نعتِ محبوبِ خدا ﷺ
کاوش: شاکر رضا نوری
مرے رب کی رحمت ادھر ہو رہی ہے
نظر مصطفیٰ کی جدھر ہو رہی ہے
یہ اعجازِ لمسِ یدِ مصطفیٰ ہے
جو مٹی بشکلِ گہر ہو رہی ہے
وہ احوالِ امت سنے جا رہے ہیں
اور آنکھ ان کی آنسو سے تر ہو رہی ہے
طریقِ شہِ دیں پہ چلنے لگے ہیں
ہماری روش کارگر ہو رہی ہے
تصور میں بسنے لگا ہے مدینہ
مری فکر اب خوب تر ہو رہی ہے
مدینہ بسا ہے تصور میں میرے
جو شاخِ سخن با ثمر ہو رہی ہے
ہے پیشِ نظر ان کے روضے کی جالی
نظر یوں مری معتبر ہو رہی ہے
سیہ کار ہیں ہم مگر پھر بھی ان کی
عطا ہم پہ آٹھوں پہر ہو رہی ہے
انہیں سوچنا اور انہیں یاد کرنا
یہی راحتِ دل، جگر ہو رہی ہے
جو سیرت ہے شاہِ دو عالم کی؛ میری
ہر اک موڑ پر راہبر ہو رہی ہے
ملا میں نے رخ پر غبارِ مدینہ
مری شکل رشکِ قمر ہو رہی ہے
نگاہِ کرم کیجیئے مجھ پہ جاناں!
نہیں غم کی شب مختصر ہو رہی ہے
انہیں یاد مشکل گھڑی میں کیا اور
ہر اک مشکل اپنی صفر ہو رہی ہے
کرم شاملِ حال ہے مصطفیٰ کا
"شب زندگی کی سحر ہو رہی ہے”
معذب ہیں کیوں اہلِ مرقد اے نجدی!
شہِ انبیاء کو خبر ہو رہی ہے
تمہاری عطا ؤں کے دم سے شہ دیں!
مری زندگانی بسر ہو رہی ہے
طلب تھوڑا کرتا ہوں میں مصطفیٰ سے
نوازش مگر بیشتر ہو رہی ہے
مری زندگی زیر تھی پہلے آقا!
تمہارے کرم سے زبر ہو رہی ہے
اسے نعت گوئی کا فیضان کہیے
جو ہستی مری مشتہر ہو رہی ہے
رخ زیبا اب تو دکھا دیجے آقا
مری زیست اب مختصر ہو رہی ہے
کرم کی نظر ہو شفیعِ معظم
مری راہ اب پرخطر ہو رہی ہے
میں نعتِ نبی پڑھ رہا ہوں زمیں پر
مری بات واں عرش پر ہو رہی ہے
یہ برکت ہے ماں کی دعاؤں کی شؔاکر !
ہر اک کامیابی جو سر ہو رہی ہے
انہیں میں وسیلہ بناتا ہوں شؔاکر!
دعا اس لیے با اثر ہو رہی ہے