خطرے میں کون ہے؟
تحریر: غلام مصطفےٰ نعیمی
بھارت میں تقریباً 42 لاکھ فوج ہے، جس میں سی آر پی ایف، ایس ایس ایف، پی اے سی اور ریپڈ ایکشن فورس جیسے کئی نیم فوجی دستے بھی شامل ہیں۔جو باہری دشمنوں کے ساتھ ساتھ اندرونی سطح پر بھی ملکی امن وامان بنائے رکھنے کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔اس کے علاوہ ہر صوبے میں پولس فورس بھی موجود رہتی ہے جو صوبائی سطح پر عوامی جان ومال کی حفاظت کے لیے چوبیس گھنٹے تعینات رہتی ہے
پولیس فورس بھی تقریباً 17 لاکھ سے زائد ہے۔پولیس اور پیرا ملٹری فورس کی اتنی بھاری نفری کی موجودگی میں کوئی بھی معاشرہ چین کی نیند سو سکتا ہے مگر حیرت کی بات ہے اتنی ساری پولیس/فورس کے باوجود ملک کا ایک طبقہ بہت زیادہ خطرے میں ہے۔خوف اس قدر ہے کہ پولیس/آرمی اور پیرا ملٹری فورس کے باوجود اس طبقے نے اپنی حفاظت کے لیے مقامی سطح پر درجنوں فوجیں(सेनाएं)بنا رکھی ہیں۔
مزے کی بات تو یہ ہے کہ یہ خوف زدہ طبقہ ملک کا اکثریتی سماج ہے۔جو کل آبادی کا اسّی فیصد اور تقریباً 82 کروڑ ہے۔(2011 مردم شماری کے مطابق) اور یہ ڈر بھی اس وقت ہے جب ملک کی باگ ڈور اُنہیں کے ہاتھوں میں ہے۔ملکی وسائل پر اسّی تا نوّے فیصد یہی سماج قابض ہے، اس کے باوجود کچھ "شَانتی پُرُشوں” کو لگتا ہے کہ ہندو بہت خطرے میں ہیں۔
اسی خطرے کے پیش نظر انہوں نے مقامی، ضلعی، صوبائی اور ملکی سطح پر چھوٹی بڑی درجنوں فوجیں(सेनाएं) بنا رکھی ہیں تاکہ وہ سینائیں ان کے جان ومال اور ان کی تہذیب کی حفاظت کرسکیں۔ان سیناؤں میں ہندو سینا، کرنی سینا، راجپوت کرنی سینا، ہندو رکشا دل، بجرنگ دَل ، ہندو یُوا واہنی، درگا واہنی، ہندو رکشا سمتی، پرشورام سینا، وشوا ہندو پریشد، شری رام سینا، اور دھرم رکشا سینا جیسی درجنوں سینائیں ہیں۔
جو ہر گلی محلے نکڑ سے لیکر ملک کے کونے کونے میں پھیلی ہوئی ہیں، مگر اتنی ساری سیناؤں کے بعد بھی خطرے کا گراف نیچے آنے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے، جیسے جیسے سینائیں بڑھ رہی ہیں خطرہ بھی اُسی تیزی کے ساتھ بڑھتا جارہا ہے، اگر خطرے کی رفتار یہی رہی ہے تو ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ ایک ایک آدمی کے ساتھ خود ساختہ سینا کی آدھی پونی ٹُکڑی لگانا پڑے گی تاکہ ہندو سماج بے خوف وخطر زندگی گزار سکے۔
کیا واقعی خطرہ ہے؟
ہندو سماج کے ہر سنجیدہ مزاج انسان کو خود سے یہ سوال کرنا چاہیے، کیا واقعی ہندو سماج خطرے میں ہے؟ جس سماج کی تعداد 82 کروڑ ہو، صدر مملکت، وزیر اعظم اور 20 سے زائد وزراے اعلی ہندو سماج سے ہوں۔
ایڈمنسٹریشن میں کانسٹیبل سے لیکر آئی جی تک، قانونی اداروں میں وکیل سے لیکر جج تک، میونسپلٹی سے لیکر ودھان سبھا اور پارلیمنٹ تک جس سماج کی اسّی تا پچاسی فیصد نمائندگی ہو۔الیکشن کمیشن، بینکنگ، سکریٹریٹ تک جس کا دبدبہ ہو۔تعلیمی اداروں میں جن کا مکمل تسلط ہو۔کاروباری سطح پر جو سماج مکمل اجارہ داری رکھتا ہو آخر اس سماج کو کس سے ڈر لگتا ہے اور کیوں لگتا ہے؟
