وضعِ حدیث کا فتنہ اور اس کا سدِّ باب

وضعِ حدیث کا فتنہ اور اس کا سدِّ باب

Table of Contents

وضعِ حدیث کا فتنہ اور اس کا سدِّ باب
وضعِ حدیث کا فتنہ اور اس کا سدِّ باب

وضعِ حدیث کا فتنہ اور اس کا سدِّ باب

تحریر: شہباز احمد مصباحی

رسول اکرم، نور مجسم ﷺ نے حدیث کی نشر و اشاعت کی ترغیب دیتے ہوئے حاملینِ حدیث کو یوں مژدۂ جاں فزا سنایا ہے۔نَضَّرَ اللَّهُ امْرَأً سَمِعَ مَقَالَتِي، فَوَعَاهَا وَحَفِظَهَا وَبَلَّغَهَا (سنن الترمذی، ج:4،ص:299، کتاب العلم، حدیث:2666) یعنی اللہ عَزَّوَجَلَّ اس شخص کو تروتازہ رکھے، جس نے ہم سے کوئی حدیث سنی پھر اسے اچھی طرح سے یاد کرلیا،یہاں تک کہ اسے دوسروں تک پہنچادیا۔ یونہی حدیث گڑھنے اور آپ کی طرف غلط بات منسوب کرنے والوں کوآپ نے جہنم کے عذاب کی وعید بھی سنائی ہے: مَنْ کَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّداً فَلْیَتَبَوَّأ مَقْعَدَہ مِنَ النَّارِ. جس نے مجھ پر قصداً جھوٹ باندھا، وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے۔ (صحیح بخاری، ص:40، کتاب العلم،باب إثم من کذب علی النبی ﷺ، رقم الحدیث: 110، ناشر : دار ابن کثیر) اس لیے کہ حدیثِ رسول شریعتِ اسلامیہ کا مصدر ثانی ہے اور آپ پر جھوٹ باندھنا عام لوگوں پر جھوٹ باندھنے کی طرح نہیں ہے۔

خلیفۂ ثالث، سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی شہادت کے ساتھ ہی نئے نئے فتنوں نے جنم لیا، ان میں ایک فتنہ وضع حدیث کا تھا، اس کی بیخ کنی کے لیے ائمہ محدثین میدان عمل میں آئے اور انھوں نے جرح و تعدیل، اسمائے رجال اور علل حدیث کے اصول و ضوابط بنائے، ثقہ اور ضعیف راویوں کے احوال و کوائف مرتب کیے کہ وہ کب اور کہاں پیدا ہوئے؟ کب سے علم حدیث میں مشغول ہوئے؟ کیسے اور کس کے ساتھ سنا؟ کہاں اور کب سفر کیا؟ اساتذہ کون ہیں؟ وہ کس علاقے سے ہیں؟ ان کی تاریخ وفات کیا ہے؟ اس موضوع پر محدثین نے مختصر اور مطول متعدد کتابیں لکھی ہیں،جن میں کئی لاکھ اشخاص کے حالاتِ زندگی محفوظ ہیں۔محدثین عظام کا یہ وہ عظیم الشان کارنامہ ہے کہ تاریخ جس کی مثال پیش نہیں کرسکتی۔

حدیث موضوع کی تعریف: وہ جھوٹی اور گڑھی ہوئی بات جس کی نسبت رسول اللہ ﷺ کی طرف کی جائے ۔

حدیث موضوع کا مرتبہ: یہ ضعيف احادیث میں سب سے نچلے درجے کی اور قبیح تر ہے، بلکہ اہل علم نے تو اسے ایک مستقل قسم قرار دیا ہے اور ضعیف حدیث کی اقسام میں شمار نہیں کیا ہے ۔ (تیسیر مصطلح الحدیث،ص:64، 65، ناشر: مکتبۃ المدینہ)

