اتحاد امت اور اتحاد اہل سنت
از قلم: طارق انور مصباحی
اتحاد امت سے مراد یہ ہے کہ تمام کلمہ گو جماعتیں مشترکہ مقاصد کے حصول کے لئے متحد ہو جائیں۔موجودہ حالات کے پیش نظر راقم اس کی مروجہ صورتوں کی تائید نہیں کرتا۔یہ میری ذاتی رائے ہے۔میں کسی کو اپنی ذاتی رائے کا پابند کرنے کی تمنا نہیں رکھتا۔
اتحاد اہل سنت سے مراد یہ ہے کہ اہل سنت وجماعت(امام احمد رضا قادری علیہ الرحمۃ والرضوان کے متبعین)متحد ومتفق ہو جائیں۔باب فقہیات کے ظنی واجتہادی مسائل میں اختلاف کے سبب طبقہ بندی نہ کریں۔یہ ہمارا تحریری موضوع ہے۔ہم اس کے متمنی ہیں کہ تمام طبقات اہل سنت متحد ومتفق ہو جائیں۔
چند دنوں قبل ادیب شہیر رئیس التحریر حضرت علامہ یسین اختر صاحب قبلہ مصباحی (دہلی)کی ایک تحریر اتحاد امت سے متعلق باصرہ نواز ہوئی۔علامہ موصوف نے معتبر ومستند حوالوں اور اسلاف اہل سنت کے عمل سے ثابت فرمایا کہ بوقت ضرورت کسی دینی مقصد کے حصول کے لئے بدمذہب جماعتوں سے اشتراک عمل کیا جا سکتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ضرورت وحاجت کے وقت شریعت اسلامیہ بدمذیب جماعتوں سے اشتراک عمل کی اجازت دیتی ہے,لیکن ماضی کے حالات وواقعات پر غور کرنے سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ اتحاد امت سے کچھ فائدہ بھی حاصل ہوتا ہے,اور کچھ نقصان بھی اٹھانا پڑتا ہے۔
ہم اتحاد بدمذیباں کے نقصانات سے چشم پوشی نہیں کر سکتے۔ایسی صورت میں مناسب یہی ہے کہ حصول فوائد کے ایسے طریقے اختیار کئے جائیں کہ فائدہ بھی حاصل ہو جائے,اور ہم نقصان سے بھی محفوظ رہیں۔
ہمیں اس موضوع پر حضرت رئیس التحریر صاحب قبلہ سے محض فکری اختلاف ہے۔اسے عہد حاضر کے معہود ومتعارف اختلاف پر محمول نہ کیا جائے کہ راہ ورسم اور میل جول منقطع کر دیا جائے۔
اختلاف رائے کے بعض اسباب مندرجہ ذیل ہیں۔
1-مسلم پرسنل لا کے قیام کے وقت حضور مفتی اعظم ہند قدس سرہ العزیز نے دو مدبر, متصلب اور قوی العلم عالم اہل سنت یعنی حضور برہان ملت جبل پوری اور حضور قائد اہل سنت جمشید پوری علیہما الرحمۃ والرضوان کو مسلم پرسنل لا بورڈ میں شرکت کی اجازت عطا فرمائی اور دونوں حضرات بعض مجلسوں میں شریک بھی ہوئے۔حضرت قائد اہل سنت قدس سرہ القوی نے بمبئی کی مشترکہ مجلس(مسلم پرسنل لا کنونشن: منعقدہ دسمبر 1972) کے اسٹیج سے بدمذہبوں سے اپنے اعتقادی اختلاف کا برملا اعلان فرمایا اور وقتی اتحاد کا سبب بھی بیان فرمایا۔
بعد میں جب علمائے اہل سنت کو یہ محسوس ہو گیا کہ ہمیں صرف استعمال کیا جا رہا ہے اور اس سے عوام اہل سنت بھی غلط فہمی میں مبتلا ہو رہے ہیں۔عوام مسلمین بوجہ ضرورت اتحاد کو بھی مطلق اتحاد سمجھنے لگے ہیں,تب علمائے اہل سنت مسلم پرسنل لا بورڈ سے جدا ہو گئے اور حضرت قائد اہل سنت علیہ الرحمہ نے”مسلم پرسنل لا کانفرنس” کے نام سے ایک تنظیم قائم فرمائی۔
2-پڑوسی ملک میں قادیانیوں کے خلاف متحدہ محاذ قائم ہوا۔قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے لئے سب لوگ مل جل کر کوشش کئے اور کامیاب بھی ہوئے۔
