تراویح کے فضائل و مسائل

تراویح کے فضائل و مسائل

Table of Contents

تراویح کے فضائل و مسائل

اسد رضا عطاری اعظمی

رمضان المبارک میں عبادت کرنے کا ایک ذریعہ تراویح کو پابندی سے پڑھنے کا بھی ہے ۔
اور سکےفضائل و ترغیب احادیث و روایات میں وارد ہوئےہیں ۔
چناچہ  صحیح مسلم میں  ابو ہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی، ارشاد فرماتے ہیں : ’’جو رمضان میں  قیام کرے ایمان کی وجہ سے اور ثواب طلب کرنے کے لیے، اس کے اگلے سب گناہ بخش دیے جائیں  گے (صحیح مسلم‘‘، کتاب صلاۃ المسافرین، باب الترغیب في قیام رمضان وہو التراویح، الحدیث: ۷۵۹، ص۳۸۲۔)  یعنی صغائر۔‘‘ پھر اس اندیشہ سے کہ امت پر فرض نہ ہو جائے ترک فرمائی پھر فاروق اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ رمضان میں  ایک رات مسجد کو تشریف لے گئے اور لوگوں  کو متفرق طور پر نماز پڑھتے پایا کوئی تنہا پڑھ رہا ہے، کسی کے ساتھ کچھ لوگ پڑھ رہے ہیں ، فرمایا: میں  مناسب جانتا ہوں  کہ ان سب کو ایک امام کے ساتھ جمع کر دوں  تو بہتر ہو، سب کو ایک امام ابی بن کعب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے ساتھ اکٹھا کر دیا پھر دوسرے دن تشریف لے گئے ملاحظہ فرمایا کہ لوگ اپنے امام کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں  فرمایا  نِعْمَتِ الْبِدْعَۃُ ھٰذِہٖ  یہ اچھی بدعت ہے۔
( رواہ اصحاب السنن
…  ’’صحیح البخاري‘‘، کتاب صلاۃ التروایح، باب فضل من قام رمضان، الحدیث : ۲۰۱۰، ج۱، ص۶۵۸)

تراویح کا حکم

تراویح سنت مؤکدہ ہے محققین کے نزدیک سنت مؤکدہ کاتارک گنہگار ہے خصوصاً جب ترک کی عادت بنالے، تراویح کی تعداد جمہور امت کے ہاں بیس ہی ہے۔ ایک روایت کے مطابق امام مالک کے ہاں ان کی تعداد چھتیس ہے۔ درمختارمیں ہے تراویح سنت مؤکدہ ہیں کیونکہ خلفاء راشدین نے اس پردوام فرمایا اور وہ بیس رکعات ہیں، پھر حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ کی سنت رسالت مآب صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی ہی سنت ہے کیونکہ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ہمیں حضرت ابوبکر اور حضرت عمررضی اللہ تعالٰی عنہما کی اقتداکاحکم دیاہے اور خلفاء راشدین کی اتباع سنت میں تاکید کامل فرمائی ہے۔ امام احمد، ابوداؤد، ترمذی اور ابن ماجہ نے حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا کہ نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا تم پر میری اور خلفائے راشدین کی سنت لازم ہے اسے دانتوں سے اچھی طرح مضبوطی کے ساتھ تھام لو۔ ترمذی.
(فتویٰ رضویہ جلد 7؛صفحہ 91)

تراویح کی بیس رکعتیں ہیں:

فتویٰ فیض رسول میں ہے :

بیشک احادیث کریمہ‘ اجماع صحابہ اور جمہور علماء کے اقوال سے ثابت ہے کہ تراویح بیس رکعت ہے
( فتویٰ فیض رسول جلد اول صفحہ 351 )

تراویح میں ختم قرآن کا حکم:

تراویح میں ختم قرآن سنت ہے، خانیہ وغیرہ میں اسی کو صحیح کہاہے، ہدایہ میں اس کی نسبت اکثرمشائخ کی طرف کی ہے، کافی میں جمہور کی طرف کی ہے اور برہان میں ہے کہ یہی امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالٰی سے اثارمیں منقول ہے۔(ردالمحتار باب الوتروالنوافل مطبوعہ ایچ ایم سعیدکمپنی کراچی ۲ /۴۶)
*نیز ……*
تراویح میں ایک دفعہ ختم قرآن سنت ہے توقوم کی سستی اور کاہلی کی وجہ سے اسے ترک نہ کیاجائے۔ واللہ تعالٰی اعلم.
(فتاوٰی ہندیہ فصل فی التراویح مطبوعہ نورانی کتب خانہ پشاور ۱ /۱۱۷)

