ کے اندر محدث اعظم ہند نے خاص طور سے بریلی میں یہی کام کیا، اور اپنائیت واحترام کے انتہائی جذبے کی جھلک ان جملوں میں دیکھیے فرماتے ہیں :سید محمد اشرفی صاحب تو میرے شہزادے ہیں،، اور ایسا کیوں نہ ہو کہ محدث اعظم ہند اولاد غوث اعظم تھے، اور اعلیٰ حضرت اپنے سارے فضل وکمال کو غوث اعظم ہی کا صدقہ سمجھتے تھے اور باوجود اس کے کہ محدث اعظم ہند ابھی نو فارغ تھے، بلکہ سلسلہ تعلیم ابھی منقطع نہ ہواتھا کہ بریلی بھی طَلَب علم کے لیے آئے تھے مگر اعلی حضرت کو ان کی صلاحیت پر پورااعتماد تھا،
اس لئے فرمایا :”مدرسے میں درس دیں،، اعلی حضرت کے دور میں اعلیٰ حضرت کے مدرسے” منظر اسلام،، میں درس دینا ہراَیرے غیرے کاکام نہیں تھا.
ملک العلماء علامہ ظفر الدین بہاری علیہ الرحمہ فرماتےہیں:
"ایک مرتبہ پندرہ بطن کا مناسخہ آیا، چونکہ اعلی حضرت کی رائے میں مولانا سید محمد صاحب (محدث اعظم ہند ) نے فن حساب کی تکمیل باضابطہ کی تھی، اور آنہ پائی کا حساب بالکل آسانی سے کرتے تھے لہٰذا یہ مناسخہ انہیں (محدث اعظم ہند) کے سپرد کیا گیا، مولانا سید محمد صاحب(محدث اعظم ہند) کا بیان ہے کہ ان کا سارا دن اسی مناسخے کے حل کرنے میں لگ گیا، شام کو اعلی حضرت کی عادت کریمہ کے مطابق جب بعد نماز عصر پھاٹک میں نشست ہوئی اور فتاوی پیش کئے جانے لگے تو میں نے بھی اپنا قلم بند کیا ہوا جواب اس امید کے ساتھ پیش کیا کہ آج اعلی حضرت کی دادلونگا، پہلے استفتاسنایا:
"فلاں مرا، اور اتنے وارث چھوڑے اور پھر فلاں مرا، اور اتنے وارث چھوڑے غرض پندرہ موت واقع ہونے کے بعد زندوں پران کے حق شرعی کے مطابق ترکہ تقسیم کرناتھا، مرنے والےتو پندرہ تھے، مگر زندہ وارث کی تعداد پچاس سے اوپر تھی،
استفتاختم ہواکہ اعلی حضرت نے فرمایا :” آپنے فلاں کو اتنافلاں کو اتناحصہ دیا.(محدث اعظم ہند) :فرماتے ہیں. ا س وقت میراحال دنیا کی کوئی لغت ظاہر نہیں کر سکتی، علوم اور معارف کی یہ غیر معمول حاضر جوابیاں جس کی کوئی مثال سننے میں نہیں آئی. (بحوالہ حیات اعلی حضرت ج1ص256، 255ترتیب جدید مفتی مطیع الرحمٰن مظطر رضوی)
فقہی جزئیات کا استحضار
کارِافتا میں کس قدر اہم وضروری ہے وہ اہلِ فن پر پوشیدہ نہیں.
اعلی حضرت امام اہل سنت امام احمد رضا خان بریلوی رضی اللہ عنہ کو فقہی جزئیات پرکس قدر عبور تھا اس کاایک اور نظارہ کرنے کے لئے محدث اعظم ہند کی مشاہداتی عینک نے جو دیکھاہے اس کی ایک جھلک اور بھی ملاحظہ فرمائیں.