اہل سنت وجماعت کے یہاں جس طرح قادیانی مرتد ہیں۔اسی طرح جو اشخاص اربعہ کے عقائد کفریہ اور ان پر عائد کردہ حکم کفر سے یقینی طور پر واقف ومطلع ہو کر بھی انہیں مومن کہتے ہیں,وہ بھی کافر ومرتد ہیں۔
یہ متحدہ محاذ اہل علم کا تھا۔کم از کم دیوبندی مدارس کے فارغین تو ضرور عناصر اربعہ کے کفریہ عقائد اور ان پر عائد کردہ حکم کفر سے یقینی طور پر واقف ہوتے ہیں,پھر ان کے کفر میں کیا شک ہے؟
جب عوام اہل سنت نے دیوبندی ملاؤں سے علمائے اہل سنت وجماعت کا اتحاد دیکھا تو لوگ یہی سمجھے کہ دیابنہ قادیانی کی طرح کافر نہیں۔رفتہ رفتہ عوام اہل سنت کا میل جول دیوبندیوں سے شروع ہوا,پھر لوگ دیوبندیوں سے شادی بیاہ بھی کرنے لگے۔
آج پڑوسی ملک میں مذبذبین کی ایک جماعت موجود ہے۔یہ مذبذبین تکفیر دیابنہ کی تاویل کرتے ہیں۔دیوبندیوں سے ان کی رشتہ داریاں ہیں۔
بھارت میں بھی بعض لوگ مذبذب ہیں۔ان کے مذبذب ہونے کا سبب بھی یہی بتایا جاتا ہے کہ ان کی قرابت ورشتہ داری اور تعلقات وروابط دیوبندیوں سے ہیں۔
3-ممبئ میں علما کونسل (مخلوط مجلس)کا قیام ہوا۔اس میں علمائے اہل سنت اعلی مناصب پر فائز ہیں۔حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمۃ والرضوان کے ایک بیان ودیگر ذرائع سے یہ معلوم ہوا کہ مرغی محلہ(ممبئی) کی مسجد کے بارے میں سنیوں اور دیوبندیوں کا اختلاف تھا۔علما کونسل نے وہ مسجد دیوبندیوں کو سپرد کر دیا۔جب کہ اس مسجد پر سنیوں کا قبضہ تھا۔یہ اتحاد کی برکت ہے۔
4-مسلم پرسنل لا بورڈ سے گرچہ علمائے اہل سنت جدا ہو گئے,لیکن دیوبندیوں نے بڑی چالاکی سے بعض سنیوں کو مسلم پرسنل لا بورڈ میں شریک کر لیا۔اس طرح آج بھی مسلم پرسنل لا بورڈ خالص دیوبندیوں کی تحریک نہیں,بلکہ مشترکہ بورڈ ہے۔بورڈ بھی یہی تشہیر کرتا ہے کہ یہ تمام مسلمانوں(کلمہ گویان اسلام)کی مشترکہ تنظیم ہے۔
مسلم پرسنل لا بورڈ کے بارے میں بھی یہ خبر سننے کو ملتی ہے کہ بعض مساجد کے بارے میں سنیوں اور دیوبندیوں کا اختلاف تھا۔پرسنل لا بورڈ نے اپنے اثر ورسوخ کو استعمال کر کے وہ مسجد وہابیوں کو دلا دیا۔
دیوبندی جمعیۃ العلما اس بارے میں بہت ماہر ہے۔دیوبندی جمعیۃ العلما کورٹ میں مقدمہ لڑتی ہے اور سنی مسجدوں پر دیوبندیوں کو قبضہ دلاتی ہے۔
5-مئی 2018 میں کرناٹک میں اسمبلی الیکشن ہوا۔اس سے قبل ریاست کرناٹک کے علما کی ایک مشترکہ سیاسی مٹنگ شیوا جی بنگلور کے ایک شادی ہال میں ہوئی۔اس مجلس میں علمائے اہل سنت کے ساتھ دیوبندی لوگ بھی شریک تھے۔
موضوع بحث یہ تھا کہ حالیہ اسمبلی الیکشن میں مسلمانان کرناٹک کس پارٹی کا سپورٹ کریں اور کس کو ووٹ دیں؟
خطاب کرنے والوں نے اصل موضوع کے ساتھ دیابنہ کے ایمان کو بھی موضوع بحث بنایا اور دیوبندیوں کو کامل الایمان ثابت کرنے کی کوشش کی۔اسی مجلس میں یہ بھی مشورہ دیا گیا کہ جب سنی اور دیگر مذاہب کے لوگ کہیں ملیں تو آپس میں سلام وکلام کریں۔رخ پھیر کر آگے نہ بڑھ جائیں۔
