روافض اور دیابنہ کے عوام کا حکم
تحریر: طارق انور مصباحی
1-اگر کسی غیر عالم رافضی سے بہت سے مومنین(اتنے مومنین کہ جن کی خبر,خبر متواتر ہو جائے)کہیں کہ تمہارا فلاں مجتہد قرآن مقدس کو ناقص مانتا ہے,لہذا وہ کافر ہے,کیوں کہ قرآن عظیم میں ارشاد الہی ہے کہ قرآن مجید کا محافظ ونگہبان اللہ تعالی ہے۔
(انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحفظون)
ہم نے ہی قرآن مجید کو نازل فرمایا اور ہم ہی اس کے محافظ ونگہبان ہیں۔
اس سے ثابت ہوا کہ قرآن عظیم ہمیشہ محفوظ رہے گا۔اس میں کمی بیشی نہیں ہو سکتی۔عہد رسالت سے آیت طیبہ کا یہی مفہوم متواتر ومتوارث ہے۔تمہارا فلاں مجتہد آیت قرآنیہ کے متواتر معنی کا منکر ہے, پس وہ کافر ہے۔
اس رافضی مجتہد کی تحریر بھی اسے دکھا دی جائے۔یہ تحریر اسی رافضی مجتہد کی ہے,اس پر اتنے مومنین شہادت دیں کہ اس رافضی کو یقین ہو جائے کہ وہ تحریر اس کے فلاں مجتہد کی ہے۔یعنی اسے متواتر خبر حاصل ہو جائے اور اسے یقین ہو جائے کہ یہ تحریر اسی رافضی مجتہد کی ہے۔
اب وہ رافضی کہے کہ قرآن مقدس میں جو ارشاد الہی ہے کہ ہم قرآن کے محافظ ونگہبان ہیں۔اس کا مفہوم یہ ہے کہ جو قرآن عظیم لوح محفوظ میں مرقوم ومسطور ہے۔اللہ تعالی اس قرآن عظیم کا محافظ ونگہبان ہے۔اس میں کمی بیشی نہیں ہو سکتی۔
ہمارے درمیان جو قرآن عظیم ہے۔وہ محفوظ نہیں۔چند سال قبل اہل مغرب نے قرآن مجید کی بہت سی آیات طیبہ کو حذف کر کے شائع کیا ہے,لہذا اس قرآن عظیم میں حذف واضافہ ہو سکتا ہے۔
پھر وہ کہے کہ اگر تم سنیوں کے پاس ایک لاکھ عالم ومفتی ہیں تو ہمارے فرقہ شیعہ میں پانچ لاکھ مجتہد ہیں۔ہمارے مجتہدین کہتے ہیں کہ ہمارے درمیان جو قرآن مقدس ہے,اس میں بندوں کی طرف سے کمی بیشی ہو سکتی ہے۔ہم ایک لاکھ سنی عالموں کی بات مانیں یا پانچ لاکھ شیعہ مجتہدین کی بات مانیں؟
وہ اپنے مجتہد کو مومن مانے تو کیا ایسا رافضی کافر کلامی ہے یا محض گمراہ ہے؟کیوں کہ اسے شبہہ ہو گیا اور اس کے پاس آیت مقدسہ کی تاویل بھی ہے۔
2-اسی طرح کسی دیوبندی کو بہت سے مومنین(اتنے مومنین کہ جن کی خبر,خبر متواتر ہو جائے)کہیں کہ نانوتوی نے تحذیر الناس میں لکھا کہ ہمارے نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم آخری نبی نہیں ہیں,بلکہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے بعد بھی کوئی جدید نبی آ سکتا ہے,لہذا وہ کافر ہے,کیوں کہ قرآن عظیم میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی بتایا گیا ہے۔
(ولکن رسول اللہ وخاتم النبیی)
آیت مقدسہ کا متواتر ومتوارث مفہوم یہی ہے کہ ہمارے رسول علیہ الصلوۃ والسلام سب سے آخری نبی ہیں۔نانوتوی آیت قرآنیہ کے متواتر معنی کا منکر ہے,لہذا وہ کافر ہے۔
اس دیوبندی کو نانوتوی کی تحریر بھی دکھا دی جائے۔یہ تحریر نانوتوی کی ہے,اس پر اتنے مومنین گواہی دیں کہ اس دیوبندی کو یقین ہو جائے کہ یہ تحریر نانوتوی کی ہے,یعنی اسے متواتر خبر حاصل ہو جائے اور اسے یقین ہو جائے کہ یہ تحریر نانوتوی کی ہے۔
وہ دیوبندی کہے کہ آیت طیبہ کا مفہوم یہ ہے کہ ہمارے رسول علیہ الصلوۃ والسلام بالذات نبی ہیں اور دوسرے انبیائے کرام علیہم الصلوۃ والسلام بالعرض نبی ہیں۔
