رہی حضور سے تیری وہ عاشقی صدیق
واصف رضاواصف
تجھے ہے دہر میں وہ تمکنت ملی صدیق
نثار جس پہ ہے تخت سکندری صدیق
ہدایتوں کا جہاں ترے دم سے ہےمعمور
ہے تجھ سے رونق ایوان آگہی صدیق
خیال کیسے احاطہ کرے تری شاں کا
اے فیض یافتہ ٕ قربت نبی صدیق
قبول حق سے مت اعراض کیجیے تاعمر
سبق پڑھاتی ہے یہ تیری زندگی صدیق
سلامی دیتے ہیں باشندگان کشور عشق
رہی حضور سے تیری وہ عاشقی صدیق
ہے ترے سر پہ خلافت کا تاج تکریمی
کہ ہیچ جس کے مقابل ہےسروری صدیق
ہے تو مزاج شناس محمد عربی
نبی سے خاص ہے وابستگی تری صدیق
پس وصال بھی قربت ملی ہے آقاکی
خداکےفضل سےقسمت کےہیں دھنی صدیق
ابھی بھی دشمن اسلام پہ ہے دھاک جمی
دکھاٸی تو نے کچھ ایسی دلاوری صدیق
مزاج پرسی ، صداقت ، سخاوت وشفقت
ہیں تیری زیست کے یہ جزولازمی صدیق
وہ آشناے رہ فوز و کامرانی ہے
نصیب جن کو بھی ہے تیری رہبری صدیق
ہے پیش نذر عقیدت کے طور پر شاہا
قبول کیجیے واصف کی شاعری صدیق
از
واصف رضا واصف
مدھوبنی بہار