تجلیات حضرت سرکار آسی علیہ الرحمہ

تجلیات حضرت سرکار آسی علیہ الرحمہ

Table of Contents

تجلیات حضرت سرکار آسی علیہ الرحمہ
تجلیات حضرت سرکار آسی علیہ الرحمہ

تجلیات حضرت سرکار آسی علیہ الرحمہ

از:ابوضیاءغلام رسول مِہْرسعدی

بحر الاسرار قطب العرفاء والعشاق عارفؔ بالله حضرت سیدنا شاہ عبدالعلیم آسی رشیدی سکندری پوری ثم غازی پوری علیہ الرحمہ کی  ذات محتاج تعارف نہیں۔
آپ ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے
آپ نے علم و فن دین و مذہب اخلاق وروحانیت سلوک و تصوف ،قوم وملت سماج معاشرہ شعر و ادب زبان و بیان فکر و تحقیق و تصنیف وتالیف غرض کہ ہر شعبے میں نمایاں اور قابل فخر خدمات پیش فرمائی ہیں۔
کیونکہ آپ عالم، فقیہ ، عارف،
مصلح،صوفی، واعظ، مصنف، طبیب ، حکیم، شاعر، اور خانقاہ رشیدیہ جونپور کے آٹھویں سجادہ نشین تھے۔
آپ کے مشاہیرمعاصرین : شیخ المشائخ  مخدوم الاولیاءمولاناسید شاہ علی حسین اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی، اعلی حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی، حضرت مولانا فضل الرحمن گنج مراد آبادی، حضرت مولانا شاہ عبدالقادر عثمانی بدایونی، مولانا شاہ انواراللہ فاروقی حیدرآبادی شاہ حفیظ الدین لطیفی رحمن پوری کٹیہاری بہار،سید شاہ شہودالحق اصدقی بہاری،حضرت خواجہ الطاف حسین حالی، نواب مرزا خان داغ دہلوی، ڈاکٹر اقبال، شاہ سراج الدین وارثی  تھے۔
سوانح اشرفی میاں کچھوچھوی بنام”حیات مخدوم الاولیاء ” میں مرقوم ہے۔ کہ شیخ المشائخ مولانا سید شاہ علی حسین اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی،خانقاہ رشیدیہ جونپور شریف بحرالاسرار قطب العرفاء والعشاق حضرت مولانا شاہ عبدالعلیم آسی رشیدی سکندری ثم غازی پوری کی دیدو ملاقات کے لیےتشریف لائے۔ حضرت آسی علیہ الرحمہ نےاستقبال کیا اور معانقہ و مصافحہ کے بعد فرمایا کہ: آپ میرے لیے دعا فرمائیں کہ اللہ تعالی میرا خاتمہ بالخیر فرمائے آپ حضرت غوث پاک اور مخدومِ کچھوچھہ کی اولاد ہیں سید ہیں، حضور اشرفی میاں تاجدار کچھوچھہ نے بھی فرمایا کہ : آپ میرے لیے دعا فرمائیں کہ "حق تعالی میرا خاتمہ بالخیر فرمائے
آپ اللہ والے ہیں ۔” (حیات مخدوم الاولیاء ص140)
اعلی حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی اور بحرالاسرار حضرت مولانا شاہ عبدالعلیم آسی سکندر پوری علیہماالرحمہ کی آپس میں محبت کا اندازہ اس سے لگائیں: ؛”حضرت آسی علیہ الرحمہ، اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمہ سے 22 سال کے بڑے تھے اور بعض مسائل کی تصدیق کے لئے آپ کے پاس تشریف لاتے ۔،،ایک بار آپ کے پاس امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ اللہ کا فتویٰ آیا تو آپ نے بغیر پڑھے دستخط فرمادی۔ لوگوں نے عرض کیا کہ آپ بغیرمضمون پڑھے کسی کے فتوی کی تصدیق نہیں فرماتے ہیں مگر آج معمول کے خلاف، تو آپ نے فرمایا مولوی احمد رضا کی تحقیق پر مجھےاعتمادہے صرف تصدیق چاہیے۔،، ( بوستان آسی جلد اول صفحہ نمبر 169) مولانا عبدالحلیم فرنگی محلی،استاذ حضرت سرکار آسی:
حضرت شاہ عبدالعلیم آسی غازی پوری علیہ الرحمۃ فرماتے تھے کہ” میں نے کوئی کتاب نصف صفحہ اور ایک صفحہ سے زیادہ استاد (مولانا شاہ  فرنگی محلی) سے نہیں پڑھی”
نصف سطریاایک سطرکامطالعہ فرمایا کرتے تھے اس میں رات کی رات گزر جاتی تھی۔۔۔۔۔۔۔ نصف سطر اور ایک سطرکےسبق میں چھ سات گھنٹے صرف ہوتے تھے، مگر دونوں استاد و شاگردپسینہ پسینہ ہو جاتے تھے۔ نصف صفحہ ایک صفحہ کے بعد مولوی عبدالحلیم صاحب علیہ الرحمہ کتاب بند کرادیتے اور فرماتے کہ اب کتاب ختم ہوگئی دوسروں کو پڑھاؤ ۔
مگر حضرت (آسی علیہ الرحمہ) خود کتاب کا مطالعہ کر کے ختم کر لیتے۔ مولوی وکیل احمد سکندرپوری بھی جو حضرت( آسی) کے چچا زاد بھائی تھے اور حیدرآباد دکن میں جج تھے، مولوی عبدالحلیم صاحب سے پڑھتے تھے، وہ جب کوئی اعتراض کرتے تھے تو مولوی عبدالحلیم صاحب غور و فکر کے بعد اس کا شافی جواب دیتے تھے، مگر جب حضرت ڈوب کر کوئی اعتراض کرتے تھے تو مولوی عبدالحلیم صاحب دو دو ہفتے غور و فکرکے بعد کمزور ساجواب دیتے
تو حضرت(آسی علیہ الرحمہ ) فرماتے کہ "حضرت آپ استاد ہیں کہیئےتو مان لوں مگر میرے اعتراض کا جواب نہ ہوا۔”مولوی عبدالحلیم صاحب فرماتے کہ”کہتے تو صحیح ہو جواب نہیں ہوا،اب تم خود اپنے اعتراض کا جواب دو! اس کے بعد حضرت خود اپنے اعتراض کا جواب دیتے تو مولوی عبدالحلیم صاحب خوشی سے پھولے نہ سماتے۔ "۔
(عین المعارف ص نمبر 41)
مرزااسداللہ غالب :
” حضرت (آسی علیہ الرحمہ) نے اپنے چند نکالی ہوئی غزلیں مولوی عبدالصمد صاحب کودے دی تھیں، مولوی صاحب خود دہلی گئے تھے تو غالب سے ملے اور وہ غزلیں سنائیں۔ غالب دم بخود سنتے رہے، اس کے بعد فرمایا کہ ” اللہ اللہ ایسے لکھنے والے اب بھی ہندوستان میں موجود ہیں( عین المعارف ص نمبر 57)
حضرت سرکار آسی غازی پوری علیہ الرحمہ پروصال سےچارپانچ سال پہلے چشتیَت کا بہت زیادہ غلبہ ہوگیا تھا۔ ایک مرتبہ صوفی شاہ عبدالسبحان (جو سرکار آسی علیہ الرحمہ کے مریدوخلیفہ تھے)مراقبےمیں تھے توحضرت خواجہ غریب نواز کی زیارت سے مشرف ہوئے اور انہوں نے یہ ارشاد فرمایا:”میں محمد عبدالعلیم کاہوں اور محمد عبدالعلیم میرے ہیں۔”اسی طرح حضرت سلطان المشائخ خواجہ نظام الدین اولیاء محبوب الہی رضی اللہ عنہ کے مزار پر تھے کہ حضرت محبوب الہی نے یہ زریں قول ارشاد فرمایا:محمد عبدالعلیم کو میرا سلام کہنا اور کہنا کہ میرے سلسلےکارواج ان اطراف میں تمہاری ذات سے قائم ہے۔
(نفس مصدر صفحہ 67 )یہ قبولیت
اس بات کی طرف واضح اشارہ ہے کہ اللہ تعالی اور اس کے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کے دینی و دعوتی خدمات کو قبول فرما لیا ہے اور آپ بانی سلسلہ رشیدیہ حضرت قطب الاقطاب جونپوری علیہ الرحمہ،پیران کرام صوفیہ اسلام اور سلاسل طریقت کےمشن ومقصدکے سچے امین و جانشین اور ترجمان علمبردار تھے۔
حضور سرکار آسی علیہ الرحمہ کے چند مشہور ومعروف اور مقبول اشعار:
اےپائےنظرہوش میں آیہ کوئے نبی ہے
آنکھوں سے بھی چلنا یہاں توبےادبی ہے
میں گنہگار ہوں واعظ وتمہیں کیافکر
میرا معاملہ چھوڑو شفیع محشرپر