روایت کا حکم: علما کا اس بات پر اتفاق ہے کہ موضوع حدیث کو روایت کرنا جائز نہیں؛ البتہ اگر اس کے موضوع ہونے کو بیان کردیا جائے، تو جائز ہے ۔مسلم شریف کی حدیث ہے: مَن حَدَّثَ بحديثٍ، وهو يَرى أنَّه كَذِبٌ؛ فهو أحَدُ الكاذِبَيْنِ. (مقدمہ صحيح مسلم، ص: 16، ناشر: دارالکتاب العربی) جو شخص میری طرف منسوب کرتے ہوئے ایسی حدیث روایت کرے جس کے بارے میں اسے معلوم ہے کہ وہ جھوٹ ہے، تو وہ جھوٹوں میں سے ایک جھوٹا ہے ۔

 

حدیث گڑھنے میں وضّاعین کے طریقے:

(1) جھوٹی حدیث بنانے والا اولاً اپنی طرف سے کلام وضع کرتا ہے، پھر اس کے لیے من گھڑت سند بناکر روایت کرتا ہے ۔
(2) بعض حکما یا دانش مندوں کا کلام لے کر اس کے لیے سند بناتا ہے ۔ جیسے: المعِدةُ بيتُ الدَّاءِ والحِميَةُ رأسُ الدَّوَاءِ ۔

حدیث کے موضوع ہونے کا علم کیسے ہو؟ کسی حدیث کے موضوع ہونے کے لیے محدثین کے یہاں کچھ اصول و شرائط اور علامتیں ہیں، جن میں سے کسی ایک کا پایا جانا ضروری ہے۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری محدث بریلوی قدس سرہ نے” منیر العین“ میں حدیث موضوع کی علامتوں کو جامع انداز میں اختصار کے ساتھ ذکر کیا ہے، جو درج ذیل ہیں:
ہاں موضوعیت یوں ثابت ہوتی ہے کہ اس روایت کا مضمون (1) قرآن عظیم (2) یا سنتِ متواترہ (3) یا اجماعی قطعی قطعیات الدلالۃ (4) یا عقل صریح (5) یا حسن صحیح (6) یا تاریخ یقینی کے ایسا مخالف ہوکہ احتمالِ تاویل وتطبیق نہ رہے۔(7) یا معنی شنیع وقبیح ہوں، جن کا صدور حضور پُرنور صلوات الله علیہ سے منقول نہ ہو، جیسے: معاذالله کسی فساد یا ظلم یا عبث یا سفہ یا مدح باطل یا ذم حق پر مشتمل ہونا۔ (8) یا ایك جماعت جس کا عدد حدِ تواتر کو پہنچے اور ان میں احتمال کذب یا ایك دوسرے کی تقلید کا نہ رہے اُس کےکذب وبطلان پر گواہی مستندًا الی الحس دے۔
(9) یا خبر کسی ایسے امر کی ہوکہ اگر واقع ہوتا تو اُس کی نقل وخبر مشہور ومستفیض ہوجاتی،مگر اس روایت کے سوا اس کا کہیں پتا نہیں۔
(10) یا کسی حقیر فعل کی مدحت اور اس پر وعدہ وبشارت، یا صغیر امر کی مذمّت اور اس پر وعید وتہدید میں ایسے لمبے چوڑے مبالغے ہوں جنہیں کلام معجز نظام نبوت سے مشابہت نہ رہے۔یہ دس 10 صورتیں تو صریح ظہورو وضوحِ وضع کی ہیں۔
(11) یا یوں حکم وضع کیا جاتا ہے کہ لفظ رکیك وسخیف ہوں، جنہیں سمع دفع اور طبع منع کرے اور ناقل مدعی ہوکہ یہ بعینہا الفاظ کریمہ حضور افصح العرب صلی الله تعالٰی علیہ وسلم ہیں، یا وہ محل ہی نقل بالمعنی کا نہ ہو۔
(12) یا ناقل رافضی حضرات اہلبیت کرام علٰی سیدہم وعلیہم الصلاۃ والسلام کے فضائل میں وہ باتیں روایت کرے جو اُس کے غیر سے ثابت نہ ہوں، جیسے حدیث:لَحْمكَ لحْمِیْ وَدَمكَ دَمِیْ (تیرا گوشت میرا گوشت،تیرا خُون میرا خُون۔)
اقول: انصافًا یوں ہی وہ مناقبِ امیر معاویہ وعمروبن العاص رضی الله تعالٰی عنہما کہ صرف نواصب کی روایت سے آئیں کہ جس طرح روافض نے فضائل امیرالمومنین واہل بیت طاہرین رضی الله تعالٰی عنہم میں قریب تین لاکھ حدیثوں کے وضع کیں”کمانص علیہ الحافظ ابویعلی والحافظ الخلیلی فی الارشاد”(جیسا کہ اس پر حافظ ابویعلی اور حافظ خلیلی نے ارشاد میں تصریح کی ہے) یونہی نواصب نے مناقبِ امیر معاویہ رضی الله تعالٰی عنہ میں حدیثیں گھڑیں، کماارشد الیہ الامام الذاب عن السنۃ احمد بن حنبل رحمہ الله تعالٰی (جیسا کہ اس کی طرف امام احمد بن حنبل رحمہ الله تعالٰی نے رہنمائی فرمائی جو سنّت کا دفاع کرنے والے ہیں)
(13) یا قرائن حالیہ گواہی دے رہے ہوں کہ یہ روایت اس شخص نے کسی طمع سے یاغضب وغیرہما کے باعث ابھی گھڑکر پیش کردی ہے جیسے حدیث سبق میں زیادت جناح اورحدیث ذم معلمین اطفال۔
(14) یا تمام کتب وتصانیف اسلامیہ میں استقرائے تام کیاجائے اور اس کاکہیں پتانہ چلے، یہ صرف اجلہ حفاظ ائمہِ شان کا کام تھاجس کی لیاقت صدہاسال سے معدوم۔
(15) یاراوی خود اقرار وضع کردے خواہ صراحۃً خواہ ایسی بات کہے جو بمنزلہ اقرار ہو،مثلًا ایك شیخ سے بلاواسطہ۔بدعوی سماع روایت کرے،پھراُس کی تاریخِ وفات وہ بتائے کہ اُس کا اس سے سننامعقول نہ ہو۔ (فتاویٰ رضویہ مترجم، ج:5، ص: 460، 462،463، رسالہ: منیر العین ، ناشر: رضا اکیڈمی،ممبئی)