پھر وہ کہے کہ تم سنیوں کے پاس ایک لاکھ عالم ہیں تو دیوبندی فرقہ میں دو لاکھ عالم ہیں۔ہم ایک لاکھ سنی عالموں کی بات مانیں یا دو لاکھ دیوبندی عالموں کی بات مانیں؟
وہ شخص نانوتوی کو مومن مانے۔ایسا شخص کافر کلامی ہے یا محض گمراہ ہے؟کیوں کہ اسے شبہہ ہو گیا اور اس کے پاس آیت مقدسہ کی تاویل بھی ہے؟
جواب: کسی ضروری دینی کا علم یقینی حاصل ہو جانے کے بعد اس کا انکار کفر کلامی ہے,لہذا مذکورہ رافضی ودیوبندی کافر کلامی ہیں۔
قرآن عظیم کا تحریف سے محفوظ ہونا اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری نبی ہونا دونوں ضروریات دین سے ہیں۔علم قطعی کے بعد دونوں آیات طیبہ کے متواتر معانی کو ماننا ضروریات دین میں سے ہے اور متواتر معانی کا انکار کفر کلامی ہے۔
اسی طرح مذکورہ متواتر معانی کے منکرین کے انکار کا علم قطعی ہونے کے بعد منکرین کو مومن ماننا بھی کفر کلامی ہے,اور کافر ماننا ضروریات دین میں سے ہے۔
کسی ضروری دینی کا علم یقینی حاصل ہو جانے کے بعد اس کا انکار کفر کلامی ہے۔خواہ تاویل کے ساتھ انکار ہو یا بلا تاویل۔
رافضی ودیوبندی نے جو یہ کہا کہ ہمارے علما نے آیات مقدسہ کے یہ معانی بتائے ہیں تو ہم اپنے علما کی پیروی کریں گے۔اسی طرح کوئی قادیانی کہے کہ گرچہ دیگر مسالک کے علما مرزا قادیانی کی تکفیر کرتے ہیں,لیکن ہمارے قادیانی علما اس کی تکفیر نہیں کرتے,لہذا ہم قادیانی کو کافر نہیں مان سکتے تو ایسا عذر باطل قابل قبول نہیں۔
باب اعتقادیات میں صرف سواد اعظم یعنی اہل سنت وجماعت کے علما کی بات قابل قبول ہو گی۔روایت حدیث کے باب میں بدمذہب راوی کی مرویات بھی بعض شرائط سے قابل قبول ہوتی ہیں,جب کہ وہ بدمذہب کافر نہ ہو۔اسی طرح شافعی مسلک میں فقہی مسائل کے اجماع میں غیر کافر بدمذہب کے اتفاق کا لحاظ ہوتا ہے۔جو بدمذہب کافر ہو,اس کے اتفاق وعدم اتفاق کا لحاظ نہیں۔
سواد اعظم کی علامتیں بیان کی گئی ہیں۔وہ علامتیں بدیہی اولی ہیں۔عوام کو سمجھنا کچھ مشکل نہیں۔اسی سواد اعظم کو فرقہ ناجیہ اور اہل سنت وجماعت کہا جاتا ہے۔اسی جماعت حقہ کی ایک علامت”ما انا علیہ واصحابی”ہے۔یعنی جو جماعت حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اور حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین کی راہ پر ہو,وہ جماعت حقہ اور طبقہ ناجیہ ہے۔
روافض ودیابنہ کو بخوبی معلوم ہے کہ رافضی مجتہد اور نانوتوی صحابہ کرام کے طریقہ پر نہیں ہیں۔
رافضی مجتہدین حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین کے طریقے پر نہیں,بلکہ یہ لوگ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین پر تبرا کرتے ہیں۔ان پر طعن کرتے ہیں۔روافض شیر خدا حضرت علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ کو خلیفہ بلا فصل مانتے ہیں,جب کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین حضرت علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ کو چوتھا خلیفہ مانتے ہیں۔اسی پر حضرات صحابہ کرام کا اجماع ہے,پس رافضی مجتہدین اعلانیہ طور پر طریق صحابہ پر نہیں,پس وہ اہل حق نہیں۔