(فتویٰ رضویہ جلد 7 صفحہ 93)

تراویح میں قرأتِ قرآن کا حکم:

مدارک التنزیل میں ہے ۔
ورتل القراٰن ترتیلا ای قرأعلی تؤدۃ بتبتیین الحرف و حفظ الوقوف واشباع الحرکات ترتیلا ھو تاکید فی ایجاب الامر بہ وانہ لا بد منہ للقاری ۱
ترجمہ :
قرآن کو آہستہ آہستہ ٹھہر کر پڑھو،اس کا معنی یہ ہے۔کہ اطمینان کے ساتھ حروف جدا جدا ،وقف کی حفاظت اور تمام حرکات کی ادائیگی کا خاص خیال رکھنا__ترتیلا__اس مسئلہ میں تاکید پیدا کررہا ہے کہ یہ بات تلاوت کرنے والے کے لئے نہایت ہی ضروری ہے۔
(فتویٰ رضویہ جلد 6 صفحہ 70)
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ ایک شخص کو قرآن عظیم پڑھا رہے تھے اس نے
انما الصدقٰت للفقراء
کوبغیر مد کے پڑھا ،فرمایا:
مجھے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے یوں نہ پڑھایا) عرض کی: آپ کو کیا پڑھایا؟فرمایا:
انما الصدقٰت للفقرآء ۳
مد کے ساتھ ادا کرکے بتایا.

(اسے سعید بن منصور نے اپنی سنن اور طبرانی نے المعجم الکبیر میں صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔ت)
(فتویٰ رضویہ جلد 6 صفحہ 121)

در مختار بیان صلوۃ التراویح میں ہے ۔۔۔۔۔
( *اور جلدی جلدی قرأت سے اجتناب کرے* ۔)
( فتویٰ رضویہ جلد 6 صفحہ 70 )

فرض نماز میں اس طرح تلاوت کرے کہ جدا جدا ہرحرف سمجھ آئے، تراویح میں متوسط طریقے پر اور رات کے نوافل میں اتنی تیز پڑھسکتا ہے جسے وہ سمجھ سکے۔
( فتویٰ رضویہ جلد 6 صفحہ 70 )

*خطا فی الاعراب یعنی* حرکت،سکون ، تشدید، تخفیف، قصر،مد کی غلطی میں علمائے متاخرین رحمہ اللہ علیہم اجعیمن کا فتو ی تو یہ ہے کہ علی الاطلاق اس سے نماز نہیں
دُرمختار میں ہے کہ قرأت کرنے والے کی غلطی اگر اعراب میں ہو تو نماز فاسد نہیں ہوگی اگرچہ اس سے معنی بدل جائے اسی پر فتوٰی ہےبزازیہ۔(ت)
اگرچہ علمائے متقدین و خود ائمہ مذہب رضی اللہ تعالٰی عنہم درصورت فساد معنی فساد نماز مانتے ہیں اور یہی من حیث الدلیل اقوی ،اور اسی پر عمل احوط واحری۔
منیہ کبیر میں ہے کہ اسی کو محققین نے صحیح قرار دیا اور اسی فروع کو ذکر کیا پس تو اپنے مختار پر عمل کر اوراحتیاط بہر صورت ہر مقام پر بہتر ہے خصوصاً نماز میں، کیونکہ یہی وہ عمل ہے جس کے بارے میں بندے سے سب سے پہلے پوچھ ہوگی(ملخصا۔ت)
متعدد علماء جس میں صاحبِ ذخیرہ بھی ہے نے اس بات کی تصریح فرمائی کہ ہر حال میں عدمِ فساد پر فتوٰی ہے کیونکہ وقف ، وصل اور ابتداء کی رعایت لازم کرنے سے لوگوں پر خصوصاً عوام پر تنگی لازم آئے گی اور شرعاً تنگی مرفوع ہے۔
(جیسا کہ ائمہ متقدمین رحمہم اللہ تعالٰی کا مسلّمہ ضابطہ ہے ۔ت)
بالجملہ اگر حافظ مذکور سے وُہ خطائیں جو مفسد نماز ہیں واقع نہیں ہوتیں تو نماز اسکے پیچھے درست ،اور ترک جماعت کے لئے یہ عذر نا مسموع، اور اگر خطایائے مفسدہ صادر ہوتے ہیں تو بے شک وہ نماز نماز ہی نہیں۔نہ وہاں ثواب کی گنجائش بلکہ عیاذا باللہ عکس کا خوف ہے ، نہ اہلِ محلّہ کو دوسری مسجد میں جانے کی حاجت کہ یہی مسجد جوان پر حق رکھتی ہے ہنوز محتاجِ نماز و جماعت ہے۔ نماز فاسد کا تو عدم وجودشرعاً یکساں ،پس اگر ممکن ہو تودوبارہ جماعت وہیں قائم کرے ورنہ آپ ہی مسجد میں تنہا پڑھ لے کہ حقِ مسجد ادا ہو۔
اور اگر یہ صورت ہو کہ حافظ مذکور فرضوں میں قرآن مجید صحیح پڑھتا ہے اور خطا یا ئے مفسد ہ صرف تراویح میں بوجہ عجلت وبے احتیاطی واقع ہوتی ہیں تو فرض میں اس کی اقتدا کرے تراویح میں بھی یہی حکم ہے ورنہ درصورت فسادفرضوں میں بھی اقتداء درست نہیں کما لا یخفی (جیسا کہ ظاہر ہے۔ت) واللہ تعالٰی اعلم۔
( فتویٰ رضویہ جلد 6 صفحہ 63 )