 

وضع حدیث کے اغراض و مقاصد:

قرب الٰہی کا حصول: بعض لوگوں نے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے اور لوگوں کو برے کاموں سے ڈرانے کے لیے حدیثیں گڑھیں، یہ وضاعین زہد و تقوی اور خیرو صلاح کی طرف منسوب ہیں، لیکن یہ بدترین لوگ تھے اس لیے کہ لوگوں نے ثقہ سمجھتے ہوئے ان کی بیان کردہ احادیث پر یقین کرلیا ۔ ایسے لوگوں کی ایک مثال میسرہ بن عبد رب تھا ۔امام ابن حبان نے اپنی کتاب "الضعفاء” میں ابن مہدی سے روایت کیا کہ انہوں نے میسرہ بن عبد ربہ سے پوچھا : تم یہ احادیث کہاں سے لائے ہو کہ جس نے یہ (وظیفہ) پڑھا اس کے لیے اتنا اجر ہے؟ جواب دیا ” میں نے ان احادیث کو خود ایجاد کیا ہے تا کہ لوگوں کو نیکیوں کی طرف راغب کر سکوں“۔ (تیسیر مصطلح الحدیث، ص:65، 66)

مسلک اور فرقے کی تائید: کچھ لوگوں نے اپنے مسلک اور فرقے کی تائید میں حدیثیں بنائیں، جیسے: خوارج و روافض وغیرہ ۔ مثلاً:عَلِيٌّ خَیرُ الْبَشَرِ مَنْ شَک فِیہ َکفَر۔ (حوالہ سابق، بتغير قلیل، ص:66)

اسلام پر طعن و جرح: یہ لوگ زنادقہ میں سے تھے، جب انھیں اسلام کے خلاف علی الاعلان فریب اور کھلم کھلا اعتراضات کی جرات نہ ہوسکی تو یہ خبیث طریقہ اختیار کیا اور اسلام کی تعلیمات اور اس کی شبیہ کو بگاڑنے کے لیے بہت سی حدیثیں وضع کیں، جیسے: محمد بن سعید شامی، جسے اس کی زندیقی کی وجہ سے پھانسی دی گئی ۔ اس نے حمید کے واسطے سے حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مرفوعاً ایک حدیث روایت کی: اَنا خَاتمُ النّبيين لانبیَّ بعدي اِلاَّ اَنْ یشاءَ اللہُ۔ اس شخص نے ختم نبوت کے عقیدے کو ختم کرنے کے لیے اپنی طرف سے ” اِلاَّ اَنْ یَّشاءَ اللہُ“ کا اضافہ کردیا ۔
( تدریب الروای، ص:213، النوع الحادی والعشرون، بتغير قلیل،ناشر: دارالکتب العلمیہ بیروت)