نانوتوی نے تحذیر الناس میں صراحت کر دی ہے کہ ختم نبوت کا جو معنی ہم نے بتایا ہے,یہ جدید معنی ہے۔جب یہ جدید معنی ہے تو حضرات صحابہ کرام بھی اس معنی سے نا آشنا تھے۔انہوں نے بھی ختم نبوت کا یہ معنی مراد نہیں لیا,پس نانوتوی حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین کے طریقے پر نہیں,بلکہ حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے طریقہ پر بھی نہیں,کیوں کہ نانوتوی نے ختم نبوت کا ایک جدید معنی گڑھ لیا ہے جو حضور اقدس علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی نہیں بیان فرمایا ہے۔
ضروریات دین میں شبہات باطلہ
بہت سی ضروریات دین میں شبہات باطلہ ہوتے ہیں,ورنہ تکلیف(بندوں کو حکم خداوندی ماننے کا محکوم ہونا)کا معنی باطل ہو جائے گا۔
جن امور میں شبہات باطلہ بھی نہ ہوں,اہل عقل اسے یقینی طور پر مانتے ہیں اور اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہوتا,مثلا جاندار کی موت پر ہر مسلم وغیر مسلم کا اتفاق ہے کہ ہر جاندار کو موت آتی ہے۔ہر جاندار مر جاتا ہے,کیوں کہ لوگ ہر صبح وشام موت کی خبریں سنتے ہیں اور مردوں کو دیکھتے ہیں۔
ہمارے رسالہ:”ضروریات دین اور عہد حاضر کے منکرین”(دفتر اول-ص84)میں شبہات باطلہ کا ذکر ہے۔
مدار تکلیف عقل ہے۔عقل کو شبہات لاحق ہوتے ہیں۔عقل کی ہدایت اور دفع شبہات کے واسطے حضرات انبیائے کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی بعثت ہوتی ہے۔جب اور جہاں نبی علیہ السلام نہ ہوں تو اس نبی کی امت کے علما واولیا اس نبی علیہ السلام کے نائب ووارث ہوتے ہیں۔وہ شبہات باطلہ کو دور کرتے ہیں۔علمائے کرام اپنے دلائل سے شبہات کو دور کرتے ہیں اور اولیائے کرام اپنی کرامتوں کے ذریعہ شبہات باطلہ کو دور کرتے ہیں۔
بھارت میں جو مختلف قسم کے باطل مذاہب ہیں۔ان کے اہم لوگوں کے بارے میں عجیب وغریب باتیں مشہور نہیں,نیز وہ جادو کے ذریعہ بھی متحیر العقول کرتب اور تماشے دکھاتے,جیسے ساحرین فرعون کے کرتب تھے۔ان کرتب اور متحیر العقول تماشوں کو دیکھ کر لوگوں کو شبہہ ہوتا ہے کہ یہ باطل مذاہب بھی سچے مذاہب ہیں۔
حضرات اولیائے کرام قدست اسرارہم نے ان کے کرتب اور ساحرانہ تماشوں کو اپنی کرامتوں کے ذریعہ شکست دی,جیسے حضرت موسی علیہ الصلوۃ والسلام کے معجزہ کے سبب ساحرین فرعون شکست کھا گئے اور ایمان قبول کر لئے۔بھارت میں حضرت خواجہ غریب نواز رضی اللہ تعالی عنہ کی کرامت اور جوگی جے پال کے بلندیوں میں اڑنے,پھر شکست کھا کر ایمان قبول کرنے کا واقعہ بہت مشہور ہے۔
عہد نبوی میں مشرکین عرب کو توحید خداوندی اور قیامت ودیگر امور کے بارے میں شبہات تھے۔قرآن مقدس میں بھی ان شبہات کا جواب دے دیا گیا,لیکن وہ نہ مانے اور اپنے شبہات باطلہ پر اصرار کرتے رہے۔شبہات باطلہ کا صحیح حل پیش کرنے کے بعد بھی کوئی شبہات باطلہ پر اصرار کرے تو وہ ہرگز معذور نہیں۔اسی طرح جس جاہل دیوبندی کو اشخاص اربعہ کے کفریہ عقائد کا یقینی علم ہو,اور ان لوگوں پر عائد کردہ حکم کفر کا یقینی علم ہو,اس کے شبہات کے جوابات بھی بتا دیئے گئے ہوں,پھر بھی وہ اصرار کرے تو اس پر حکم کفر عائد ہو گا۔وہ معذور نہیں۔
توحید الہی پر مشرکین کے شبہہ باطل کو بیان کرتے ہوئے اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:
(اجعل الالہۃ الہا واحدا ان ہذا لشیء عجاب)(سورہ ص:آیت 5)
ترجمہ:کیا اس نے بہت خداؤں کا ایک خدا کر دیا۔بے شک یہ عجیب بات ہے۔(کنز الایمان)
