یہ بھارت میں ہی ممکن ہے!

یہ بھارت میں ہی ممکن ہے!

Table of Contents

یہ بھارت میں ہی ممکن ہے!

از قلم:غلام مصطفیٰ نعیمی

روشن مستقبل دہلی

یہ بھارت میں ہی ممکن ہے!
یہ بھارت میں ہی ممکن ہے!

 

یہ بھارت میں ہی ممکن ہے! آسٹریلین کرکٹر اینڈریو ٹائی، آئی پی ایل کھیلنے بھارت پہنچے تھے لیکن کورونا کی خطرناک صورت حال دیکھ جلد ہی واپسی کی راہ پکڑ لی۔جاتے ہوئے اس کھلاڑی نے کہا:

"جس ملک میں مریضوں کو اسپتال نہیں مل رہا ہے اس ملک میں حکومت اور ٹیم فرینچائزی آئی پی ایل پر اتنا پیسہ کیسے خرچ کر رہے ہیں؟

 

یہ کھلاڑی تو واپس اپنے ملک چلا گیا مگر حکومت اور آئی پی ایل انتظامیہ کو شرم نہ آنا تھی، اور نہ آئی، آج بھی نہایت بے شرمی کے ساتھ کرکٹ اور گلیمر کا تماشا جاری ہے۔یہ سب اس دور میں ہورہا ہے جب کہ ملک میں روزانہ ساڑھے تین لاکھ سے زائد مریض نکل رہے ہیں اور تقریباً ساڑھے تین ہزار موتیں ہورہی ہیں۔ایک طرف شمشان گھاٹوں پر چتاؤں کی آگ روشن ہے تو کرکٹ کے میدانوں پر بے غیرتی کی لائٹیں انسانیت کو شرمندہ کر رہی ہیں۔

 

حال ہی میں احمدآباد گجرات میں دنیا کا سب سے بڑا کرکٹ اسٹیڈیم بنایا گیا ہے۔جسے موجودہ وزیر اعظم کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔یہ اسٹیڈیم 63 ایکڑ زمین میں بنا ہے۔ایک لاکھ 32 ہزار افراد کے بیٹھنے کا بہترین انتظام ہے۔کھلاڑیوں کے لیے ڈریسنگ روم کے ساتھ ساتھ الگ الگ جِم(Gym) کی سہولت بھی دستیاب ہے۔اس اسٹیڈیم کی تعمیر نو پر آٹھ سو کروڑ روپے کا خرچ آیا ہے۔حالانکہ پرانا اسٹیڈیم بھی اچھا خاصا بڑا اور سہولتوں سے مزین تھا۔اس میں بھی تقریباً 90 ہزار افراد بیٹھ سکتے تھے مگر محض ریکارڈ بنانے کے لیے عوام کی گاڑھی کمائی پانی کی طرح بہائی گئی۔اسی احمدآباد میں کورونا کی صورت حال اس قدر بری ہے کہ اسپتالوں میں بیڈ خالی نہیں ہیں جس کی بنا پر اسپتال کے باہر ہی مریضوں کو ایمبولینس میں آکسیجن فراہم کی جارہی ہے۔بعض مریض کو تو ایمبولینس بھی میسر نہیں ہے وہ سڑک پر بیٹھے ہوئے ہی آکسیجن لینے پر مجبور ہیں۔اس وقت احمدآباد کی صورت حال یہ ہے کہ ہر گھنٹے میں قریب تین موتیں ہورہی ہیں۔ہر منٹ چار نئے مریض نکل رہے ہیں۔روزنامہ دینک بھاسکر کے مطابق احمدآباد شہر کورونا ہاٹ اسپاٹ نہیں بلکہ "ڈیتھ اسپاٹ” بن گیا ہے۔اسے اکیسوی صدی کا سب سے بڑا تماشا ہی کہیں گے کہ ایک ہی شہر میں ہر تیسرے منٹ میں تین لوگ جان سے ہاتھ دھو رہے ہیں تو اسی شہر میں ہر چوکے چھکّے پر کروڑوں روپیہ پھونکا جارہا ہے۔

 

بھارت کے سب سے امیر ترین بزنس مین مکیش امبانی کی ٹیم "ممبئی انڈینس” آئی پی ایل میں اپنے خطاب کا دفاع کر رہی ہے۔پوری ٹیم کے کھلاڑیوں اور معاون اسٹاف کی سیلری دو سو کروڑ سے اوپر ہے، آمد ورفت اور دیگر اخراجات مستزاد۔ایک طرف محض ایک ٹورنامنٹ کے لیے ملک کا سب سے بڑا کاروباری کئی سو کروڑ خرچ کر رہا ہے دوسری طرف اسی ممبئی شہر میں موت کا سناٹا طاری ہے۔ایک طرف موت کی خاموشی تو دوسری طرف چوکوں چھکوں کا جشن! کیا بھارت کے علاوہ ایسا نظارہ ممکن ہے؟

 

ملک میں طبی سہولیات کا یہ عالم ہے کہ اب تک یوپی میں بی جے پی کے تین ممبر اسمبلی اور دو وزیر کورونا سے مر چکے ہیں۔نواب گنج بریلی کے بی جے پی ودھایک کیسر سنگھ گنگوار نے مرکزی وزیر صحت کو خط لکھ کر میکس اسپتال دہلی میں ایک بیڈ دلانے کی گزارش کی تھی مگر وزیر صحت اپنی ہی پارٹی کے ودھایک کو ایک بیڈ نہیں دلا سکے یہاں تک کہ ممبر اسمبلی کی موت ہوگئی۔باپ کی موت سے دل برداشتہ ان کے بیٹے آکاش گنگوار نے یوگی حکومت کی مذمت کرتے ہوئے کہا:

"یوپی حکومت اپنے ہی ودھایک کا علاج نہیں کرا پارہی ہے۔وزیر اعلی کے دفتر پر لگاتار فون کے باوجود کوئی فون اٹھانے تیار نہیں ہے قابل مبارکباد ہے یوپی حکومت اور مودی جی۔”(کورونا اور احتیاط، اسلامی تعلیمات کی روشنی میں)

 

مرکزی وزیر جنرل وی کے سنگھ کو اپنے مریض بھائی کو بیڈ دلانے کے لیے ٹویٹر پر مدد مانگنا پڑی۔

رائے بریلی یوپی کی بی جے پی ودھایک ادتی سنگھ اپنے رشتے دار کے لیے ٹوئٹر پر مدد مانگتی نظر آرہی ہیں۔

ایم پی کے بی جے پی ودھایک جالم سنگھ پٹیل کے بیٹے اور مرکزی وزیر پرہلاد پٹیل کے بھتیجے مونو پٹیل صوبائی اور مرکزی حکومت کی ناکامیوں پر غصہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:

"پورا سسٹم فیل ہوچکا ہے۔لیڈروں کو حقیقت جاننا ہے تو شمشان گھاٹ جاکر دیکھیں کہ کتنی لاشیں جل رہی ہیں۔آکسیجن کی کمی سے مریض مر رہے ہیں۔دواؤں کی سخت کمی ہے اور انتظامیہ لگاتار جھوٹ بول رہی ہے۔”

 

دہلی کے جے پور گولڈن اسپتال میں داخل بائیس مریض صرف آکسیجن نہ ملنے کی وجہ سے مرگئے۔حالت یہ ہے کہ لوگ آکسیجن کے لیے در در ٹھوکریں کھاتے پھر رہے ہیں۔شمشمان گھاٹوں پر لاشوں کی اس قدر بہتات ہے کہ لاش جلانے کے لیے بیس بیس گھنٹے کی ویٹنگ چل رہی ہے۔شمشان گھاٹوں میں جگہ کم پڑ گئی ہے اور اب کچھ پارکوں میں لاشوں کو نذر آتش کیا جارہا ہے۔نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ لاشوں کو جلانے کے لیے لکڑیاں نہیں مل رہی ہیں مگر لاشوں کے ڈھیر اور چتاؤں سے اٹھتے دھوئیں کے درمیان بھی آئی پی ایل بدستور جاری ہے۔

 

ایسا نہیں ہے کہ اس ملک میں صرف لیڈر ہی بے شرمی کے خمیر سے بنے ہیں، یہاں کی عوام کا ایک طبقہ بھی موقع پرستی اور مصیبت کے وقت فائدہ اٹھانے میں کسی سے کم نہیں ہے۔آئی پی ایس ارون بوتھرا نے اپنے ٹویٹر ہینڈل پر ایک ایمبولینس کی فیس رسید شئیر کی ہے۔جس میں محض چار کلومیٹر کا دس ہزار روپے چارج کیا گیا۔ایک اور صارف نے لکھا ہے کہ ان کے پڑوسی کی لاش کو پانچ کلومیٹر دور لے جانے کے لیے 22 ہزار روپے لیے گئے جبکہ ایک اور شخص کا کہنا تھا کہ اپنی ساس کو اسپتال لے جانے کے لیے دس کلومیٹر کے انہوں نے 30 ہزار روپے چکائے ہیں۔کالا بازاری کی حالت یہ ہے کہ 1500 والا آکسیجن سلنڈر پانچ سے دس ہزار اور 150 کا ملنے والا ریمے ڈیسیور انجیکشن دو سے پانچ ہزار میں فروخت کیا جارہا ہے۔

 

ملک کے کچھ علاقوں سے ایسی تصویریں بھی آئیں جنہوں نے دل ودماغ کو ماؤف کردیا۔ایک تصویر میں آکسیجن کو تڑپتے ہوئے دیکھ کر مریض کی بیوی اپنے منہ سے آکسیجن دینے کی کوشش کرتی ہے مگر افسوس ناکام رہتی ہے۔

بنارس میں ایک بوڑھی ماں اپنے جوان بیٹے کو بیٹری رکشہ میں ڈال کر اسپتالوں کے چکر کاٹتی ہے مگر کہیں بھی اسے علاج نہیں ملتا حتی کہ بیٹا رکشے میں ہی دم توڑ دیتا ہے۔ماں کے قدموں میں پڑی جوان بیٹے کی لاش دیکھ کر دل دہل جاتا ہے۔

 

کس قدر افسوس کی بات ہے کہ یہاں ایک مورتی بنانے کے لیے تین ہزار کروڑ، اسٹیڈیم بنانے کے لیے آٹھ سو کروڑ اور ایک کرکٹ ٹورنامنٹ کے لیے اربوں روپے خرچ کیے جاسکتے ہیں لیکن اسپتال اور آکسیجن پلانٹ بنانے کے لیے نہ کسی کے پاس پیسہ ہے اور نہ ارادہ۔عوام بھی کم قصور وار نہیں ہے یہ بھی الیکشن کے وقت فرقہ پرستوں کو فخریہ منتخب کرتے ہیں تو آج کس منہ سے لیڈروں کو گالیاں دے رہے ہیں؟ (I P L کھلونے دے کے بہلایا گیا ہوں)

 

20 رمضان المبارک 1442ھ

3 مئی 2021 بروز پیر

از قلم:غلام مصطفیٰ نعیمی

روشن مستقبل دہلی

 

شیئر کیجیے

Leave a comment