خلیفہ مہدی کے زمانے میں عبد الکریم بن ابی العوجاء کو حدیث وضع کرنے کے سبب سولی دی گئی، جب اس کی گردن مارنے کے لیے پکڑ لیا گیا تو اس نے کہا: میں نے تمھارے درمیان چار ہزارموضوع حدیثیں چھوڑی ہیں، جن میں، میں نے حلال کو حرام اور حرام کو حلال کردیا ہے ۔
(حوالہ سابق)
امام عقیلی رحمة الله تعالیٰ عليه نے حماد بن زید کی طرف اپنی سند کے ساتھ روایت کیا : زنادقہ نے رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب چودہ ہزار (14000) حدیثیں گڑھیں۔(حوالہ سابق)

روزگار کا حصول: ایسے لوگ بھی پیدا ہوئے جو لوگوں کو قصے کہانیاں سنا کر اپنا کاروبار چمکاتے تھے ۔ ابو سعید المدائنی اسی قسم کا ایک قصہ گو ہے۔
(حوالہ سابق، ص: 214)
دور حاضر میں بھی بہت سے ایسے پیشہ ور خطبا اور مقررین ہیں جو کچھ نیا سنانے اور واہ واہی لوٹنے کے چکر میں عجیب و غریب روایات معرض وجود میں لاتے ہیں اور بے دھڑک اس کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی طرف کردیتے ہیں۔ (معاذاللہ)

بادشاہوں اور امیروں کا قرب حاصل کرنا: حدیث، وضع کرنے کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ خلفا اور حکام کا قرب حاصل کیا جائے ۔ جیسے: ایک مرتبہ غیاث بن ابراہیم خلیفہ مہدی کے دربار میں گیا تو خلیفہ کو کبوتر سے کھیلتے ہوئے پایا، اس نے کہا کہ رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:” لا سبَقَ إلا في نَصلٍ أو خُفٍّ أو حَافِرٍ أو جَناَحٍ“۔ مقابلہ نہیں ہے مگر تیر اندازی، اونٹ یا گھوڑے دوڑانے اور کبوتر بازی میں۔ غیاث بن ابراہیم نے خلیفہ کی خوشنودی کے لیے ” أو جَناَحٍ “ کا لفظ بڑھادیا، خلیفہ معاملہ کو سمجھ گیا اور اس نے کبوتر کو ذبح کرنے کا حکم دے دیا اور کہا کہ میں نے ہی اسے اضافہ کرنے پر ابھارا ہے۔ (حوالہ سابق)

کچھ لوگ اپنی رائے سے فتویٰ دیتے تھے، جب ان سے دلیل طلب کی جاتی تو فتویٰ کے مطابق کوئی حدیث بنالیتے تھے۔ بیان کیا گیا ہے کہ حافظ ابو الخطاب بن دحیہ یہ کام کرتے تھے ۔ (حوالہ سابق)

بعض لوگ حدیث کو نادر و نایاب بنانے اور لوگوں کی توجہ کا مرکز بننے کے لیے حدیث کی سند کو الٹ پلٹ دیتے ۔ جیسے : ابن ابی حیہ، حماد النصیبی، بہلول بن عبید اور اصرم بن حوشب۔(حوالہ سابق، ص:215)

 

وضع حدیث میں کَرَّامیہ کا مذہب:

بدعتی فرقوں میں ایک فرقہ کرامیہ ہے، جو محمد بن کرَّام السجستانی کی طرف منسوب ہے، یہ نیکی کی ترغیب میں اور معصیت سے ترہیب کے سلسلے میں احادیث گڑھنے کے جواز کے قائل تھے اور انھوں نے اپنے موقف پر اس حدیث سے استدلال کیا ہے جو بعض سند سے آئی ہے : مَنْ َکذَبَ عَلیَّ مُتَعَمِّدًا لِیُضِلَ بِہٖ النّاس… الخ۔ (حوالہ سابق، ص: 212)
مذکورہ بالا حدیث میں” لِیُضِلَّ بِهٖ الناَّس“ اصل حدیث پر زیادتی ہے اور یہ زیادتی حفاظ حدیث کے نزدیک ثابت نہیں ہے ۔ (تیسیرمصطلح الحدیث،ص: 67)

ان میں سے بعض نے تو یہ بھی کہا:” نَحْنُ نَکْذِبُ لَہ لَا عَلَیْہ“ ہم رسول اللہﷺ کے حق میں جھوٹ بولتے ہیں، آپ کے خلاف نہیں ۔ ان کا یہ استدلال نہایت کمزور ہے، کیوں کہ نبی پاک ﷺ کی شریعت جھوٹوں کی محتاج نہیں ہے کہ وہ لوگ اس کو فروغ دیں۔ ان کا یہ گمان اجماعِ مسلمین کے خلاف ہے، یہاں تک کہ شیخ ابومحمد الجوینی نے واضعِ حدیث پر کفر کا فتویٰ دیا۔(حوالہ سابق)

 

مشہور وضاعین:

وضاعین حدیث کی تعداد بہت زیادہ ہے، مگر ان میں امام نسائی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے بقول چار لوگ زیادہ مشہور ہیں (1) مدینہ منورہ میں، ابن ابی یحییٰ (2) بغداد میں، واقدی (3) خراسان میں، مقاتل (4) اور شام میں، محمد بن سعید المصلوب (تدریب الروای،ص:215)

 

ضعیف اور موضوع میں آسمان و زمین کا فرق ہے:

دور حاضر میں بعض لوگ اپنے موقف کے خلاف صحیح حدیث کو جس طرح ضعیف ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں یونہی کچھ لوگ ضعیف حدیث کو موضوع بنانے کے درپے رہتے ہیں، جب کہ ان دونوں کے مابین فرق اظہر من الشمس ہے ۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری محدث بریلوی قدس سرہ فرماتے ہیں: علما کی تصريح ہے کہ مجرد ضعفِ رواۃ کے سبب، حدیث کو موضوع کہہ دینا ظلم و جزاف ہے ۔(فتاویٰ رضویہ مترجم، رسالہ: منیر العین، ج:5، ص:453 )

خاتم الحفاظ، امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے قدوۃ الفن، امام شمس الدین ذہبی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے حوالے سے نقل کیا: امام ابن جوزی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے” کتاب الموضوعات“ لکھی، اس میں انھوں نے ایسی احادیث کی نشاندہی کی ہے جو عقل و نقل کے مخالف ہیں، یہ کام تو بہت اچھا کیا، البتہ بعض احادیث پر موضوع ہونے کا حکم لگادیا، جو اچھا نہیں کیا ۔ مثلاً، بعض راویوں کے متعلق:” فلان ضعیف“ یا” فلان لیس بقوی“ یا” فلان لین“ یہ حدیث ایسی نہیں کہ جس کے باطل ہونے پر دل گواہی دے نہ اس میں مخالفت ہے، نہ وہ حدیث کتاب و سنت اور اجماع کے معارض ہے اور نہ ان کے علاوہ کسی راوی کے پاس اس کے موضوع ہونے پر کوئی دلیل ہے، یہ تو زیادتی اور اٹکل پچوہے ۔ (تدریب الروای ،ص:209)

 

حدیث موضوع کے رد میں خدماتِ محدثین کی ایک جھلک:

جب بدعتیوں نے ذخیرۂ احادیث میں موضوع روایتیں شامل کرنے کی ناپاک جسارت کیں تو محدثین کرام ان سے مقابلے کے لیے کمر بستہ ہوگئے اور شریعت کے مصدر ثانی کو وضاعین کی دسیسہ کاریوں سے محفوظ و مامون کردیا ۔ امام جرح و تعدیل،امیر المومنین فی الحدیث، امام یحییٰ بن معین رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ تو باضابطہ موضوع حدیثیں لکھ لیا کرتے، پھر انھیں درایت و روایت کی کسوٹی پر رکھتے اور گڑھی ہوئی حدیثوں کو تنور میں ڈال دیتے، آپ خود ارشاد فرماتے ہیں: ” میں نے جھوٹے راویوں سے ایک بڑا ذخیرہ جمع کیا، اس کے بعد میں نے اپنا تنور سلگایا، اس سے نہایت عمدہ پکی پکائی روٹیاں تیار کرلیں“۔(وفیات الاعیان، ج: 5، ص:115، ناشر: دارالکتب العلمیہ، بیروت)

