مسلک اعلی حضرت اور فقہی مسائل

مسلک اعلی حضرت اور فقہی مسائل

Table of Contents

مسلک اعلی حضرت اور فقہی مسائل

از قلم:طارق انور مصباحی

مسلک اعلی حضرت اور فقہی مسائل
مسلک اعلی حضرت اور فقہی مسائل

سوال:

"مسلک اعلی حضرت”میں صرف عقائد شامل ہیں یا عقائد اور فقہی مسائل دونوں شامل ہیں؟

جواب:

اس بارے میں ایک معتدل نظریہ مندرجہ ذیل ہے۔

(الف)اگر مسلک اعلی حضرت میں صرف عقائد اہل سنت کو شامل مانا جائے تو بھی فقہی مسائل اس میں شامل ہوں گے,کیوں کہ باب عقائد کا مسئلہ ہے کہ جو شخص شعار اہل سنت کو نہ مانے,وہ گمراہ ہے۔

صدی سوم سے حضرات ائمہ اربعہ رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین میں سے کسی ایک کی تقلید شخصی شعار اہل سنت میں شامل ہے۔تقلید شخصی کا مفہوم یہی ہے کہ فقہی فروعی مسائل میں حضرات ائمہ اربعہ رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین میں سے کسی ایک امام مجتہد کے بیان کردہ فقہی مسائل پر عمل کیا جائے۔اس طرح تقلید شخصی یعنی فقہی فروعی مسائل میں کسی ایک امام مجتہد کے بیان کردہ مسائل پر عمل کا مسئلہ شعار اہل سنت میں شامل ہو گیا اور شعار اہل سنت کا شمار باب اعتقادیات میں ہوتا ہے,پس حضرات ائمہ اربعہ علیہم الرحمۃ والرضوان میں سے کسی ایک امام معین کے اجتہادی مسائل پر عمل کا مسئلہ شعار سنیت ہونے کی حیثیت سے باب اعتقادیات میں داخل ہو گیا۔

اہل سنت وجماعت کی تعریف میں بھی یہی کہا جاتا ہے کہ جو اشعری یا ماتریدی ہو,اور حضرات ائمہ اربعہ رضی اللہ تعالی عنہم اجمین میں سے کسی ایک امام کا مقلد ہو۔

(ب)اگر مسلک اعلی حضرت میں  فقہی مسائل شامل مانے جائیں تو بھی وہی مفہوم ہو گا کہ اہل سنت وجماعت کے عقائد کو تسلیم کیا جائے اور حضرات ائمہ اربعہ علیہم الرحمۃ والرضوان میں سے کسی ایک امام مجتہد کے بیان کردہ فقہی مسائل پر عمل کیا جائے۔

(ج)اگر فقہی مسائل سےخاص اعلی حضرت قدس سرہ القوی کے بیان کردہ فقہی مسائل مراد لئے جائیں تو بھی مذکورہ بالا مفہوم ہی ثابت ہو گا۔تینوں صورت میں مفہوم ایک ہی رہے گا۔تفصیل مندرجہ ذیل ہے۔

1-مذہب اہل سنت وجماعت کا شعار مذہبی ہے کہ حضرات ائمہ اربعہ علیہم الرحمۃ والرضوان میں سے کسی ایک امام معین کی تقلید کی جائے۔اسی کو تقلید شخصی کہا جاتا ہے۔

اعلی حضرت علیہ الرحمۃ والرضوان کے بیان کردہ مسائل وفتاوی میں بھی یہی ہے کہ حضرات ائمہ اربعہ رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین میں سے کسی ایک امام معین کی تقلید کی جائے۔(رسالہ:النہی الاکید)

اعلی حضرت علیہ الرحمۃ والرضوان بھی تقلید شخصی کو شعار اہل سنت مانتے ہیں۔

اب جو سنی صحیح العقیدہ حنفی ہو,یا مالکی,شافعی ہو یا حنبلی۔وہ مسلک اعلی حضرت کا متبع وپیروکار ہے,کیوں کہ اعلی حضرت علیہ الرحمۃ والرضوان کی تعلیمات میں یہ موجود ہے کہ حضرات ائمہ اربعہ علیہم الرحمۃ والرضوان میں سے کسی ایک معین امام کی تقلید کی جائے۔آپ نے کسی ایک امام مجتہد کی تخصیص نہیں فرمائی کہ حضرات ائمہ اربعہ رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین میں سے صرف فلاں امام کی تقلید کی جائے۔کسی ایک امام معین کی تخصیص جائز بھی نہیں۔امت مسلمہ کا اجماع چار ائمہ مجتہدین پر ہے۔کسی ایک امام معین کی تخصیص کر دینا اور دیگر ائمہ ثلاثہ کو خارج کر دینا اجماع امت کے خلاف ہے۔

