غلطی کرنے والے کو سزا دینے کے طریقے سیرت نبوی کی روشنی میں
تحریر: حافظ محمد ہاشم قادری مصباحی جمشید پور 9386379632
انسانوں سے غلطی ہونا فطری بات ہے ’’الانسان مرکب من الخطاء والنسیان‘‘ انسان غلطیوں اور خطاؤں کا مرکب ہے۔غلطی ہونا،بھول جانایہ حقیقت ہے سب کے ساتھ یہ قدرتی امر لگا ہوا ہے،کسی کے ساتھ کم تو کسی کے ساتھ زیادہ،مذہب اسلام نے جس طرح ہر خرابی کی بھلائی کے طریقے بتائے ہیں اسی طرح غلطی ہوجانے سے کیا کرنا ہے،کیا نہیں کرنا ہے اس کی تعلیم دی ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا: ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے کہ ایک آدمی آیا، اس نے کہا: یا رسول اللہ! میں ہلاک ہو گیا۔ فرمایا : کیا ہوا؟ اس نے کہا: میں نے روزے کی حالت میں اپنی بیوی سے مباشرت کرلی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تمہیں ایک غلام دستیاب ہے جسے تم آزاد کردو؟ اس نے عرض کیا :جی نہیں۔فرمایا: کیا تم مسلسل دو ماہ کے روزے رکھ سکتے ہو ؟ اس نے کہا : جی نہیں۔ فرمایا: کیا تمہارے پاس اتنا ہے کہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا سکو؟اس نے کہا : جی نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہیں تشریف فرما رہے۔ اسی اثنا میںنبی اکرم اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک ٹوکرا پیش کیا گیا جس میں کھجوریں تھیں۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : سائل کہاں ہے؟ اس نے کہا: جی میں ہوں۔ فرمایا: یہ لے کر صدقہ کردو۔ وہ بولا: اللہ کے رسول! کیا اپنے سے زیادہ غریب آدمی پر صدقہ کروں؟ اللہ کی قسم! سنگریزوں والے دونوں قطعات کے درمیان (یعنی پورے مدینہ میں) مجھ سے غریب گھر موجود نہیں۔ نبی اکرم اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھل کر مسکرائے حتی کہ آپ ﷺ کے دانت مبارک نظر آنے لگے۔ پھر فرمایا: اپنے گھر والوں کو کھلا دینا۔ (صحیح بخاری)
امام احمد رحمتہ اللہ علیہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حسان کے قلعہ کے بلند حصہ کے سائے میں بیٹھے تھے کہ ایک آدمی حاضرِ خدمت ہوا اور بولا:اللہ کے رسول ﷺ! میں تو جل گیا۔ فرمایا: کیا ہوا؟ اس نے کہا: میں نے روزے کی حالت میں بیوی سے مقاربت کی ہے۔ راوی کہتے ہیں: یہ رمضان کا واقعہ ہے۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: بیٹھ جائو۔ وہ دوسرے لوگوں میں جا بیٹھا۔ تب ایک آدمی گدھے پر کھجوروں کی بوری لے کر حاضر ہوا اور اس نے کہا: یا رسول اللہ ﷺ یہ میری طرف سے صدقہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ کہاں ہے جو ابھی جل گیا تھا؟ اس نے کہا: میں حاضر ہوں یا رسول اللہ! فرمایا یہ لے لو اور صدقہ کردو۔اس نے کہا: صدقہ مجھ پر اور میرے لیے کرنے کے علاوہ اور کہاں جائے گا۔ قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے، میرے پاس اور میرے بیوی بچوں کے پاس کچھ بھی نہیں۔ فرمایا تب اسے لے لو ۔ چنانچہ اس نے وہ کھجوریں لے لیں۔ (مسند احمد ۶؍۲۷۶)
غلطی کرنے والے سے مل کر تبادلہ خیال کرنا:
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے۔ انہوں نے فرمایا: میرے والد نے ایک معزز خاندان کی ایک خاتون سے میری شادی کردی۔ وہ اپنی بہو کی خیریت کا پتہ کرنے آتے اور اس سے اس کے خاوند کے بارے میں پوچھتے، وہ کہتی: وہ بہت اچھے آدمی ہیں۔ جب سے ہم ان کے پاس آئے ہیں وہ ہمارے بستر پر نہیں بیٹھے، نہ ہمارا کپڑا اٹھاکر دیکھا۔ جب کافی عرصے تک یہی کیفیت رہی تو انہوں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات ذکر کی۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے میرے پاس لانا۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ نے فرمایا: تم روزے کس طرح رکھتے ہو؟ میں نے کہا: ہر روز۔ فرمایا قرآن کتنی دنوں میں ختم کرتے ہو؟ میں نے عرض کیا: ہر رات۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر مہینے میں تین روزے رکھو اور ایک مہینے میں قرآن پڑھو۔ میں نے کہا : میں اس سے زیادہ (عمل کر نے کی) طاقت رکھتا ہوں۔ فرمایا: ہفتے میں تین روزے رکھو۔ میں نے عرض کیا: میں اس سے زیادہ طاقت رکھتا ہوں۔فرمایا: دو دن چھوڑ کر ایک دن روزے رکھو۔ میں نے عرض کیا: اس سے زیادہ طاقت رکھتا ہوں۔ فرمایا: تو سب سے افضل روزہ رکھ لو۔ یعنی دائود علیہ السلام کا روزہ، ایک دن روزہ رکھو ایک دن چھوڑو اور سات راتوں میں ایک قرآن ختم کرو۔ کاش ! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رخصت قبول کر لی ہوتی۔ اب میں بوڑھا اور کمزور ہو گیا ہوں (اور اتنی عبادت آسانی سے نہیں کر سکتا۔ (راوی بیان کرتے ہیں کہ آپ دن کے وقت قرآن کا ساتواں حصہ کسی کو سنالیتے تھے تاکہ رات کو پڑھنے میں آسانی ہو اور جب یہ چاہتے کہ (انہیں روزے رکھنے کی) طاقت حاصل ہو جائے تو کئی دن (مسلسل) روزہ چھوڑ دیتے، بعد میں گن کر پورے کر لیتے۔ کیونکہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ جو کام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں کرتے رہے ہیں، اسے ترک کر دیں ۔(صحیح بخاری، کتاب فضائل القرآن ، باب فی کم یقرء القرآن)
مسند احمد کی روایت میں یہ واقعہ مزید وضاحت سے بیان ہوا ہے اور اس روایت میں مزید کئی نکات بھی ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے۔ انہوں نے فرمایا: میرے والد نے قریش کی ایک عورت سے میرا نکاح کر دیا۔ جب وہ رخصت ہو کر میرے گھر آئی تو میں اس کی طرف توجہ نہیں دیتا تھا کیونکہ میں اپنے اندر عبادت یعنی نماز اور روزے کی طاقت محسوس کرتا تھا۔(ایک دن) حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ اپنی بہو کے پاس آئے اور اس سے پوچھا: تم نے اپنے خاوند کو کیسا پایا؟ اس نے کہا: بہت اچھا آدمی ہے، نہ انہوں نے ہمارا کپڑا اُٹھایا، نہ ہمارے بسترپر آئے۔ انہوں نے میرے پاس آ کر مجھے بہت سرزنش کی اور فرمایا: میں نے تمہارا نکاح قریش کی اونچے حسب نسب والی عورت سے کیا تو نے اس سے کنارہ کشی کر لی۔اور تونے یہ کیا اور وہ کیا (یعنی انہوں نے بہت بُرا بھلا کہا)۔ پھر وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور میری شکایت کی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلا بھیجا۔میں حاضر ہوا تو فرمایا: دن کو روزہ رکھتے ہو؟ میں نے کہا : جی ہاں۔ فرمایا: رات کو قیام کرتے ہو؟ میں نے کہا : جی ہاں۔ پھر فرمایا: میں روزے بھی رکھتا ہوں اورچھوڑتا بھی ہوں اور نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور عورتوں سے تعلق بھی رکھتا ہوں۔ جو میرے طریقے سے بے رغبتی کرے گا وہ مجھ سے نہیں۔ پھر فرمایا: ہر مہینے ایک بار قران پڑھا کرو۔ میں نے عرض کیا : میں اپنے آپ میں اس سے زیادہ قوت محسوس کرتا ہوں۔ فرمایا : تب دس دن میں قرآن پڑھ لیا کرو۔میں نے کہا: میں خود کو اس سے زیادہ قوی سمجھتا ہوں۔ فرمایا: تو تین دن میں پڑھ لو۔ اس کے بعد فرمایا: ہر مہینے میں تین دن روزے رکھو۔ میں نے کہا: میں اس سے زیادہ قوت رکھتا ہوں۔ آپ اضافہ کرتے رہے حتیٰ کہ فرمایا: ایک دن روزہ رکھو۔ ایک دن نہ رکھو۔ یہ سب سے افضل روزہ ہے اور یہ میرے بھائی دائود (علیہ السلام) کا روزہ ہے۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہر عبادت کرنے والے کا ایک جوش ہوتا ہے اور ہر جوش ٹھنڈا پڑ جاتا ہے۔ جوش کے ٹھنڈا پڑنے پر وہ شخص یا تو سنت پر قائم رہتا ہے یا بدعت اختیار کر لیتا ہے۔ تو جو شخص ٹھنڈا ہونے پر بھی سنت پر عمل کرتا ہے وہ ہدایت پا جاتا ہے اور جو شخص جوش ٹھنڈا ہونے پو دوسرا راستہ اختیار کرتا ہے۔ وہ تباہ ہو جاتا ہے۔
واقعے سے مستنبط بعض مسائل:
٭ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سبب کی طرف توجہ فرمائی جس کی وجہ سے مسئلہ پیدا ہوا تھا۔ یعنی عبادت میں اس حد تک انہماک کہ بیوی کے حقوق کی ادا ئیگی کے لیے وقت نہ بچا جس کے نتیجے میں کوتاہی کا ارتکاب ہوا۔
٭ ہر حق دار کو اس کا حق ادا کرو۔ یہ قاعدہ ہر اس شخص پر منطبق (نافذ)ہوتا ہے جو نیکی کے کاموں میں حد سے زیادہ مشغول ہو مثلاً وہ طالب علم جو بہت زیادہ اسباق پڑھتا ہے اور وہ مبلغ جو تبلیغ میں اس حد تک منہمک ہو جاتا ہے کہ بیوی کو تکلیف ہوتی ہے۔اور اسے شکایت پیدا ہوتی ہے۔اسکی وجہ یہ ہوتی ہے کہ نیکی کے مختلف کاموں کی ادائیگی میں توازن قائم نہیں رہتا اور وقت کو مستحقین میں تقسیم کرنے پر عدم توازن پیدا ہو جاتا ہے ۔ لہذا مناسب ہے کہ طالب علم اپنے اسباق کے اوقات میں سے اور مبلغ اپنی مصروفیت میں سے اتنی تخفیف کرے کہ گھر کے انتظام اور بیوی بچوں کے حقوق مثلاً اصلاح و تربیت وغیرہ کے لئے کافی وقت بچ سکے۔
غلطی کرنے والے کو صاف طور پر اس کی غلطی بتا دینا:
صحیح بخاری میں حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: میرا کسی آدمی سے جھگڑا ہو گیا، اس کی ماں عجمی تھی۔ میں نے اس کو ماں کا طعنہ دیا، اس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فلاں شخص سے تمہاری گالی گلوج ہوئی؟ میں نے کہا : جی ہاں۔فرمایا: تم نے اس کی ماں کو بُرا بھلا کہا؟ میں نے کہا : جی ہاں۔ فرمایا: تم ایسے آدمی ہو جس میں جاہلیت کا اثر باقی ہے۔ میں نے کہا: اس بڑھاپے میں بھی؟ فرمایا: ہاں۔ وہ (غلام) تمہارا بھائی ہے جنہیں اللہ نے تمہارے قبضے میں دے دیا ہے۔ تو جس کے قبضے میں اللہ نے اس کے بھائی کو کیا ہو، اسے چاہیے کہ جو خود کھائے اسے کھلائے اور جو خود پہنے وہ اسے پہنائے اور اسے اس کام میں نہ لگائے جو اس پر غالب آ جائے(انتہائی دشوار) اور اگر اسے کسی ایسے کام میں لگائے جو اس پر غالب آئے تو اس کی ادائیگی میں اس کی مدد بھی کرے ۔ (صحیح البخاری: کتاب الادب باب ماینھی عن السباب اللعن)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوذر رضی اللہ عنہ کو بلایا اور تمہید اور پوری صراحت سے یہ بات فرمادی کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ صحابی رضی اللہ عنہ اس کو قبول کر لیں گے۔ صراحت ایک مفید ذریعہ ہے جس میں وقت بھی کم لگتا ہے اور محنت بھی زیادہ نہیں کرنی پڑتی اور اصل مقصد بھی بڑی سہولت سے واضح ہو جاتا ہے۔ لیکن اس طریقہِ کار کا استعمال مناسب حالات میں اور مناسب افراد کے ساتھ ہی کیا جا سکتا ہے۔