سیدنا امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا بیان ہے: ہم جس زمانے میں صنعا (یمن) میں حدیث پڑھنے میں مشغول تھے، اس وقت امیر المومنین امام یحییٰ بن معین بھی میرے ہم درس تھے، ایک دن میں نے دیکھا کہ آپ ایک گوشے میں بیٹھے ہوئے کچھ لکھ رہے ہیں، اگر کوئی سامنے آتا تو چھپالیتے، پوچھنے پر پتہ چلا کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ کی طرف منسوب” ابان“ کی روایت سے جو جعلی مجموعہ پایا جاتا ہے اس کو نقل کررہے ہیں، میں نے پوچھا، آپ جھوٹی روایتوں کو کیوں نقل کررہے ہیں اور اس سے کیا فائدہ ؟ جواب دیا :میں تو اس لیے لکھ رہا ہوں کہ ان کو زبانی یاد کرلوں، مجھے معلوم ہے کہ یہ سب موضوع روایات ہیں، میرا مقصد یہ ہے کہ آئندہ اگر کوئی روایت میں” ابان“ کی جگہ ثقہ راوی کا نام لے کر گمراہ کرے گا تو میں اس راز کو فاش کروں گا ۔(تہذیب التہذیب، ج:6،ص:181،ناشر: دار احیاء التراث العربی)

 

حدیث موضوع پر لکھی گئی کتابیں:

احادیث موضوعہ کے بارے میں علما و محدثین نے چھوٹی بڑی متعدد کتابیں لکھی گئیں، بطور نمونہ چند کتابیں یہ ہیں: ❶ کتاب الموضوعات، اس کے مؤلف ابوالفرج امام ابن الجوزی ہیں، اس فن میں تصنیف کی گئی کتابوں میں سب سے پہلی کتاب ہے، لیکن وہ حدیث پر حکمِ وضع لگانے میں متساہل ہیں، یہی وجہ ہے کہ علما کی تنقید کا نشانہ بنے اور انھوں نے آپ کا تعاقب کیا۔ (اس کتاب پر مطلقاً اعتماد نہیں کیا جاسکتا، اسی کے قائل علامہ ابن حجر عسقلانی اور امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہما ہیں۔) ❷ اللّالی المصنوعۃ فی الاحادیث الموضوعۃ، یہ خاتم الحفّاظ امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی تصنیف ہے، یہ امام ابن جوزی کی کتاب کا اختصار اور اس پر تعاقب ہے، اس میں چند ان باتوں کا اضافہ بھی ہے جسے امام ابن جوزی نے ذکر نہیں کیا ہے ۔ ❸ تنزیہ الشریعہ المرفوعۃ عن الاحادیث الشنیعۃ الموضوعۃ، یہ امام ابن عراقی کنانی کی تصنیف ہے اور پہلی دونوں کتابوں کی تلخیص ہے، جو جامع، مہذب اور مفید ہے ۔ (تیسیر مصطلح الحدیث،ص:67، 68) ❹ الدر المصنوعات فی الاحادیث الموضوعات ،مؤلف: شیخ محمد بن السفارینی حنبلی ❺ النکت البدیعات علی الموضوعات، مؤلف: خاتم الحفاظ امام جلال الدین سیوطی ❻ التعقبات علی الموضوعات، مؤلف: خاتم الحفاظ امام جلال الدین سیوطی ❼ کتاب الموضوعات، مؤلف: امام جوزقی ❽ تذکرۃ الموضوعات، مؤلف:علامہ طاہر پٹنی❾ رسالۃ الموضوعات، مؤلف: علامہ رضی الدین صاغانی ❿ الاحادیث الموضوعۃ ،مؤلف: شمس الدین الشامی ⓫ تذکرۃ الموضوعات، مؤلف: ملا علی قاری ⓬ الاثار المرفوعہ، مؤلف: علامہ عبد الحیی لکھنوی۔
الرسالۃ المستطرفہ، ص:143، تا 153، ملتقطاً، ناشر: دار البشائر الاسلامیہ)

