مدحت شہِ والا ﷺ
کاوش فکر: شاکر رضا نوری
نعت کے گل کھلا ابھی کے ابھی
بخت خفتہ جگا ابھی کے ابھی
کل نہ پرسوں؛ دیارِ جاناں میں
مجھ کو لے چل صبا! ابھی کے ابھی
قبر کو نورِ نعت خوانی سے
کر لے تو پُر ضیا ابھی کے ابھی
غم سے تُو کیوں نڈھال دکھتا ہے
"نعت پڑھ مسکرا! ابھی کے ابھی”
چاند کیا آسماں بھی ہوگا شق
چاہیں گر مصطفیٰ ابھی کے ابھی
فکرِ دنیا میں کیوں ہے غوطہ زن
دل کو ان سے لگا ابھی کے ابھی
آئیں گے گھر فرشتے رحمت کے
بزمِ سرور سجا ابھی کے ابھی
چاہتا ہے جو تُو امَر ہونا
شہ پہ ہو جا فدا ابھی کے ابھی
مانگتے ان سے دیر بھی نہ ہوئی
اور دامن بھرا ابھی کے ابھی
روئے رشکِ قمر کی دید کرا
مجھ کو مورے پیا! ابھی کے ابھی
رخ سے پردہ ہٹا رہے ہیں وہ
چاند سن نا! لجا ابھی کے ابھی
نعتِ سرکار پڑھ خلوص سے اور
پا لے اس کا صلہ ابھی کے ابھی
دائمی سربلندی پائے گا
در پہ سر کو جھکا ابھی کے ابھی
اپنے آقا کو دوں صدا کیا بتا؟
بھاگ جا اے بلا ابھی کے ابھی
جن کا کھاتا ہے تو ارے نجدی
کر لے ان سے وفا ابھی کے ابھی
عشقِ احمد کا دیپ اے نجدی!
اپنے دل میں جلا ابھی کے ابھی
ذکرِ احمد رضا میں کرتا ہوں
بھاگ جا نجدیا! ابھی کے ابھی
میری آنکھیں بہت ہی پیاسی ہیں
دید کی مئے پلا ابھی کے ابھی
مر نہ جاؤں کہیں مرے آقا!
مجھ کو طیبہ بلا ابھی کے ابھی
سرخرو ہوگا پا لے آقا کی
تو اے شؔاکر؛ رضا ابھی کے ابھی
کاش شاکر! حضور مجھ سے کہیں
میرے کوچے میں آ ابھی کے ابھی