برادران اہل سنت کو امام اہل سنت سے قریب کریں

برادران اہل سنت کو امام اہل سنت سے قریب کریں

Table of Contents

برادران اہل سنت کو امام اہل سنت سے قریب کریں

برادران اہل سنت کو امام اہل سنت سے قریب کریں
برادران اہل سنت کو امام اہل سنت سے قریب کریں

از قلم: طارق انور مصباحی

(1) اللہ تعالیٰ کے آخری پیغمبر حضوراقدس حبیب کبریا علیہ التحیۃوالثنا نے جو مذہب ہمیں عطا فرمایا،وہ مذہب اسلام ہے۔ مذہب اسلام میں تہتر فرقے ہونے والے تھے،اس لیے حضور اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام نے امت مسلمہ کومذکورہ تہتر فرقوں میں سے فرقہ ناجیہ کے اتباع کا حکم فرمایا ہے۔ فرقہ ناجیہ کو اہل سنت وجماعت کے لقب سے ملقب کیا گیا۔

(2)ماضی قریب میں فرقہ ناجیہ اہل سنت وجماعت کے عظیم قائد ورہنما اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری قدس سرہ العزیز تھے۔احباب اہل سنت کا ایک بڑا طبقہ اس کوشش وکاوش میں مصروف ہے کہ مجددموصوف کی تعلیمات کو برصغیر کے علاوہ دیگر عربی وعجمی ممالک تک پہنچایا جائے۔دوسری جانب برصغیر میں مجددگرامی کے متبعین میں اتفاق مفقودہے۔ برصغیر کے اختلاف کی رپورٹ دیگر ممالک میں بھی گشت لگاتی ہے۔مخالفین ہرجگہ موجودہیں۔

(3)اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ والرضوان سے جو بھی دورہوتا ہے،عام طورپروہ بداعتقاد ی میں مبتلا ہوجاتا ہے، اس لیے دورجانے والوں کوقریب کیا جائے۔

(4)برصغیر میں مسلک دیوبند کے عناصر اربعہ مسلمانوں کے بڑی آزمائش ہیں۔ ان لوگوں سے صریح بے ادبیاں صادر ہوئیں،جن کے سبب ان لوگوں پر کفرکلامی کا حکم عائد ہوا۔اعلیٰ حضرت قدس سرہ العزیز سے دور ہونے والے اکثرلوگ اشخاص اربعہ کی تکفیر کے منکر ہو جاتے ہیں۔

اشخاص اربعہ کے کفریہ عقائد سے واقف وآشنا ہونے کے بعد جو بھی ان لوگوں کے کفر کا انکار کرے،اس پر بحکم شرع حکم کفر عائد ہوتا ہے،لہٰذا امام اہل سنت قدس سرہ العزیز سے دور جانے والوں کو قریب کرنا ہم پر لازم وضروری ہے۔

(5)علمائے فرنگی محل،علمائے حیدرآباد،مشائخ دہلی وغیرہ کسی سبب سے اعلیٰ حضرت قدس سرہ سے دور ہوئے۔ان جماعتوں میں بہت سے لوگ تکفیر اشخاص اربعہ کے منکر ہیں۔

(6) اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃوالرضوان کے معتقدین کو چاہئے کہ لوگوں کے دلوں میں اعلیٰ حضرت قدس سرہ العزیزکی محبت وعقید ت پیدا کریں،تاکہ لوگ راہ حق پر رہیں۔

(7)بھارت کے سنی مسلمانوں میں کئی عشروں سے تبرابازی کا ماحول پیدا ہوچکا ہے۔ یہ مرض مہلک ہے۔ابھی اسے ناپسندیدہ موضوع سمجھا جاتا ہے۔اس کے باوجودیہ سلسلہ ختم نہیں ہوپارہا ہے۔ اگر چشم پوشی کی گئی تو تبرا بازی کو ایک پسندیدہ موضوع سمجھا جانے لگے گا۔تبرا بازی یعنی کسی کی غیبت وچغل خوری، بدگوئی وعیب جوئی،الزام تراشی اور افترا پردازی وبہتان سازی مذہب اسلام میں حرام و ناجائز ہے۔اس فیشن کو توڑا جائے۔

