بھارتی مسلمانوں کے مذہبی حالات
از قلم: طارق انور مصباحی
1-مسلم لڑکیوں کے ارتداد اور غیر مسلموں سے شادی کی خبریں مسلسل آ رہی ہیں۔اس قسم کے زیادہ حادثات مہاراشٹر میں رونما ہو رہے ہیں۔
ممبئی میں علما کونسل کی بنیاد اسی مقصد سے رکھی گئی تھی کہ مسلمانوں کے درپیش مسائل پر غور کیا جائے گا اور اس کا حل نکالا جائے گا۔
06:دسمبر 1992 کو بابری مسجد کی شہادت کے بعد ممبئی میں فرقہ وارانہ فسادات بھڑک اٹھے تھے,اس کے بعد علما کونسل کی تشکیل ہوئی تھی۔
علمائے اہل سنت کی ناراضگی اور عدم اتفاق کو نظر انداز کر کے اس مخلوط کونسل کا قیام ہوا تھا۔اس طویل مدت میں علما کونسل نے کتنی خدمات انجام دی ہیں؟
ابھی مسلم بچیوں کے ارتداد اور غیروں سے معاشقہ کی کہانیاں ہر روز وشب سننے کو مل رہی ہیں۔علما کونسل نے کیا اقدامات کئے ہیں؟ اسی طرح ناگہانی مصیبتوں سے نجات پانے کے لئے کیا لائحۂ عمل تیار کیا ہے؟
غیر مسلموں کی طرف سے پیغمبر اسلام حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی مسلسل بے ادبیاں کی جا رہی ہیں۔اس تناظر میں بھی علما کونسل کے اقدامات وخدمات کی کوئی رپورٹ منظر عام نہیں آئی۔خموشی کا سبب کیا ہے؟
ممبئی سے رضا اکیڈمی کی قومی وملی,فلاحی وسماجی خدمات کی رپورٹ آتی ہے۔اسی طرح تحریک فروغ اسلام دہلی کی خدمات کی خبریں بھی پڑھنے اور سننے کو ملتی رہتی ہیں۔
علما کونسل کی کوئی قابل ذکر خدمت نظر نہیں آتی,لیکن یہ تنظیم عوام اہل سنت کے ابتلا کا سبب بن گئی۔بدمذہبوں کے ساتھ مخلوط تنظیم بنانے سے ماحول میں ابتری پیدا ہوئی۔
قومی وملی مفادات کے واسطے بھارت جیسے جمہوری ممالک میں بوقت ضرورت تمام کلمہ خواں جماعتوں کے اتحاد کی اجازت ہے,بشرطے کہ اتحاد محض ملی ضرورتوں تک محدود رہے۔ملی اتحاد کے نام پر بدمذیبوں سے قلبی لگاؤ اور دوستی ومحبت نہ ہو۔
2-علما کونسل ممبئی کے حقائق سے مسلمانان اہل سنت واقف ہیں۔اب دہلی سے اتحاد ملت کی خبریں آ رہی ہیں۔یہ بھی مسلمانان اہل سنت کے ابتلا وآزمائش کا ایک سبب ہو گا۔
مذبذبین ایسے مواقع کی تلاش میں رہتے ہیں۔بھارت میں غیر اعلانیہ طور پر منہاجی فکر کو فروغ دیا جا ریا ہے۔منہاج القرآن کا بینر نہیں ہے,بلکہ اس کے فیض یافتگان اپنے اپنے بینر لگا کر منہاجی فکر فروغ دے رہے ہیں۔
ان میں سے بعض ایسے لوگ ہیں جو رضوی,عطاری,اشرفی,مصباحی وغیرہ کا ٹائیٹل بھی لگاتے ہیں اور کسی ایک فریق کا سپورث کرتے ہیں اور دوسرے فریق کے خلاف انتہائی سخت لہجہ اختیار کرتے ہیں,تاکہ انتشار پھوٹ پڑے۔سب لوگ اختلاف کی آگ میں جھلس جائیں۔
مسلمانان اہل سنت کو باخبر کیا جاتا ہے کہ ایسے لوگ مسلمانان اہل سنت میں انتشار وافتراق کے لئے ایسا کرتے ہیں۔بظاہر ایسا لگتا ہے کہ یہ لوگ کسی فریق سے والہانہ محبت رکھتے ہیں,لیکن حقیقت اس کے برخلاف ہے۔ایسے لوگوں سے ہوشیار رہیں۔
اہل حق آپس میں متحد نہیں۔یہ بھی ایک مشکل مرحلہ ہے۔ابھی بھی ہم بھارت میں کم از کم ساٹھ فی صد ضرور ہیں,لیکن افتراق کے سبب ہماری تعداد بھی محسوس نہیں ہوتی,نہ ہم ایک دوسرے کی مدد کر پاتے ہیں۔
3-ہند وپاک کے بعض محققین کی بعض تحریروں سے بھی مذبذبین کو قوت مل رہی ہے۔بعض محققین تکفیر دیابنہ کی ایسی تشریح فرماتے ہیں کہ مذبذبین اسے اپنے غلط مقاصد کی تکمیل کے لئے استعمال کرتے ہیں۔
در اصل بعض محققین تصدیق اور تکفیر میں فرق نہیں کر رہے ہیں۔تکفیر کلامی کے شرائط کو کافر کلامی کے کفر کی تصدیق پر منطبق فرماتے ہیں۔