"یہ چیز روز پیش آتی تھی کہ تکمیل جواب کے لئے جزئیات فقہ کی تلاش میں جو لوگ تھک جاتے تو اعلی حضرت کی بارگاہ میں عرض کرتے اعلی حضرت اسی وقت فرمادیتے ردالمحتارجلد فلاں کے صفحہ فلاں کی سطر فلاں میں ان لفظوں کے ساتھ جزئیہ موجود ہے. درمختار کے فلاں صفحہ کے فلاں سطر میں یہ عبارت ہے.
عالمگیری میں بہ قید جلد وصفحہ وسطر یہ الفاظ موجود ہیں. ہندیہ میں خیریہ میں مبسوط میں ایک ایک کتاب فقہ کی اصلی عبارت بقید صفحہ وسطرارشاد فرمادیتے اب جو کتابوں میں جا کر دیکھتے تو صفحہ وسطر وعبارت وہی پاتے جو زبانی اعلی حضرت نے فرمایا تھا.،،
اعلی حضرت امام اہل سنت امام احمد رضا خان بریلوی رضی اللہ عنہ کے اس استحضارعلمی پر حضور محدث اعظم ہند علیہ الرحمہ نے جو تبصرہ فرمایا ہے وہ سیدی اعلی حضرت کے تبحر علمی کا شاندار خطبہ ہے.
وہ(یعنی حضور محدث اعظم ہند) فرماتے ہیں "اس کو آپ زیادہ سے زیادہ یہی کہ سکتےہیں کہ اعلیٰ حضرت کو چودہ سو برس کی ساری کتابیں حفظ تھیں. یہ چیز بھی اپنی جگہ حیرت انگیز ہے مگر میں تویہ کہہ سکتاہوں کہ حافظ قرآن کریم نے سالہاسال قرآن مجید کو پڑھ کر حفظ کیا، روزانہ دوہرایا، ایک ایک دن میں سوبار دیکھا حافظ ہوا محراب سنانے کی تیاری میں سارادن کاٹ دیا اور صرف ایک کتاب سے واسطہ رکھا، حفظ کے بعد سالہاسال مشغلہ رہا.
ہوسکتاہے کہ کسی حافظ کو تراویح میں لقمے کی حاجت نہ پڑی ہو مگر ایسادیکھا نہیں
گیااورہوسکتاہےکہ حافظ صاحب کسی آیت قرآنیہ کوسن کر اتنا یاد رکھیں کہ ان کے پاس جو قرآن کریم ہے اس میں یہ کریمہ داہنی جانب ہے یا بائیں جانب ہے گویہ بھی بہت نادر چیز ہے مگریہ عادۃ محال اور بالکل محال ہے کہ آیت قرآنیہ کے صفحہ وسطر کو بتایاجاسکے توکوئی بتائے کہ تمام کتب متداولہ وغیر متداولہ کے ہر جملے کو بقید صفحہ وسطر بتانے والااور پورے اسلامی کتب خانے کا صرف حافظ ہی ہے یا وہ اصلی کرامت کانمونہ ربانیہ ہے، جس کے بلند مقام بیان کرنے کے لئے اب تک ارباب لغت واصطلاح لفظ بنانے سے عاجزرہےہیں.،، (بحوالہ جام نور ص60، 61اپریل 2011ء)
اللہ پاک کی بارگاہ میں بطفیل حبیب پاک عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم دعا ہے.
واسطہ غوث الوری کا
واسطہ خواجہ پیاکا
واسطہ کُل اولیاء کا
عِلم دواحمدرضاکا
آمین بجاہ سیدالمرسلین واشرف الاولین وآخرین صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم
فقط. گدائے مخدوم ورضا
اسیرشیخ اعظم
ابوضیاغلام رسول مِہرسعدی اشرفی رضوی کٹیہاری
خلیفہ حضور شیخ الاسلام، حضور قائد ملت حضرت علامہ الشاہ سید محمد محمود اشرف اشرفی جیلانی کچھوچھہ مقدسہ ومفتی انوار الحق خلیفہ حضور مفتی اعظم ھندرضی اللہ عنہ بریلی شریف
10شوال 1442ھ بمطابق 23مئی 2021
بروزاتواربعدنمازظہر
مقیم فیضان مدینہ مسجد علی بلگام کرناٹک
8618303831،9482018892