آپس میں تبرابازی کرتے کرتے بعض لوگ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کی تبرا بازی تک جاپہنچے اور نیم رافضیت کے شکار ہوئے۔فکر بد کا انجام بد۔

ع/ شرم نبی خوف خدا یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں

(8)بھارت میں اہل سنت وجماعت کے درمیان تبرائی ثقافت کا موجد او ر فرد اول مراد آبادکا ایک شخص تھا۔اس نے تحریر وتقریر ہردو محاذپر تبرابازی کا آغازکیا۔اس نے وصال یافتگان کو بھی اپنی تبرا بازی کا نشانہ بنایا۔آج اس تبرائی ثقافت کے مقلدین کی ایک تعداد ہے۔ ان تبرا بازوں کا آئیڈیل وہی ہے۔اہل حق کی تبرا بازی شریعت اسلامیہ میں جائزنہیں۔

معلوم نہیں کہ اس نے توبہ کی یا نہیں۔آج بھی جولوگ حقوق العباد میں مبتلا ہیں،ان کو اپنی آخرت کی فکر کرنی چاہئے۔جونظریہ شرعی طورپر غلط ہے،اس کوترک کرنا لازم ہے۔

تبرائی رسالہ“کا تعارف:

ماضی قریب میں اہل سنت وجماعت کے محققین کے درمیان1984سے 1987تک ٹی وی اورویڈیوسے متعلق تحقیقات جاری رہیں۔محققین میں سے ہرایک نے اپنی تحقیقات رقم فرمائیں،پھر یہ سلسلہ موقوف ہو گیا۔

1989سے 1993تک لفظ کملی سے متعلق تحقیقات ہوئیں۔ ٹی وی سے متعلق تحقیق کرنے والے فریقین نے لفظ کملی کی تحقیق میں حصہ نہیں لیا،وہ حضرات اس سے الگ رہے۔

ٹی وی اور لفظ کملی کی تحقیق میں ایک فریق سلسلہ رضویہ کے وابستگان تھے،فریق دوم سلسلہ اشرفیہ کے وابستگان تھے۔قریباً نوسال سے علمی تحقیقات ہورہی تھیں۔

جب تحقیق وتنقیح میں علمی اختلاف ہوتا ہے تو ہرمحقق اپنے مخالف محقق کے دلائل کی تردید کرتا ہے۔ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے عہد مسعود سے ظنی واجتہادی امور میں تحقیقی واجتہادی اختلافات ہیں،لیکن کبھی دوفریق کے درمیان تبرا بازی کا سلسلہ قائم نہ ہوا۔

برصغیر میں علمائے اہل سنت وجماعت کے مابین 1984سے 1993تک علمی تحقیقات جاری رہیں۔ سال 1992یا 1993میں اچانک ایک تبرائی رسالہ منظرعام پر آیا۔

چوں کہ دو خاص سلسلہ طریقت کے وابستگان کے درمیان علمی تحقیقات کا تبادلہ ہورہا تھا،اس لیے مذکورہ تبرائی رسالے میں انتہائی عیاری کے ساتھ ایک خاص فریق پر تبرابازی کی گئی تھی، تاکہ دونوں فریق کے درمیان علمی اختلاف کی جگہ جنگ وجدال شروع ہو جائے۔

ایسا ہی کچھ یہاں بھی ہوا۔جانشین ابن سبا کی سازش اپنا رنگ دکھانے لگی تھی۔ مذکورہ بالا تبرائی رسالہ تبرا بازیوں پرمشتمل تھا۔اس رسالہ میں ٹی وی یا کملی سے متعلق کوئی تحقیق نہیں تھی۔یہ رسالہ الزام تراشی، عیب جوئی،بدگوئی اوربہتان وافتراپردازی کا مجموعہ تھا۔