2-مذہب اہل سنت کا مسئلہ ہے کہ مجتہد مطلق اصول وفروع میں کسی دوسرے مجتہد مطلق کی تقلید نہیں کریں گے۔مجتہد فی المذہب اصول میں مجتہد مطلق کی پیروی کریں گے اور فروع میں اپنے اجتہادی مسائل پر عمل کریں گے,اسی لئے حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالی عنہ اور ان کے مجتہد فی المذہب تلامذۂ کرام کے درمیان فروعی مسائل میں اختلاف ہوئے,اور وہی تلامذۂ کرام اصول استنباط وقواعد اجتہاد میں حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالی عنہ کی تقلید کرتے ہیں اور سب حنفی شمار ہوتے ہیں۔

مذہب حنفی کا فقہی جزئیہ ہے کہ صاحب نظر فقیہ غیر منصوص مسائل(حوادث جدیدہ)میں اپنی تحقیق پر عمل کرے۔اعلی حضرت علیہ الرحمۃ والرضوان کا بھی یہی فقہی مسلک ہے(فتاوی رضویہ:جلد 18-ص489-501-جامعہ نظامیہ لاہور),پس اعلی حضرت علیہ الرحمۃ والرضوان کے جن بعض تلامذۂ کرام نے غیر منصوص مسائل میں اپنی فقہی تحقیق پر عمل کیا,وہ بھی مسلک اعلی حضرت کے متبع ہیں,کیوں کہ اعلی حضرت قدس سرہ العزیز کی تعلیمات میں یہ موجود ہے کہ صاحب نظر فقیہ اپنی تحقیق پر عمل کرے۔

واضح رہے کہ ہر فقیہ,صاحب نظر فقیہ نہیں۔عہد حاضر اور ماضی قریب میں صاحب نظر فقہا کی تعداد بہت کم نظر آتی ہے۔علم فقہ سے مشغولیت رکھنے والا ہر شخص حوادث جدیدہ کے حل کے لئے قدم نہ بڑھائے۔امت مسلمہ کی ضرورتوں کی تکمیل کے لئے عہد مجتہدین کے بعد بھی ہر عہد میں اللہ تعالی بعض فقہا کو یہ رتبہ عطا فرماتا ہے کہ وہ مسائل حاضرہ کا حل پیش کر سکیں۔فتاوی رضویہ کے مذکورہ بالا فتوی میں بھی اس کا ذکر مرقوم ہے۔

عہد حاضر میں فقہی مجالس کا قیام انتہائی قابل تحسین کارنامہ ہے۔یہاں ملک بھر کے فقہائے کرام باہمی تحقیقات کے ذریعہ جدید مسائل کا حل پیش فرماتے ہیں۔

الحاصل کوئی بھی حنفی ومالکی,شافعی وحنبلی”مسلک اعلی حضرت”سے خارج نہیں۔اسی طرح اعلی حضرت قدس سرہ سے تحقیقی اختلاف کرنے والے صاحب نظر فقیہ بھی مسلک اعلی حضرت کے متبع وپیروکار مانے جائیں گے,جیسے مجتہد مطلق کے مجتہد فی المذہب تلامذہ فروعی امور میں اپنے مجتہد مطلق سے اجتہادی اختلاف کے باوجود ان کے مقلد مانے جاتے ہیں۔مذہب حنفی میں حضرت امام ابو یوسف,حضرت امام محمد,حضرت امام زفر علیہم الرحمۃ والرضوان ودیگر مجتہد فی المذہب تلامذۂ کرام حنفی تسلیم کئے جاتے ہیں,حالاں کہ بہت سے فروعی اجتہادی مسائل میں ان نفوس قدسیہ کو حضرت امام اعظم رضی الہ تعالی عنہ سے اختلاف ہے۔

وضاحت:

اس مضمون میں اعلی حضرت قدس سرہ العزیز کے فقہی مسائل سے فروعات فقہیہ کے فتاوی ومسائل مراد ہیں۔باب اعتقادیات کے فتاوی ومسائل یعنی کلامی فتاوی اس میں شامل نہیں۔کلامی فتاوی باب اعتقادیات میں شامل ہیں۔تکفیر دیابنہ اور اسی طرح اہل ضلالت وبدعت کی تضلیل وتبدیع سے متعلق فتاوی کا شمار باب اعتقادیات میں ہو گا۔

از قلم:طارق انور مصباحی

مزید پڑھیں

عصر حاضر کے جدید مسائل اور ان کا حل

انگریری زبان یا تعیلم حاصل کرنا فتاوی رضویہ کی روشنی میں

ایک حکیمانہ قول کی توضیح

مقرر کے لئے کتنی شرائط ہیں؟

مہر کی مقدار کیا ہے ؟

مسجد کی اشیاء ذاتی مفاد کے لئے استعمال کرنا کیسا ہے ؟

شیئر کیجیے

Leave a comment