چاند دیکھنے کےفضائل و مسائل

چاند دیکھنے کےفضائل و مسائل

Table of Contents

چاند دیکھنے کےفضائل و مسائل

اسدرضا عطاری اعظمی

پیارے اسلامی بھایوں
جیسے جیسے شعبان المعظم ختم ہواجاتاہےعاشقوں کے دل رمضان المبارک کی خوشی میں مچلنے لگتےہیں مسرت و خوشی کی جسم میں ایک لہر دوڑ نےلگتی ہے سحر و افطاریوں کے دل کش مناظر جب ذہن میں آتے ہیں تو عاشقِ رمضان خوشی میں جھومنےلگتے ہیں ۔
اور انہیں مناظر کے ساتھ 29شعبان کی شام کو چاند دیکھنے کا حسین منظر کی کیا کہنے اس کا تو مزا اور لطف ہی نرالہ ہے
اور جب چاند نظر نہ آئے تو بے چینیاں اور بے قراریاں مزید بڑھ جاتی ہیں۔
اور پھر ہم علماء کے ہاں فیصلہ لینے جاتیں ہیں تاکہ ان بےقرایوں کا حل کریں …!
بلکل اسی کو قرآن میں یوں بیان کیا :

{ يَسْـَٔلُوْنَكَ عَنِ الْاَهِلَّةِ١ؕ قُلْ هِيَ مَوَاقِيْتُ لِلنَّاسِ وَ الْحَجِّ١ؕ ) *ترجمہ*
( اے محبوب ! تم سے ہلال کے بارہ میں لوگ سوال کرتے ہیں ، تم فرما دو وہ لوگوں کے کاموں اور حج کے لیے اوقات ہیں )
چاند دیکھنے کا خصوصی احتمام کرنا پیارے آقا مکی مدنی مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے معمولات میں سے تھا احادیث میں چاند دیکھنے کے فضائل وارد ہوئے ہیں –

چند حدیثیں پیش خدمت ہیں :

✍️ صحیح بخاری و صحیح مسلم میں ابن عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہما سے مروی، رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں : *’’روزہ نہ رکھو، جب تک چاند نہ دیکھ لو اور افطار نہ کرو، جب تک چاند نہ دیکھ لو اور اگر اَبر ہو تو مقدار پوری کرلو*
(’’صحیح البخاري‘‘، کتاب الصوم، باب قول النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم، إذا رأیتم الھلال فصوموا۔۔۔ إلخ،الحدیث: ۱۹۰۶، ج۱، ص۶۲۹ )
✍️ نیز صحیحین میں ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی، حضورِاقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ’’ *چاند دیکھ کر روزہ رکھنا شروع کرو اور چاند دیکھ کر افطار کرو اور اگر اَبر ہو تو شعبان کی گنتی تیس ۳۰ پوری کرلو۔‘‘*
(صحیح البخاري‘‘، کتاب الصوم، باب قول النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم، إذارأیتم ۔۔۔ إلخ، الحدیث: ۱۹۰۹، ج۱، ص۶۳۰ )

مسائل چاند

آپ کو معلوم ہوگا پانچ مہینوں کا چاند دیکھنا، واجب کفایہ ہے
(۱) شعبان
(۲) رمضان
(۳) شوال
(۴) ذیقعدہ
(۵) ذی الحجہ

شعبان کا اس لیے کہ اگر رمضان کا چاند دیکھتے وقت اَبر یا غبار ہو تو یہ تیس پورے کر کے رمضان شروع کریں اور *رمضان* کاروزہ رکھنے کے لیے اور شوال کا روزہ ختم کرنے کے لیے اورذیقعدہ کا ذی الحجہ کے لیے اور ذی الحجہ کا بقرعید کے لیے۔

(’’الفتاوی الرضویۃ‘‘ ، ج۱۰ ص۴۴۹ ۔ ۴۵۱۔)
اگرچہ عوام میں باقاعدہ خصوصی طور پر رمضان اور شوال کےعلاوہ دیگرے مہنوں کے چاند دیکھنے کا رجحان بہت ہی کم پایا جاتا ہے
مگر علماء خصوصاً ریت ہلال کمیٹی کے ممبر حضرات دیگرے مہنوں کے چاند کی بھی ابڈیٹ دیتے رہتے ہیں ۔
مگر میرا مشورہ یہ ہے کہ کوشش کرکے ہمیں ان پانچ مہینوں کے چاند دیکھنے کا خصوصی باقی مہینوں کاعمومی احتمام کرنا چاہیے ۔
( فقیر )
ذیل میں اکثر پیش آنے والے مسائل کتب معتبرہ کےحوالے سے درج کرہاہوں ۔۔

شعبان کی انتیس ۲۹ کو شام کے وقت چاند دیکھیں دکھائی دے تو کل روزہ رکھیں ، ورنہ شعبان کے تیس ۳۰ دن پورے کر کے رمضان کا مہینہ شروع کریں ۔

(الفتاوی الہندیۃ، المعروف ( فتاوی عالمگیری )کتاب الصوم، الباب الثاني في رؤیۃ الہلال، ج۱، ص۱۹۷)