مذکورہ نوسالہ تحقیقاتی عہد میں علمائے کرام میں سے کسی نے ایسا رسالہ نہیں لکھا تھاجو خالص تبرابازیوں پر مشتمل ہو۔یادداشت کے مطابق اس تبرائی رسالے کانام ”چودھویں صدی کا سب سے بڑا فراڈ“تھا۔مؤلف کانام”ابن الحسن بستوی“درج تھا۔ رسالہ پر مندرج مؤلف کانام اصلی تھا یافر ضی،کچھ پتہ نہیں چل سکا۔یہ کون شخص تھا،یہ بھی معلوم نہ ہو سکا۔بھارت میں ”ابوالحسن“ نام مروج ہے۔ ”ابن الحسن“نام کا رواج نہیں۔

قرین قیاس یہی ہے کہ یہ بدمذہبوں کی سازش تھی۔وہابیہ،دیابنہ وغیرہ سازش کر کے ہماری مسجدو ں پر قبضہ کرلیتے ہیں۔ قبضہ کرنے کے لیے کورٹ میں مقدمے لڑتے ہیں، پس اہل سنت وجماعت میں فتنہ انگیزی کے واسطے ایک چھوٹا سارسالہ شائع کرنا کون سا مشکل امر ہے۔

مذکورہ تبرائی رسالہ منظر عام پرآنے کے بعد علمائے اہل سنت وجماعت بھی کبیدہ خاطر ہوئے۔بہت سے عوام اہل سنت بھی اس فتنے سے متاثر ہوئے۔اس رسالہ اوراسی قسم کے بعض دیگر رسائل کے سبب اہل سنت وجماعت میں تبرائی ثقافت کوفروغ ملا۔رفتہ رفتہ اہل سنت وجماعت میں طبقہ بندی ہو گئی۔اب ہرطبقہ میں ذیلی طبقہ بندی ہوچکی ہے۔

آغاز امر میں متعدد اکابر علمائے اہل سنت وجماعت نے فریقین کے درمیان اتحاد کی عملی کوشش کی، لیکن ماحول کنٹرول میں نہ آسکا۔انجام کار وہ حضرات بھی خاموش ہوگئے۔
تبرائی رسائل نے اہل سنت وجماعت کے درمیان تبرائی کلچر کوفروغ دیا۔ تبرائی نظریہ حضور اقدس حبیب کبر یا علیہ الصلوٰۃوالسلام کی مرضی مبارک کے خلاف ہے۔تبرابازی شیعوں کی سرشت ہے۔مذہب اہل سنت وجماعت میں اس کی کوئی گنجائش نہیں۔ اہل سنت وجماعت میں تبرا بازیوں کے سبب طبقہ بندی ہوئی ہے۔

فقہی اختلاف کے سبب طبقہ بندی نہیں ہوئی ہے۔حضور مفتی اعظم ہنداور حضرت مفتی افضل حسین مونگیر ی علیہما الرحمۃ والرضوان کے درمیان بھی فقہی اختلاف تھا۔چوں کہ تبرابازی نہیں تھی توطبقہ بندی بھی نہیں ہوئی۔

(9)کبھی ہم یہ کہتے تھے کہ دیوبندیوں نے ”الشہاب الثاقب“میں امام اہل سنت قدس سرہ العزیز کو گالیاں دی ہیں۔سب وشتم کیا ہے۔ ایک بدمذہب نے اپنے مخالف مذہب کو سب وشتم کیا تو اسے تہذیب وثقافت کے خلاف سمجھا گیا۔ اب تو سوشل میڈیا پر بے شمار تحریریں گشت لگاتی رہتی ہیں جن میں سنیوں کے خلاف سنی لوگ سب وشتم کرتے ہیں۔

”الشہاب الثاقب“ کی گالیوں کا استعمال روز مرہ کا معمول بن چکاہے۔ تبرائی کلچر عروج پرہے۔اصحاب لوح وقلم مہربرلب کیوں ہیں؟سب دہشت میں کیوں مبتلا ہیں؟

از قلم: طارق انور مصباحی

مزید پڑھیں

پاسبانِ فکرِ اسلامی… اعلیٰ حضرت

کون ہیں اعلی حضرت،کیا ہیں اعلی حضرت؟

حضرت سراج الفقہاء دام ظلہ العالی کا علمی وتحقیقی جہان

فقہ و فتاوی کے رمز شناش: اعلی حضرت

شیئر کیجیے

Leave a comment