القاب

القاب

Table of Contents

القاب

از قلم: صادق مصباحی

القاب
القاب

حدیث کی کوئی کتاب اٹھا لیجیے،
سیرت ومغازی پر لکھی گئیں پرانی کتابوں کو دیکھ لیجیے ،
آپ کو شخصیات اور ان کے ناموں کے بارے میں بے تحاشا/ لمبے چوڑے القاب اور تعریفی کلمات نہیں ملیں گے۔ یا بہت کم ملیں گے ۔
حدیث وسیرت کی کتابوں میں تو اجلہء صحابہ کا نام اس سادگی سے ذکر ہوتا ہے کہ حیرت ہوتی ہے، سیدھا سادا نام لے لیا جاتا ہے ۔ جیسے: ” عن عمر بن الخطاب قال …/ عن عثمان بن عفان…/ عن عبد اللہ … ” ۔
کہیں کہیں تو پورا نام لینے کی بھی حاجت محسوس نہیں کی جاتی اور ” عن ابن مسعود/ عن ابن عمر… ” کہہ دینا کافی ہوتا ہے۔ ( رضی اللہ تعالیٰ عنھم).
دور نبوی، دور صحابہ وتابعین، میں یہی روش قائم تھی، اس معاملے میں بنو امیہ نے بھی اسلامی عربی کلچر کو سنبھالے رکھا، سادگی کو ترجیح دی۔
مگر بنو عباس، جن کی خلافت عجمیوں کے بَل پر قائم ہوئی تھی، وہ عرب اسلامی تہذیب کو سنبھال نہ سکے، عجم کی رنگین فضاؤں نے ان کی توجہ اپنی جانب کھینچ لی، سادگی گُم ہوکر رہ گئی ۔
یہی وجہ ہے کہ دوچار عباسی خلفا کو چھوڑ کر کسی خلیفہ کا اصل نام بہت کم لوگوں کو ازبر ہوگا۔
( واثق، معتصم، متوکل، مکتفی، مستنصر، معتضد، الحاکم، الناصر… وغیرہ القاب ہی تو ہیں، اصل نام کے لیے کتب تاریخ کی ورق گردانی کرنا ہوگی)
ان کی تقریبات بھی بہت رنگین ہوا کرتی تھیں!
عباسی دور کی عربی نثر کی ایک کتاب مقامات حریری کو دیکھ لیجیے! تکلفات کی کثرت، عجیب وغریب کلمات جن کا استعمال شاید اور کہیں نظر نہ آئے! یہ سب کیا ہے!!! اسی عجمی کلچر کا اثر ہے۔
بر صغیر میں ترکوں، مغلوں، خلجیوں، لودھیوں کے یہاں بھی لسانی تکلفات کم نہیں، اس دور کی سوانحی/ تاریخی کتابیں اس پر شاہد ہیں ۔
اور بعد کے لوگوں نے ( الا ما شاء اللہ) تو القاب کو ہی سب کچھ سمجھ لیا۔ ہر ایک نے اپنے اپنے ممدوحین کے لیے اتنے القاب گڑھ لیے کہ پتا ہی نہیں چل پاتا کہ اصل نام کیا ہے!
پورا پورا صفحہ القاب اور تعریفی کلمات سے بھر جاتا ہے!
جلسوں کے پوسٹر دیکھ لیجیے! ہر بُلَکڑ خطیب کے اتنے القاب کہ اللہ کی پناہ!
جسے رسم افتا کا پتا نہ کارِ افتا سے دور کا واسطہ، وہ مفتی اعظم بنا ہوا ہے، بلکہ بنا دیا گیا ہے!
اور اب تو مفتی اعظم فلاں محلہ اور مفتی اعظم فلاں گلی کا کلچر پنپنے لگا ہے۔
اگر کوئی خطیب وواعظ کبھی کشمیر، کرناٹک، مہاراشٹر، وغیرہ صوبوں میں تفریح یا تقریر کی غرض سے چلا گیا تو وہ ان صوبوں کا ” فاتح” ہو گیا!
پڑوسی ملک نیپال گیا تو فاتح انڈو ونیپال بن کر واپس آیا!
اور اگر اتفاق سے یورپ وامریکہ چلا گیا تو مت پوچھیے!!!
مقام حیرت ہے کہ آئے دن مسلموں/ مساجد / مدارس وغیرہ پر حملے ہو رہے ہیں مگر یہ فاتحین کہیں نظر نہیں آتے!
فیس بک / واٹس ایپ پر آئے دن دیکھا جاتا ہے کہ
کسی عالم یا پیر کے کسی قریبی رشتہ دار یا گم نام خلیفہ کا انتقال ہو جائے تو کلمہ ترجیع کے بعد پہلے عالم صاحب اور پیر صاحب کے اتنے زیادہ القاب ذکر کر دیے جاتے ہیں، کہ محسوس ہوتا ہے کہ عالم یا پیر ہی کا انتقال ہو گیا! ایسا دھوکا ہوا بھی ہے، اور بعد میں لوگوں کو معذرت کرنا پڑی ہے۔
احباب سے گزارش ہے کہ
اس امر میں بھی سادگی اپنائیں، صرف القاب ہی سب کچھ نہیں، اصل ہے کام، وہ بھی دین کا کام۔ اور کام ہی انسان کو بڑا بناتا ہے۔ جو بھی دینی وملی کام کرے اس کی بھرپور حوصلہ افزائی کی جائے، مگر بےجا القاب کی قبر میں قبل از وقت ہی اسے دفنانے کی کوشش نہ کی جائے ۔
دل شکنی کے لیے معذرت!

از قلم: صادق مصباحی

شیئر کیجیے

Leave a comment