آٹھ سو سال تک مسلم بادشاہوں اور لگ بھگ دو سو سال تک انگریزی حکومت میں رہنے کے بعد جس سماج کو کوئی خطرہ نہیں ہوا، اب اس سماج کو ڈر کیوں لگنے لگا ہے، جب کہ اب تو اِسی سماج کے افراد حاکم ہیں؟
حکومت واقتدار کی طاقت اور غالب ترین افرادی قوت کے بعد بھی اگر ڈر لگتا ہے تو بتایا جائے کہ ڈر نکالنے کے لیے اب کون سا نسخہ ڈھونڈا جائے؟ ملک کے تمام اسباب ووسائل آپ ہی کے قبضہ واختیار میں ہیں، لیکن پھر بھی خطرے کا شور ہے، تو شور مچانے والوں سے پوچھا جائے کہ خطرہ کہاں ہے اور کس سے ہے؟
خطرہ ہونا چاہیے تو عیسائی، سِکھ، جین، پارسی اور بودھ دھرم ماننے والوں کو ہونا چاہیے جن کی تعداد ایک تا ڈھائی فیصد ہے۔یا پھر مسلمانوں کو خطرہ ہونا چاہیے جو ملک کی سب سے پس ماندہ قوم ہیں۔جو تجارت میں صفر اور سیاست میں دوسروں کے رحم وکرم پر ہیں۔جو حکومتی اداروں میں نظر کے ٹیکے سے کمتر ہیں مگر حیرت بالائے حیرت ہے کہ اس ملک کی کسی اقلیت کو ایسا کوئی خطرہ نہیں ہے اور اکثریت مسلسل خوف وہراس میں جی رہی ہے۔
خطرہ نہیں، مفاد کا دھندا ہے!
صحیح بات یہ ہے کہ ملک میں کسی کو ہو تو ہو، مگر اکثریتی سماج کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔اس بات کو سمجھنے کے لیے کسی لمبی چوڑی فائل پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے سماجی سطح پر یہ بات صاف نظر آتی ہے کہ کون سا طبقہ خوش حال اور طاقت ور ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ کچھ لوگوں کا دھندا ‘خطرے’ ہی سے چلتا ہے۔انہیں لگتا ہے کہ اگر ‘خطرہ’ نہیں دکھایا گیا تو ہمارا کیا ہوگا؟
اس لیے وہ لوگ خطرے کا اتنا شور مچاتے ہیں اور اس قدر خوف زدہ کر دیتے ہیں کہ اکثریتی سماج آنکھیں موند کر ان کی باتوں پر یقین کر لیتا ہے بعد میں ‘خطرے سے نپٹنے’ کے نام پر یہ لوگ سیاسی اور تجارتی طاقت حاصل کرکے منہ مانگی مراد حاصل کرتے ہیں، جو قابلیت کی بنیاد پر کبھی حاصل نہیں کر سکتے تھے۔حالانکہ ہمارے ملک کا سماجی تانا بانا پوری طرح گھلا ملا ہے۔ایک دوسرے کے کاروبار/تجارتی تعلقات اور سماجی روابط ایک دوسرے سے جڑے ہیں۔
کوئی سماج چاہ کر بھی ایک دوسرے سے زیادہ دیر تک الگ نہیں رہ سکتا مگر اکثریتی سماج ‘خطرے کے سوداگروں’ کے بہکاوے میں آکر ان کے ہاتھوں کا کھلونا بن جاتا ہے، اور دوسرے طبقات سے نفرت کرنے لگتا ہے۔سماجی اور کاروباری ضرورت کی بنا پر سب سے تعلقات نبھانا مجبوری ہوتی ہے مگر یہ تعلقات دل میں نفرت کے ساتھ نبھائے جاتے ہیں۔اس طرح ساتھ رہ کر بھی دلوں کی دوریاں اور نفرتیں ختم نہیں ہوتیں۔
اچھا ہوگا کہ اکثریتی سماج اپنی آنکھیں کھولے اور حقیقت کا احساس کرے تاکہ ملک میں امن وامان قائم ہو اور نفرتوں کا خاتمہ ہو۔اس ملک میں خطرہ اکثریتی سماج کو نہیں بلکہ انسانیت، بھائی چارگی اور آپسی اتحاد کو ہے اور اس خطرے کو آرمی یا پولیس نہیں بلکہ سماج ہی ختم کر سکتا ہے۔
تحریر: غلام مصطفےٰ نعیمی
مدیر اعلیٰ سوادِ اعظم دہلی
١١ محرم الحرام ١۴۴٣ھ ، 22 اگست 2021 بروز اتوار