سوشل میڈیا کتنا مفید کتنا مضر

سوشل میڈیا کتنا مفید کتنا مضر

Table of Contents

سوشل میڈیا کتنا مفید کتنا مضر
سوشل میڈیا کتنا مفید کتنا مضر

سوشل میڈیا کتنا مفید کتنا مضر

ساغر جمیل رشک مرکزی

سوشل میڈیا یا دو لفظوں سے مل کر بنا ہے ایک سوشل(social) جس کا مطلب ہے سماج اور معاشرہ ، دوسرا میڈیا(media) جس کا مطلب ہے ذریعہ ابلاغ یعنی ایک چیز کو دوسروں تک پہنچانے کا آلہ، اب اس کا سیدھا سا مطلب ہوا کسی بھی خبر یا حادثے وغیرہ کو سماج تک پہنچانے کا ذریعہ۔ جب بھی یہ دونوں لفظ ساتھ میں بولے جاتے ہیں تو سامع کا ذہن سب سے پہلے فیس بک ، واٹس ایپ ، ٹوئٹر اور انسٹاگرام کی طرف جاتا ہے جبکہ اس لفظ میں مزید وسعت ہے یعنی گوگل یوٹیوب یاہو، ٹک ٹوک وغیرہ بھی اسی کے تحت آتے ہیں۔ جب ان سب کا وجود نہیں تھا تو کسی خبر کو ایک جگہ سے دوسری جگہ تک پہنچانے کے لیے ٹی وی اور ریڈیو کا سہارا لیا جاتا تھا وہ بھی مقررہ وقت پر نشر ہوتا تھایا پھر کوئی شخص خود جاکر خبر کو عام کرتا تھا جس سے لوگوں کو کافی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا،کسی خبر کو ایک ہی گاؤں یا محلے کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک پہنچنے میں گھنٹوں لگ جاتے تھے ، ایک ہی صوبے کے دو الگ الگ شہروں میں مقیم رشتے داروں اور خویش واقارب کی خیریت دریافت کئے اور صورت دیکھے مہینوں گزر جاتے تھے ، بہت سے فنکار اور منفرد صلاحیت رکھنے والے افراد چاہے کسی بھی فیلڈ سے تعلق رکھتے ہوں اپنی صلاحیت اور فن کا مظاہرہ کرنے کا موقع نہ ملنے کی وجہ سے اپنے خواب اور صلاحیت کو لیے اس خاکدان گیتی سے روپوش ہو جاتے تھے مگر کسی کو کان و کان خبر تک نہ ہوتی تھی۔ لیکن جب سے سوشل میڈیا وجود میں آیا ہے یہ ساری پریشانیاں دور ہو گئیں۔ اب ہم گھر بیٹھے پوری دنیا کے حالات چاہیے سیاسی ہوں یا سماجی، ملی ہوں یا قومی تنظیمی ہوں یا تحریکی منٹوں میں جان لیتے ہیں ہمارے دوست و احباب چاہے دنیا کے کسی بھی کونے میں ہوں ہم ان سے صوتی اور صوری رابطہ کر لیتے ہیں ان کی پریشانی سے آگاہ ہو کر ان کی مدد کو پہنچتے ہیں، کون کس پر اور کہاں ظلم کر رہا ہے سوشل میڈیا کے ذریعے معلوم کرکے اس کے خلاف علم احتجاج بلند کرتے ہیں اس کے ذریعے دین متین کی تبلیغ بھی ہوتی ہے، ادب و ثقافت اور صحافت کو بھی فروغ مل رہا ہے، نئے لکھاریوں اور شاعروں کو آگے بڑھنے کا موقع فراہم ہو رہا ہے، آزادی رائے کا پورا پورا حق حاصل ہے ،غرض کہ سوشل میڈیا کے کثیر فوائد اور مثبت اثرات ہیں۔ لیکن جہاں پر اس کے مفید اور مثبت اثرات ہیں وہیں پر کچھ مضر و منفی اثرات بھی ہیں۔ اگر ہم بات کریں اس کے ذریعے موصول ہونے والی خبروں کی تو ان میں 40 سے 50 فیصد جھوٹی اور من گھڑت ہوتی ہیں جبکہ سوشل میڈیا لوگوں کو حقیقت سے آگاہ کرنے کے لیے بنایا گیا تھا لیکن آج اس کو لوگوں کو گمراہ کرنے اور ایک قوم کو دوسری قوم سے لڑوانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ۔ اور اگر ہم بات کریں لاکھوں میل دور بیٹھے دوستوں اور رشتہ داروں کی تو فیس بک واٹس ایپ نے یقین ہمیں ان سے جوڑ دیا ہے مگر اپنے پاس بیٹھے لوگوں اور اردگرد کے ماحول سے اتنا ہی دور بھی کر دیا ہے، یہ سچ ہے کہ سوشل میڈیا معلومات کا خزانہ ہے مگر ہم اس خزانے کو حاصل کرنے کے لیے اس میں اس قدر غوطہ زن ہوئے کہ اپنے گرد و نواح میں ہونے والے حادثات و واقعات کو نظر انداز کر دیا حتی کہ اب اسکول و کالج کے طلبہ کلاس میں استاد کا لیکچر سننے کے بجائے سوشل میڈیا میں لگے رہتے ہیں اس کی وجہ سے بہت سے نوجوان بے راہ روی کا شکار ہو رہے ہیں، اکثر طلبہ پڑھائی کے وقت کتابیں کھول کر اسی میں لگے رہتے ہیں۔ آزادی رائے کے نام پر بڑے چھوٹے کا لحاظ بالائے طاق رکھ کر کوئی بھی کچھ بھی بول دیتا ہے۔ ایسے حیا سوز ویڈیوز اور فوٹوز شئیر کئے جاتے ہیں جو ناقابل بیان ہے معاشرہ دن بدن بے حیائی اور بے پردگی کی طرف بڑھ رہا ہے، اب عورتوں کو اپنا جسم دکھانے کے لئے لیے گھر سے نہیں نکلنا پڑتا بلکہ گھر میں بیٹھے بیٹھے سوشل میڈیا کے ذریعے پوری دنیا کو دکھایا جاتا ہے اور جتنے زیادہ لوگ دیکھتے ہیں اتنے ہی فخر سے بیان کیا جاتا ہے اس طرح کی بہت سی برائیاں سوشل میڈیا کے ذریعے پھیل رہی ہیں ۔لیکِن اس میں سوشل میڈیا يا اس کے بنانے والے کا کوئی قصور نہیں بلکہ استعمال کرنے والوں کا قصور ہے، اگر اس کو ضرورت کے مطابق اچھے غرض سے استعمال کیا جائے تو سب کے لیے مفید ثابت ہوگا ورنہ نوجوان نسل کو تباہ کرنے اور ناکارہ بنانے میں سوشل میڈیا کا نام سر فہرست ہوگا۔

سوشل میڈیا کتنا مفید کتنا مضر

ساغر جمیل رشک مرکزی

البرکات اسلامک ریسرچ اینڈ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ ، علی گڑھ

 

مزید پڑھیں:

پردے کی اہمیت قرآن و حدیث کی روشنی میں

برصغیر کے سنی علما کی ترتیب کردہ چودہ مشہور کتب حدیث

امام احمد رضا کے خلفا، تلامذہ اور مریدین کی تفسیری خدمات

خدائی پابندیوں کو اپنا کر ہی "ایڈز- AIDS”سے بچا جا سکتا ہے

اعلیٰ حضرت

محدث اعظم پاکستان اور ادب حدیث

کارٹونوں کی بڑھتی تخریب کاری لمحۂ فکریہ

سو شل میڈیا کا استعمال، ہمارے بچے اور بچیاں

شیئر کیجیے

Leave a comment