اخیر وقت ہے آسی چلو مدینے کو
نثا ر ہو کے مر و تر بت  پیمبر
آج پھولے نہ سمائیں گے کفن میں آسی
ہے سب گور بھی اس گل سے ملاقات کی رات
وصال مبارک:2جمادی الاولیٰ
1335 ھ کو پچاسی برس کی عمر میں وابستگان سلسلہ رشیدیہ سے ہمیشہ کے لئے پردہ فرما کر واصل بحق ہوگئے
اور آپ کا مزار پاک محلہ نور الدین پورہ، غازی پور ضلع بلیا یوپی میں مرجع انام ہے جس سے فیوض وبرکات ہمہ دم جاری و ساری ہیں۔
اللہ پاک بطفیل حبیب پاک علیہ الصلاۃ والسلام ، سرکار آسی غازی پوری علیہ الرحمۃ والرضوان کے فیضان سے ہم تمام کو مالامال فرمائے اور خاتمہ بالخیرنصیب فرمائے ۔
آمین بجاہ اشرف الانبیاء و المرسلین ﷺ

از:ابوضیاءغلام رسول مِہْرسعدی
کٹیہاری قادری رضوی اشرفی آسوی خلیفہ حضور شیخ الاسلام،
مقیم بلگام کرناٹک انڈیا
8618303831

مزید پڑھیں:

حضور اعلی حضرت کا حیرت انگیز قوت حافظہ

معاشرہ کی تعمیر میں دینی مدارس کا کردار

اجمل العلما سیرت و خدمات

پر سکون نیند ایک بڑی نعمت ہے

دعوت و تبلیغ کا نبوی منہج

موبائل فون اور ٹاور سے انسانی صحت پر ہونے والے مضر اثرات

سوشل میڈیا کتنا مفید کتنا مضر

پردے کی اہمیت قرآن و حدیث کی روشنی میں

شیئر کیجیے

Leave a comment