بعض اوقات عالم غلطی پر صراحت سے تنبیہ کرنے سے اجتناب کرتا ہے جب کہ اس طریقے کے استعمال کے نتیجے میں کوئی بڑی خرابی پیدا ہونے کا خطرہ ہو، یا کوئی بڑا فائدہ ہاتھ سے نکل جانے کا اندیشہ ہو۔ مثلاً غلطی کرنے والا معاشرے میں ممتاز مقام کا حامل ہے یا کسی بلند عہدے پر فائز ہے جس کی وجہ سے وہ اس اسلوب سے کی ہوئی تنقید برداشت نہیں کرتا۔ یا خطرہ ہے کہ صراحت کرنے پر غلطی کرنے والا اپنے آپ کو سخت مشکل میں محسوس کرے گا یا وہ اس قدر حساس طبیعت کا مالک ہے کہ اس سے منفی ردعمل سرزد ہونے کا امکان ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ غلطی کرنے والا صراحت کے اسلوب کو پسند نہیں کرتا اور اسے برداشت کرنا مشکل ہوتا ہے کیونکہ اس میں سامنے ہو کر بات کی جاتی ہے اور تنقید کرنے والا گویا استاد جیسے بلند مقام پر فائز محسوس ہوتا ہے جب کہ اس کے مقابلے میں غلطی کرنے والا ایک نقص کا حامل اور کم تر مقام پر ؎نظر آتا ہے۔ اسی طرح یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ گھما پھرا کر بات کرنے کے بھی منفی پہلوموجود ہیں جو بعض اوقات صراحت کے اسلوب سے بھی زیادہ ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ غلطی کرنے والا یہ محسوس کر سکتا ہے کہ اسے کم عقل سمجھ کر تضحیک کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ممکن ہے وہ اشاروں کنایوں کی وجہ سے پریشانی محسوس کرے کیونکہ وہ انہیں طنز اور ذہنی اذیت سمجھتاہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اسے جو بات سمجھانا مقصود ہے وہ اسے سمجھ ہی نہ سکے۔ کیونکہ کلام کا اصل مقصد پوشیدہ ہے اور غلطی کرنے والے کا ذہن اس تک نہیں پہنچ سکا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ غلطی پر قائم رہے گا۔ ویسے بھی ہر شخص میں قبولیت کی طرف میلان ایک جیسا نہیں ہوتا۔ مزید برآں ایک شخص کے لئے ایک انداز بہتر ہوتا ہے، دوسرے آدمی کیلئے کوئی دوسرا اسلوب بہتر ہوتا ہے۔ البتہ یہ بات ہر حال میں درست ہے کہ تبلیغ کی کامیابی میں رہنمائی کرتے وقت حسن خلق کا اثر سب سے زیادہ ہے۔
غلطی کرنے والے کو قائل کرنا:
غلطی کرنے والے کو قائل کرنے کے لیے اس سے تبادلہ خیال کی کوشش کا یہ فائدہ ہوتا ہے کہ اس طرح اس کی عقل پر سے وہ پردہ ہٹ جاتا ہے جو حق کی قبولیت میں رکاوٹ کا باعث ہوتا ہے، چنانچہ آدمی سیدھی راہ کو قبول کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ سنتِ نبوی ؐ میں سے اس کی ایک مثال طبرانی کی وہ حدیث ہے جو حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک نوجوان لڑکا جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے زنا کی اجازت دیجئے۔ لوگوں نے بلند آواز سے منع کیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (حاضرین سے) فرمایا: بس کرو۔ پھر فرمایا: اسے سکون سے بیٹھنے دو۔ اور اسے فرمایا: قریب آ جائو۔ وہ قریب آ گیا حتیٰ کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بالکل سامنے آ بیٹھا۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مخاطب کر کے فرمایا: کیا تم اپنی والدہ کے لے یہ چیز پسند کرتے ہو؟ اس نے کہا: جی نہیں۔ فرمایا: اسی طرح لوگ بھی اپنی مائوں کے لیے یہ چیز پسند نہیں کرتے۔ کیا تم اپنی بیٹی کے لیے یہ چیز پسند کرتے ہو؟ اس نے کہا: جی نہیں۔ فرمایا: اسی طرح لوگ بھی اپنی بیٹیوں کے لیے یہ بات پسند نہیں کرتے۔ کیا تم اپنی بہن کے لیے یہ چیز پسند کرتے ہو؟ اس نے کہا: جی نہیں۔ فرمایا: اسی طرح لوگ بھی اپنی بہنوںکے لیے یہ چیز پسند نہیں کرتے۔ کیا تم اپنی پھوپھی کے لیے یہ چیزپسند کرتے ہو؟ اس نے کہا: جی نہیں۔ فرمایا: اسی طرح لوگ بھی اپنی پھوپھیوںکے لیے یہ چیز پسند نہیں کرتے۔کیا تم اپنی خالہ کے لے یہ چیزپسند کرتے ہو؟ اس نے کہا: جی نہیں۔ فرمایا: اسی طرح لوگ بھی اپنی خالائوں کے لیے یہ چیز پسند نہیں کرتے۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا مبارک ہاتھ اس کے سینے پر رکھا اور فرمایا: اَلّٰلھُمَّ کَفِّرْ ذَنْبَہٗ وَ طَھِّر قَلْبَہٗ وَ حَصِّنْ فَرْجَہٗ ط
اے اللہ! اس کا گناہ معاف کردے، اس کے دل کو پاک کردے اور اسے پاک دامنی تھی عطا فرما (مسند احمد ۵/۲۵۶، ۲۵۷۔ والمعجم الکبیر الطبرانی)
غلطی کرنے والے کو احساس دلانا:
بعض اوقات غلطی کرنے والا من گھڑت اور ناقابل قبول وجوہات تراش کر اپنی غلطی پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے۔ خصوصاً جب کہ معاملہ اچانک ظاہر ہو جائے اور وہ ذہنی طور پر اس کے لئے تیار نہ ہو۔ بعض اوقات چھوٹا بہانہ کرتے ہوئے زبان اٹکتی ہے۔ خاص طور پر جب آدمی صاف دل والا ہو اور اسے جھوٹ بولنا نہ ا ٓتا ہو۔ اگر مربی کے سامنے اس قسم کے آدمی کا کوئی معاملہ آئے تو وہ کون سا طریق کار اختیار کرے؟ مندرجہ ذیل قصہ اگر صحیح سند سے ثابت ہو جائے تو اس سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے صحابی کے ساتھ بڑا خوبصورت اور مبنی بر حکمت موقوف سامنے آتا ہے اور اس سے یہ بھی معلو م ہوتا ہے کہ مربی کس طرح غلطی کرنے والے کو ایک تسلسل کے ساتھ غلطی کا احساس دلا سکتا ہے حتیٰ کہ وہ اپنی غلطی سے دستبردار ہو کر اصلاح کرلے۔
حضرت خوات بن جبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ہم نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمراہی میں مراالظہران (مکّہ کے قریب ایک مقام) پر پڑاؤ ڈالا۔ میں اپنے خیمے سے نکلا، اچانک مجھے کچھ خواتین باتیں کرتی نظر آئیں۔مجھے یہ منظر اچھا لگا۔ میں نے واپس اپنے خیمے میں جا کر اپنا بقچہ نکالا۔ اس میں سے ایک حلہ (عمدہ جوڑا) نکال کر پہنا اور ان کے پاس آ بیٹھا۔ (اچانک) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے۔ (مجھے عورتوں کے پاس بیٹھے دیکھ کر) فرمایا: اے ابو عبداللہ: جب میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو میں خوفزدہ ہو گیا اور مجھ سے کوئی بات نہ بن پائی۔ میں نے کہا: اللہ کے رسول! میرا ایک اونٹ بھاگ گیا ہے میں اس کے لیے رسّی کی تلاش میں ہوں۔حضور علیہ السلام چل دیے، میں بھی آپ کے پیچھے پیچھے چل پڑا۔ آپ نے اپنی چادر میرے پاس رکھ دی (مطلب یہ تھا کہ یہیں رکے رہو) اور خود (قضاے حاجت کے لیے) درختوں میں تشریف لے آئے۔ مجھے درختوں کے سبز رنگ میں سے آپ کی کمر مبارک کی سفیدی نظر آ رہی تھی۔ فارغ ہو کر آپ نے وضو کیا اور تشریف لائے تو آپ ﷺ کی ریش مبارک سے پانی ٹپک ٹپک کر سینے مبارک پر گر رہا تھا۔ آپ نے فرمایا: ابوعبداللہ! تمہارے بھاگے ہوئے اونٹ کا کیا بنا؟ اس کے بعد ہم روانہ ہو گئے۔ چلتے چلتے جب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے ملتے تو فرماتے: السلام علیکم، اب عبداللہ! تمہارے بھاگے ہوئے اونٹ کا کیا بنا؟ یہ کیفیت دیکھ کر میں تیزی سے سفر کرکے مدینہ پہنچ گیا۔ میں نے مسجد میں آنا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھنا چھوڑ دیا۔ جب کافی دن گزر گئے تو میں ایسے وقت مسجد کی طرف چلا جب وہ (نمازیوں سے) خالی ہو، میں وہاں کھڑا ہو کر نماز پڑھنے لگا۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تبھی کسی حجرہ شریف میں سے نکل کر تشریف لے آئے اور ہلکی سی دو رکعتیں پڑھیں۔ میں نے نماز لمبی کر دی کہ شایدحضور صلی اللہ علیہ وسلم مجھے چھوڑ کر تشریف لے جائیں۔ آپ نے فرمایا: ابو عبداللہ ! جتنی لمبی چاہے نماز پڑھو، جب تک نماز سے فارغ نہیں ہوگے میں بھی نہیں اٹھوں گا۔ میں نے دل میں کہا: اللہ کی قسم! میں ضرور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے معذرت کر لونگا اور اپنے بارے میں حضور علیہ السلام کا دل صاف کردونگا۔ جب میں نے نماز سے سلام پھیرا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ابو عبداللہ! السلام وعلیکم، تمہارے بھاگے ہوئے اونٹ کا کیا بنا؟ میں نے عرض کیا: قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ ﷺ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے ، وہ اونٹ تو جب سے میں مسلمان ہوا ہوں، کبھی نہیں بھاگا۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار فرمایا: اللہ تجھ پر رحمت فرمائے۔ اس کے بعد آپ نے دوبارہ بات نہیں فرمائی۔ (المعجم الکبیر الطبرانی 4/303 اس کی سند منقطع ہے کیونکہ زید بن اسلم نے حضرت خوات رضی اللہ عنہ سے حدیث نہیں سنی)
یہ تربیت کا ایک عمدہ درس ہے، اور ایسے پُر حکمت طریق کار کی مثال ہے جس سے مطلوبہ نتیجہ حاصل ہوگیا۔ اس واقع سے مندرجہ ذیل مسائل بھی اخذ کیے جا سکتے ہیں۔
مربی کی ایک ہیبت ہے، چناچہ جب وہ غلطی کے مرتکب کے پاس سے گزرتا ہے تو وہ شرم محسوس کرتا ہے۔
مربی کے سوالات باوجود مختصر ہونے کے اور مربی کی نظریں بہت کچھ سمجھا دیتی ہیں اور ان کا دل پر گہرا اثر ہوتا ہے۔
من گھڑت عذر جس میں واضح خلل اس کو غلط
ثابت کر رہا ہے، اسے سن کر بحث نہ کرنا اور عذر کرنے والے سے اعراض کر لینا، یہ احساس دلانے کے لئے کافی ہے کہ اس کا عذر قبول نہیں ہوا اور یہ چیز اسے توبہ اور معذرت کی طرف مائل کرتی ہے۔ یہ نکتہ اس حدیث کے ان الفاظ سے ظاہر ہے۔
’’حضورصلی اللہ علیہ وسلم چل دیئے‘‘
اچھا مربی وہ ہے جو غلطی کرنے والے کے دل میں حیا کا احساس بھی پیدا کردے جس کی وجہ سے وہ اس سے روپوش رہنا چاہتا ہے اور یہ احساس بھی پیدا کرے کہ اسے اس کے پاس حاضر ہونے کی ضرورت ہے اور آخر کار دوسرا احساس پہلے پر غالب آ جائے۔
اس قسم کے حالات میں جب غلطی کا مرتکب اپنا موقف تبدیل کر لیتا ہے تو اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنی غلطی کا معترف ہے اور اس سے رجوع کر رہا ہے۔
حافظ محمد ہاشم قادری صدیقی مصباحی
خطیب و امام مسجدِ ہاجرہ رضویہ اسلام نگر کپالی وایا مانگو جمشید پور جھارکھنڈ
hhmhashim786@gmail.com
مزید پڑھیں:
وضعِ حدیث کا فتنہ اور اس کا سدِّ باب
پردے کی اہمیت قرآن و حدیث کی روشنی میں
برصغیر کے سنی علما کی ترتیب کردہ چودہ مشہور کتب حدیث
امام احمد رضا کے خلفا، تلامذہ اور مریدین کی تفسیری خدمات