رہی حضور سے تیری وہ عاشقی صدیق

رہی حضور سے تیری وہ عاشقی صدیق

Table of Contents

رہی حضور سے تیری وہ عاشقی صدیق

واصف رضاواصف

تجھے ہے دہر میں وہ تمکنت ملی صدیق
نثار جس پہ ہے تخت سکندری صدیق

ہدایتوں کا جہاں ترے دم سے ہےمعمور
ہے تجھ سے رونق ایوان آگہی صدیق

خیال کیسے احاطہ کرے تری شاں کا
اے فیض یافتہ ٕ قربت نبی صدیق

قبول حق سے مت اعراض کیجیے تاعمر
سبق پڑھاتی ہے یہ تیری زندگی صدیق

سلامی دیتے ہیں باشندگان کشور عشق
رہی حضور سے تیری وہ عاشقی صدیق

ہے ترے سر پہ خلافت کا تاج تکریمی
کہ ہیچ جس کے مقابل ہےسروری صدیق

ہے تو مزاج شناس محمد عربی
نبی سے خاص ہے وابستگی تری صدیق

پس وصال بھی قربت ملی ہے آقاکی
خداکےفضل سےقسمت کےہیں دھنی صدیق

ابھی بھی دشمن اسلام پہ ہے دھاک جمی
دکھاٸی تو نے کچھ ایسی دلاوری صدیق

مزاج پرسی ، صداقت ، سخاوت وشفقت
ہیں تیری زیست کے یہ جزولازمی صدیق

وہ آشناے رہ فوز و کامرانی ہے
نصیب جن کو بھی ہے تیری رہبری صدیق

ہے پیش نذر عقیدت کے طور پر شاہا
قبول کیجیے واصف کی شاعری صدیق

از
واصف رضا واصف

مدھوبنی بہار

مزید پڑھیں

اے جانشین شہ رسالت رفیق ہجرت رفیق ہجرت

قلب جب یاد ابوبکر سے سرشارہوا

ہے عشق و محبت کا یہ انعام ابوبکر

شیئر کیجیے

Leave a comment