افراط و تفریط سے بچیں، اعتدال کی راہ اپنائیں:

بہت سے علما و محدثین نے حدیث پر ضعيف یا موضوع کا حکم لگانے اور اس پر عمل کرنے کے باب میں افراط و تفریط کے شکار ہیں، ہمیں کس موقف کو اختیار کرنا چاہیے؟ اس سلسلے میں استاد گرامی وقار، شہزادۂ فقیہ ملت، حضرت مفتی ازہار احمد امجدی مصباحی دام ظلہ العالی کی ایک تحریر پیش خدمت ہے، آپ فرماتے ہیں:
بہرحال، میں اپنی اس بحث سے یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ نہ تو میں ان متساہلین کی تائید کرتا ہوں جو احادیث موضوعہ پر قصداً یا عدمِ علم کی وجہ سے عمل کرتے ہیں، بلکہ میں ان پرعمل کرنے والوں کی سخت مذمت کرتا ہوں، جولوگ عدم علم کی بنا پر ایسا کرتے ہیں، انہیں چاہئے کہ وہ علمائے حدیث کی طرف رجوع کر کے احادیث کے احکام معلوم کریں اور پھر اسی عتبار سے عمل اور بیان کریں اور جولوگ قصداً ایسا کرتے ہیں ان کے لئے وعیدشدید ہے، انہیں حضور ﷺ کے اس فرمان سے عبرت حاصل کرنا چاہیے، چنانچہ حضور ﷺ فرماتے ہیں: جس نے مجھ پر عمداً جھوٹ باندھا اس کا ٹھکانا جہنم ہے۔(متفق علیہ ) لہٰذا ایسے لوگوں پر واجب ہے کہ وہ فوراً اپنے اس عمل سے دست بردار ہوں اور توبہ کریں اور نہ ان متشددین کی موافقت کرتا ہوں جو ضعیف حدیث اور کثرت خطا وغیرہ کی وجہ سے ضعیف شدید حدیث کو موضوع قرار دیتے ہیں یا اس پر عمل کرنے سے منع کرتے ہیں، کیونکہ ایسی صورت میں امت مسلمہ بہت سارے فضائل سے محروم ہو جائے گی، بلکہ میں اِفراط وتفریط سے دور مسلمانوں کو وسطیت اور اعتدال اپنانے کی دعوت دیتا ہوں، وہ اس طرح کہ احادیثِ صحیحہ پرعمل کرنے کا التزام کریں اور ساتھ ہی ضعیف حدیثوں میں وارد فضائل پر بھی توجہ دیں، تا کہ ان کے فوائد سے محروم نہ ہوں ۔(تحقیقات ازہری، ص:45،ناشر:مکتبہ فقیہ ملت)

اللہ کریم محدثین کرام کی خدماتِ حدیث کو قبول کرے، ان کی قبروں پر رحمت و نور کی بارش برسائے اور ان کے فیوض و برکات ہمیں بھی حصہ عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم

وضعِ حدیث کا فتنہ اور اس کا سدِّ باب

تحریر: شہباز احمد مصباحی(ارول)
جامعۃ المدینہ–––پڑاؤ،بنارس

 

مزید پڑھیں:

پردے کی اہمیت قرآن و حدیث کی روشنی میں

برصغیر کے سنی علما کی ترتیب کردہ چودہ مشہور کتب حدیث

امام احمد رضا کے خلفا، تلامذہ اور مریدین کی تفسیری خدمات

خدائی پابندیوں کو اپنا کر ہی "ایڈز- AIDS”سے بچا جا سکتا ہے

اعلیٰ حضرت

محدث اعظم پاکستان اور ادب حدیث

کارٹونوں کی بڑھتی تخریب کاری لمحۂ فکریہ

سو شل میڈیا کا استعمال، ہمارے بچے اور بچیاں

شیئر کیجیے

Leave a comment