احباب کے اصرار پر بحیثیت سامع راقم السطور بھی شامل محفل ہوا تھا۔جب ہم نے اس طرح کی باتیں سنیں تو پروگرام کے درمیان ہی مجلس سے اٹھ کر باہر چلے گئے۔چند احباب بھی باہر چلے آئے۔
اندازہ یہی ہے کہ اب اتحاد عمل ہو گا تو عقائد ونظریات پر بھی ضرب پڑے گی۔اب نہ تو حضور مفتی اعظم ہند ہیں,نہ برہان ملت,نہ قائد اہل سنت(عیلہم الرحمۃ والرضوان)
اب تو بعض ایسے محققین بھی نظر آتے ہیں جو تکفیر دیابنہ کی باطل تاویل کرتے ہیں۔
قریبا چودہ صدی بعد نانوتوی نے ختم نبوت کا ایک نیا مفہوم گڑھ لیا۔صحیح مفہوم کی نشاندہی کے باوجود وہ اپنی جدید تاویل پر اصرار کرتا رہا۔
اسی طرح عہد حاضر کے بعض محققین "من شک فی کفرہ وعذابہ فقد کفر”کی جدید تاویل کرتے ہیں اور اپنی تاویل پر اصرار بھی۔
یہ قاعدہ کلیہ(من شک:الخ)قرآن وحدیث سے ماخوذ ہے۔قرین قیاس یہی ہے کہ سب سے پہلے اس اصول کا استعمال حضرت امام احمد بن حنبل رضی اللہ تعالی عنہ اور ان کے معاصر علمائے اہل سنت نے خلق قرآن کے قائلین کے حق میں کیا تھا۔
اب بارہ صدیوں بعد اس قاعدہ کلیہ کا ایک جدید مفہوم اختراع کیا گیا ہے۔اسی طرح تکفیر دیابنہ سے متعلق بھی عجیب وغریب تشریحات منظر عام پر آ رہی ہیں۔ان شاء اللہ تعالی صحیح تشریحات رقم کر کے سپرد قوم کی جائیں گی,تاکہ اہل علم متقابل تشریحات پر غور وفکر کے بعد کوئی فیصلہ صادر فرمائیں۔
یہ حقیقت بالکل واضح ہے کہ فریقین کا فیصلہ دیگر علمائے کرام کو کرنا ہو گا۔فریقین خود فیصلہ نہیں کر سکتے,ورنہ ہر فریق اپنی بات کو صحیح قرار دے گا اور معاملہ حل نہیں ہو گا۔
فریقین غور وفکر کے بعد کسی بات پر اتفاق کر سکتے ہیں,لیکن اختلافی معاملہ میں کوئی فریق فیصلہ کرنے کا مجاز نہیں۔
سیاسی اتحاد اور نمائندہ کا تقرر
بدمذہبوں سے سیاسی اتحاد کی بجائے سنی صحیح العقیدہ مسلمانوں کی ایک متحدہ مجلس عمل قائم کی جائے جو سیاسی وحکومتی مسائل پر غور وفکر کرے۔اس سے اہل سنت وجماعت کے درمیان باہمی اتحاد کو بھی فروغ ملے گا اور اپنی قوت کا بھی احساس ہو گا۔
اگر کبھی بدمذہبوں سے اتحاد رائے کی ضرورت ہو تو ایک نمائندہ اور سفیر ہماری جانب سے مقرر ہو جو بدمذہبوں کی بڑی تحریکوں سے گفت وشنید کر کے اتحاد رائے کی کوشش کرے۔
ہر ملک کے سفارت خانے اور سفیر دیگر ممالک میں ہوتے ہیں۔یہ سفرا اپنے ملک کا پیغام دیگر ممالک تک پہنچاتے ہیں اور دیگر ملکوں کے پیغامات اپنے ملک کو بھیجتے ہیں۔
سفارت کاری اور نمائندگی کا نظام قائم ہو تو عوام الناس غلط فہمی میں مبتلا ہونے سے محفوظ رہیں گے,ورنہ سیاسی اتحاد کو بھی لوگ عام اتحاد سمجھ لیتے ہیں اور بلا ضرورت میل جول,نشست وبرخاست,شادی بیاہ سب کچھ کرنے لگتے ہیں۔العوام کالانعام
امید یہی ہے کہ اکابر علمائے کرام اہل سنت وجماعت کی کسی متحدہ مجلس کے قیام کی جانب قدم نہیں بڑھائیں گے۔ متوسطین واصاغرین اس جانب قدم بڑھائیں۔ہو سکتا ہے کہ نسل جدید کے ذریعہ صلاح وفلاح کی منزلیں آسان ہو جائیں اور برادران اہل سنت متحد ومتفق ہو جائیں۔
از قلم: طارق انور مصباحی
جاری کردہ:21:اگست 2021