نابالغ ( حافظ ) کی امامت:

ردالمحتار میں ہے غیر بالغ اگر مذکر ہوتو اس کی امامت درست ہے یعنی اس کا اپنے ہم مثل مذکر، مونث اور خسرہ کا امام بننا درست ہے(ت)۔

مگر بالغوں کی امامت مذہب اصح میں مطلقاً نہیں کرسکتا حتی کہ تراویح ونافلہ میں بھی

فی ردالمحتار لایصح اقتداء الرجل بصبی مطلقا ولو فی نفل علی الاصح ۲
ترجمہ :
ردالمحتار میں ہے اصح قول کے مطابق بالغ مرد کا بچّے کی اقتداء کرناہرحال میں درست نہیں اگرچہ نفل ہوں ۔
( فتویٰ رضویہ جلد 6 صفحہ 121)

داڑھی منڈے کی امامت :

آج کل کچھ ایسے امام ہمارےمعاشرے میں پائے جاتے ہیں چاہے وہ فقط  تروایح کا امام یا دیگرےنمازوں اگر وہ داڑھی منڈاتاہے تو  اسکی امامت مکروہ تحریمی  اور نماز واجب الاعادہ ہوگی ۔
فتویٰ فیض رسول میں ہے :
” ہو اگر حافظ کی پیدائشی طور پر داڑھی نہ ہو تو اس کے پیچھے تروایح پڑھنا جائز ہے بشرطیکہ امامت کی اور شرط مفقود نہ ہو‘ اور اگر داڑھی منڈاتا ہو یا کٹا کر ایک مشت سے کم رکھتا ہو تو اس کے پیچھے تراویح پڑھنا مکرہ تحریمی واجب الاعادہ ہے کہ وہ فاسق ہے یعنی تراویح پڑھنا سنت مؤکدہ ہے مگر فاسق کے پیچھے پڑھنے کے بعد دوبارہ پڑھنا واجب۔ ھٰکذا فی الکتب الفقہ۔ وھو تعالٰی اعلم ”
(فتاوی فیض رسول جلد اول صفحہ 274)

عرض :

بالخصوص گاؤں دیہاتوں میں بالعموم شہروں میں آج کل تراویح کو 120 کی رفتار میں پڑھتےہیں  نہ قرأءت کا کچھ اتہ پتہ نہ ہی مقتدیوں کا خیال مرغ  🐓 کی طرح ٹُھنگیں  مارکر 12 /15 منٹ میں تراویح سے مقتدیوں کو فارغ کردیتے ہیں
ایسوں کو رب کی پکڑ سے ڈرنہ چاہئیے آج تو مقتدیوں کو خوش کرنے کی خاطر جلدی پڑھا لوگے مگر بروز قیامت ربِ کھار نے اس پر پکڑ کی تو کیا بنے گا ۔
اس طرح جو امام پڑھاتے ہیں اگر انکی قرأءت درست ہو اور ہر حرف کو دوسرے سے تمیز کرتےہوں تو سمجھ میں آتا ہے مگر دونوں حالتیں عام طور پر  نہیں پائی جاتی ۔
عوام بھی ایسوں کو پسند کرتی ہے لہٰذا اپنی نمازوں کی حفاظت خود کریں اور صیحیح غلط میں فرق کریں ۔
اللہ تعالیٰ ہمیں شریعت کے احکام سیکھنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
آمین یارب العالمین

از قلم : اسد رضا عطاری اعظمی

26/3/ 2022/
بمطابق 22 شعبان المعظم 1443

مزید پڑھیں

رمضان کے اہم فضائل ومسائل

چاند دیکھنے کےفضائل و مسائل

روزہ کے شرعی و طبی فوائد

شیئر کیجیے

Leave a comment