تکفیر کلامی کے شرائط میں یہ ہے کہ صرف وہی عالم شریعت اس بارے میں تحقیق کریں گے جو علم کلام کے اصول وضوابط سے واقف اور اس علم میں ماہر ہوں۔نیز کلام,تکلم,متکلم میں احتمال قریب یا احتمال بعید نہ ہو,اور تکفیر کے موانع مثلا جبر واکراہ,جنون وطفولیت وغیرہ نہ ہو۔مجرم نو مسلم نہ ہو۔ودیگر معتبر شرائط۔
جب اہل علم تمام قیود وشرائط کا لحاظ کرتے ہوئےکسی ملزم پر حکم شرعی نافذ فرما دیں اور وہ فتوی صحیح ہوتو دوسروں کو تصدیق کرنا لازم ہے۔خواہ وہ عالم ہو یا جاہل۔
تکفیر کی اجازت صرف عالم متکلم کو ہے جب کہ کافر کلامی کے کفر کی تصدیق ہر اس شخص پر ضروری ہے جس کو اس امر کا صحیح علم حاصل ہو جائے۔
تصدیق کے لئے ملزم کے عقائد کفریہ اور اس پر نافذ کردہ حکم کفر کا علم ہونا ضروری ہے۔تکفیر کے تمام شرائط تصدیق کے لئے نافذ نہیں۔تصدیق اور تکفیر میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔
کافر کلامی کو کافر ماننا ضروریا ت دین میں سے ہے۔ضروریات دین کے تمام احکام یہاں نافذ ہوں گے۔علم یقینی کے بعد کسی تاویل باطل یا شبہہ باطلہ کے سبب کوئی کسی کافر کلامی کو مومن مانے تو وہ بھی کافر کلامی ہے۔
انکار کی بالکل اجازت نہیں۔ہاں,ضروریات دین میں کسی کو کوئی شبہہ لاحق ہو تو دل میں یہ اعتقاد رکھے کہ جو عند اللہ حق ہے,وہی میرا عقیدہ ہے۔اس کے بعد اس شبہہ کو دور کرنے کی کوشش کرے۔اگر خود سے کوئی حل نہ نکل سکے,یا وہ غیرعالم ہے تو علمائے حق سے دریافت کرے۔
خلیل بجنوری کو بھی اشخاص اربعہ کی تکفیر پر کچھ شبہات تھے۔وہ اپنے شبہات پر مستقر ہو گیا تو اکابر اہل سنت نے اس پرکفر کا فتوی دیا۔حضرت علامہ عبد الباری فرنگی محلی قدس سرہ العزیز کو بھی تکفیر اشخاص اربعہ پر کچھ شبہات تھے۔جس کا ذکر "الطاری الداری” میں ہے۔حضرت حجۃ الاسلام قدس سرہ العزیز نے لکھنو میں اس وقت ان سے مصافحہ کیا جب وہ توبہ کر لئے۔
بعض محققین ضروریات اہل سنت کے منکر کے احکام کو تکفیر دیابنہ کے منکر پر منطبق کرتے ہیں۔مسلک دیوبند کے اشخاص اربعہ کافر کلامی ہیں۔کافر کلامی کو کافر ماننا ضروریا ت دین میں سے ہے۔ضروریات دین کے منکر پر ضروریات اہل سنت کے منکر کا حکم عائد نہیں کیا جا سکتا۔
4-کئی دہائیوں سے تبرا بازوں کا فتنہ بھی سر چڑھ کر بول رہا ہے۔پہلے مرکز اہل سنت بریلی شریف اور کچھوچھہ مقدسہ کے درمیان دیوار چین کی تعمیر وتشکیل اور اس کی تقویت واستحکام کے لئے متعدد تبرائی رسائل مثلا اختری مذہب,چودھویں صدی کا سب سے بڑا فراڈ,کچھوچھہ کی فریب کاریاں ودیگر رسائل منظر عام پر آئے,یہاں تک کہ دیوار بالکل مستحکم ہو گئی جو شاید کئی دہائیوں تک ٹوٹ نہ سکے۔
آج لوگ ان تبرائی رسائل کا نام لینے سے بھی گھبراتے ہیں۔جب آج ان رسائل کے ظاہر ہونے سے فتنہ ہو سکتا ہے تو کیا کل اس سے فتنہ نہیں ہوا تھا؟ یقینا کل بھی فتنہ ہوا تھا,اور اس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔
اس کے بعد بریلی شریف اور دعوت اسلامی کے درمیان دیوار چین تعمیر کرنے کے واسطے 2009 میں ایک تبرائی رسالہ:”ابلیس کا رقص”شائع کیا گیا۔اکابر اہل سنت نے اس رسالے کی اعلانیہ مذمت فرمائی۔
حضور تاج الشریعہ قدس سرہ العزیز کی وفات کے بعد پھر اس سمت میں پیش قدمی ہو رہی ہے۔جب یہ دیوار مکمل ہو جائے گی,تب اشرفیہ اور بریلی شریف کے درمیان دیوار چین تعمیر کرنے کی کوشش ہو گی۔جس کا اشارہ مل رہا ہے۔فتنہ پھیلا کر دلوں کو اس طرح توڑ دیا جائے کہ پھر دو دل کبھی نہ مل سکیں۔پہلی سازش کامیاب ہو چکی ہے۔اب دوسری اور تیسری سازش کا نتیجہ دیکھنا باقی ہے۔
سب لوگ اپنے اپنے کام میں مشغول ہیں اور ہم بھی اپنے فرائض کی تکمیل میں مصروف عمل ہیں۔انجام خدا کو معلوم۔وہو احکم الحاکمین
از قلم: طارق انور مصباحی
جاری کردہ:15:اگست 2021