اَبر اور غبار میں رمضان کا ثبوت ایک مسلمان عاقل بالغ، مستور یا عادل شخص سے ہو جاتا ہے، وہ مرد ہو خواہ عورت، آزاد ہو یا باندی غلام یا اس پر تہمت زنا کی حد ماری گئی ہو، جب کہ توبہ کر چکا ہے۔
عادل ہونے کے معنے یہ ہیں کہ کم سے کم متقی ہو یعنی کبائر گناہ سے بچتا ہو اور صغیرہ پر اصرار نہ کرتا ہو اور ایسا کام نہ کرتا ہو جو مروت کے خلاف ہو مثلاً بازار میں کھانا۔
(الدرالمختار‘‘ و ’’ردالمحتار‘‘، کتاب الصوم، مبحث في صوم یوم الشک، ج۳، ص۴۰۶)

تنہا امام (بادشاہِ اسلام) یا قاضی نے چاند دیکھا تو اُسے اختیار ہے، خواہ خود ہی روزہ رکھنے کا حکم دے یا کسی کو شہادت لینے کے لیے مقرر کرے اور اُس کے پاس شہادت ادا کرے۔
اور اگر گاؤں میں چاند دیکھا اوروہاں کوئی ایسا نہیں جس کے پاس گواہی دے تو گاؤں والوں کو جمع کر کے شہادت ادا کرے اور اگر یہ عادل ہے تو لوگوں پر روزہ رکھنا لازم ہے۔
( ’’الفتاوی الھندیۃ‘‘، کتاب الصوم، الباب الثاني في رؤیۃ الھلال، ج۱، ص۱۹۷۔۔)

اگر مطلع صاف ہو تو جب تک بہت سے لوگ شہادت نہ دیں چاند کا ثبوت نہیں ہوسکتا، رہا یہ کہ اس کے لیے کتنے لوگ چاہیے یہ قاضی کے متعلق ہے، جتنے گواہوں سے اُسے غالب گمان ہو جائے حکم دیدے گا، مگر جب کہ بیرونِ شہر یا بلند جگہ سے چاند دیکھنا بیان کرتا ہے تو ایک مستور کا قول بھی رمضان کے چاند میں قبول کر لیا جائے گا۔ (الدرالمختار‘‘، کتاب الصوم، ج۳، ص۴۰۹۔ وغیرہ)
تنہا امام یا قاضی نے عید کا چاند دیکھا تو انھیں عید کرنا یا عیدکا حکم دینا جائز نہیں ۔ (الدرالمختار‘‘، کتاب الصوم، ج۳، ص۴۰۸، وغیرہ)

چاند کاایک اہم مسئلہ:

تار یا ٹیلیفون سے رویت ہلال نہیں ثابت ہوسکتی، نہ بازاری افواہ اور جنتریوں اور اخباروں میں چھپا ہونا کوئی ثبوت ہے۔ آج کل عموماً دیکھا جاتا ہے کہ انتیس ۲۹ رمضان کو بکثرت ایک جگہ سے دوسری جگہ تار بھیجے جاتے ہیں کہ چاند ہوا یا نہیں ، اگر کہیں سے تار آگیا بس لو عید آگئی یہ محض ناجائز و حرام ہے۔
(بہار شریعت حصہ 5 صفحہ 983 مکتبہ المدینہ کراچی )
اب چونکہ رویت ہلال کمیٹی پاکستان اور دیگرے ملکوں میں میں بن چکی ہے
اگر اسکے ممبر صحیح العقیدہ سنی عالم (مفتی )دین ہوں اور وہ شخص خبر( بطور چینل )کےدیں تو ہی روزہ رکھیں ورنہ صبر کریں ہمارے ہاں ہوڑھے مفتی اسلام بنے ہوئے ہوتےہے پھر شور کرکے جو مسائل کھڑے کرتے ہیں اللہ معاف کرے۔
لہٰذا جب تک رویت ہلال کمیٹی کی جانب سے اعلان نہ ہو تو روزہ رکھنے اور نہ رکھنے سے توقف کرنے میں ہی بہتری اور بھلائی ہے
اگر اس کمینٹی کا بندہ غیر مذہب ہو تو اپنے سنی علماء جس فیصلے پر متفق ہوں اسی فیصلے کو لیا جائے اگر چہ وہ اسی بدمذہب کے فیصلے پر متفق ہوئےہوں ہمیں ان ہی کا دامن تھامے رکھنا چاہئیے ۔

اللہ تعالیٰ ہمیں ان احکام کے مطابق عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
(آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم )

(23 مارچ 2022 بمطابق 19 شعبان المعظم 1443 )

از قلم : اسدرضا عطاری اعظمی

مزید پڑھیں

روزہ کے شرعی و طبی فوائد

کیا رمضان المبارک کی خوشخبری دینے سے جنت واجب ہوتی یا جہنم حرام ہوتی ہے ؟

شعبان و شب برات میں معمولات نبوی کا خلاصہ

شیئر کیجیے

Leave a comment