ان کو لگام دو

ان کو لگام دو

Table of Contents

ان کو لگام دو

ان کو لگام دو
ان کو لگام دو

تحریر :خلیل احمد فیضانی

زندگی کے ہر موڑ پر ہمارے لیے معیار قرآن پاک و حدیث مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ہیں
اصحاب طریقت نے جو اعمال شاقہ انجام دیے کہ بعضوں نے ہفتوں کھانا نہیں کھایا تو بعض, لوگوں سے ملنا ملانا گفتگو وغیرہ کرنا بالکل پسند نہیں فرماتے تھے وغیرہ-

ان مبارک ہستیوں کے ان حالات کو پڑھ سن کر اگر کویٔی شخص اس راہ کا مسافر بننا چاہتا ہے تو یہ سعادت مندی و خوش بختی کی علامت ہے تاہم شرع مطہر کی جانب سے ایسا شخص مکلف بھی نہیں ہے کہ وہ بھی ان کے جیسے اعمال انجام دے جیسا کہ حدیث پاک میں ہے جس کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ بعض صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین نے دنیاوی چیزوں سے کنارہ کش ہونے کا تہیہ کیا تو آقا علیہ الصلوہ والسلام نے انہیں اس چیز سے منع فرمایا ,اور فرمایا کہ تمہاری بہ نسبت اللہ تعالی سے میں زیادہ ڈرتا ہوں لیکن میں سوتا بھی ہوں نکاح بھی کرتا ہوں-

شریعت طاہرہ نے اعتدال کی راہیں قائم کی ہیں
لیکن کوئی دیوانہ رضاے مولا کی خاطر اپنے نفس کو مجاہدات کی بھٹی ڈالتا ہے تو یہ ایک امر مستحن ہے اور بلا ریب یہی چیز ولایت کی کنجی بھی ہے تاہم بات وہی کہ یہ شخص ان مشکل امور کی انجام دہی کا شریعت کی طرف سے مکلف نہیں ہے, اس کو یاد رکھا جاۓ
یہ چیز قابل عمل تھی کہ لوگ شریعت کے بنیادی اصولوں کی پابندی کرتے ہوۓ اپنے نفس سے جہاد کرتے اور دارین کی سعادتوں سے سرخرو ہوتے –

لیکن افسوس کہ دور حاضر میں کچھ جہلاے ناہنجار نے تو کچھ نیم ملاؤں نے اپنی جہالتوں کا بھرپور ثبوت دیا ہے وہ یوں کہ بعضوں نے دین کے ان مسائل میں رخنہ اندازی کی ہے جو دین کا شعار کہلاے جاتے ہیں جیسے ان میں سے ایک مسئلہ ڈاڑھی کا ہے :

ڈاڑھی کے مسئلہ کو لے کر عوام میں دین کے تٔیں وہ شکوک و شبہات کو ہوا دی گئی کہ لوگ ڈاڑھی کو وہابیہ کی علامت گرداننے لگ گۓ
گمراہ اس طرح کرتے ہیں کہ ڈاڑھی ہمارے بعض بزرگوں نے نہیں رکھی لہذا ایک مشت ڈاڑھی رکھنے کی کویٔی ضرورت نہیں ہے

ان لوگوں سے میں دو چند باتیں کہنا چاہتا ہوں کہ
آیا آپ معیار شریعت کو مانتے ہیں یا بزرگان دین کو ( اگر چہ بزرگان دین سے ہماری عقیدتیں مثالی و لاجواب ہیں )
دوسرا یہ کہ بزرگان دین وپیر صاحبان کے اعمال ان کے ساتھ ہوتے ہیں ہم اگر ان کو دلیل بناکر لوگوں میں اختلاف پیدا کریں گے تو یہ ہماری فاش غلطی ہوگی اور بزرگان دین بھی ہم سے یقینا ناراض ہوں گے –

تیسری چیز یہ کہ اگر آپ پیر صاحبان و ارباب طریقت کے اتنے ہی کھرے عاشق و فولوورز ہیں تو آپ غوث پاک رضی اللہ تعالی عنہ کی عقیدت میں کھانے کی جگہ پتے کیوں نہیں کھاتے ؟

عشاء کے وضو سے فجر کی نماز کیوں نہیں پڑھتے ؟
حضرت فضیل بن عیاض رضی اللہ تعالی عنہ کی طرح لوگوں سے بلاضرورت ہمکلام ہونا بند کیوں نہیں کردیتے ؟
غریب نواز علیہ الرحمہ کی طرح اشاعت دین کے لیے اپنے وطن ,عزیز,اولاد ,کو تج کیوں نہیں دیتے ؟
بایزید بسطامی رضی اللہ تعالی عنہ کی طرح طلب محبوب میں سالہا سال صحرانوردی کیوں نہیں کرتے ؟

حضرت جنید بغدادی رضی اللہ تعالی عنہ کی طرح عبادت و نوافل کی کثرت کیوں نہیں کرتے ؟
صوفی صاحب علیہ الرحمہ کی طرح دنیا کو ترک کیوں نہیں کردیتے ؟
ہمارے بزرگان کی اس طرح کی ان گنت نظائر کتب تصوف میں موجود ہیں آپ ان سب کو بھلاۓ کیوں بیٹھے ہیں اور جہاں نفس پرستی و لوگوں کی قربت مقصود ہوتی ہے وہاں پر ہی ان پاک ہستیوں میں سے بعض کے اعمال کو سند کیوں بناتے ہیں کہیں اس میں یہود سے تشابہ تو نہیں !!!

اس باطل رویہ کو حب جاہ, طلب شہرت, دین سے دوری و مغربی تہذیب کا دلدادہ ہونے کے علاوہ اور کیا کہا جاسکتا ہے –
خدارا!!!اپنی روش سے باز آجاؤ .عوام پہلے دین سے دور کیا کم تھی کہ آپ گرتی دیوار کو ایک اور دھکا دینے چلے آۓ –
خدا کا خوف رکھو , عوام کو فتنے سے دور رکھو خدانخواستہ یہی حالت رہی تو لوگ مداہنت پسند ہوجائیں گے ,دین کا تصلب ختم ہوجاۓ

فرقہاے باطلہ والے تو یوں ہی گھات میں ہیں کہ ان بھولی بھالی عوام میں کب پلپلاپن در آۓ اور انہیں اچک لیا جاۓپھر یقینا تم قبر میں فاتحہ کے لیے بھی ترسوگے….. فتدبروا یا اولی الابصار

تحریر :خلیل احمد فیضانی

مزید پڑھیں

القاب

جامعہ اشرفیہ،مبارک پور

تحریک دعوت اسلامی کے فکری محاسن

اسلاف کرام کا صبر وتحمل اور حکمت ودانش مندی

پاسبانِ فکرِ اسلامی… اعلیٰ حضرت

فقہ و فتاوی کے رمز شناش: اعلی حضرت

شیئر کیجیے

Leave a comment