مشرکین کا شبہہ یہ تھا کہ مخلوقات بہت کثیر ہیں تو ان کے لئے بہت سے خدا کی ضرورت ہے۔دفع شبہہ کے بعد بھی وہ اپنے شبہہ پر اصرار کرتے رہے اور شبہہ کے باوجود وہ مشرک قرار پائے۔معذور نہیں تسلیم کئے گئے۔
ضروریات دین اور ضروریات اہل سنت میں شبہہ
جب ضروریات دین اور ضروریات اہل سنت میں کوئی شبہہ لاحق ہو تو انکار یا سکوت کا حق نہیں,بلکہ شبہہ دور کرنے کا حکم ہے۔اگر صاحب شبہہ اہل علم ہے تو غور وفکر اور تتبع وتلاش کے ذریعہ شبہہ دور کر لے۔اگر خود سے شبہہ دور نہ ہو سکے یا صاحب شبہہ غیر عالم ہے تو اہل علم سے دریافت کر ے۔
قرآن مجید میں حکم الہی ہے۔
(فاسئلوا اہل الذکر ان کنتم لا تعلمون)
شبہہ کی حالت میں ضروریات دین اور ضروریات اہل سنت کے انکار کا حق نہیں,بلکہ یہ اعتقاد رکھے کہ جو عند اللہ حق ہے,وہی ہمارا عقیدہ ہے۔سکوت اور توقف کی اجازت نہیں۔تفصیلی بحث البرکات النبویہ:رسالہ یازدہم(ص198)میں ہے۔
دفع شبہہ کے لئے کس عالم کے پاس جائے؟
عہد ماضی میں بھی گمراہ جماعتیں تھیں۔ان جماعتوں کے عوام اپنے مذہبی قائدین کے بیان کردہ احکام پر عمل کرتے تھے۔اپنے قائدین کو وہ عوام علمائے حق سمجھتے تھے,لیکن اپنے علما کی پیروی کے باوجود ان عوام پر بھی کفر یا ضلالت کا حکم عائد ہوا۔جیسے عہد حاضر میں شیعہ عوام پر بھی حکم کفر ہے۔
قرآن وحدیث میں علمائے حق کی پیروی کا حکم ہے۔اہل حق اور اہل باطل میں فرق وامتیاز بہت مشکل نہیں,بلکہ عوام مسلمین کی آسانی کے لئے بہت سی بدیہی اور قابل فہم علامتیں بیان کر دی گئی ہیں۔ان علامتوں کی تفصیلی بحث ہماری کتاب”السواد الاعظم”میں ہے۔
اگر دیوبندی عوام مسلک دیوبند کے عناصر اربعہ کے بارے میں اپنے ملاؤں سے دریافت کریں تو یقینا وہ لوگ عناصر اربعہ کو عالم کامل اور ولی کامل بتائیں گے,پھر دیوبندی عوام اپنے شبہات باطلہ پر مستمر ومصر رہیں گے اور ان پر حکم شرعی وارد ہو گا۔
ایسی صورت میں ہر فرقہ کے عوام کو اپنے مذہبی قائدین کی طرف رجوع کا حکم کیسے ہو سکتا ہے۔لا محالہ انہیں علمائے حق کی طرف رجوع کا حکم ہو گا۔
اہل حق کی ایک عظیم نشانی یہ ہے کہ وہ عہد رسالت سے قرب قیامت یعنی مدت اسلام کی تکمیل(قیامت سے چالیس سال قبل)تک رہیں گے۔شیعہ لوگ نہ عہد رسالت میں تھے,نہ عہد صدیقی میں,نہ عہد فاروقی وعہد عثمانی میں۔ عہد مرتضوی میں شیعہ مذہب کا وجود ہوا۔حضرت علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ نے ان کے غلط عقائد کی تغلیط کی۔غالی شیعہ جو شیر خدا حضرت علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ کو معبود مانتے تھے,آپ نے انہیں آگ میں جلا دیا۔
نانوتوی نے تیرہویں صدی کے اخیر میں ختم نبوت کا نیا معنی اختراع کیا۔عہد ماضی میں کوئی شخص ایسا عقیدہ نہیں رکھتا تھا۔پس یہ بھی ایک نیا فرقہ ہوا۔قادیانیت کی بنیاد بھی نانوتوی کی تحذیر الناس پر ہے۔
اسی طرح عہد ماضی میں کسی نے یہ نہیں کہا کہ شیطان کا علم حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے علم پاک سے زیادہ ہے۔جیسا کہ انبیٹھوی وگنگوہی نے کہا۔کسی نے حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے علم پاک کو بچوں کے علم کی طرح نہیں کہا,جیسا کہ تھانوی نے کہا۔یہ سب نئے عقیدے ہیں اور ایسے عقائد کو ماننے والی جماعت یعنی فرقہ دیوبندیہ ایک نیا فرقہ ہے۔اس فرقہ کا وجود تیرہوں صدی میں ہوا۔عہد رسالت سے یہ فرقہ بھی منقطع ہے۔
دراصل فرقہ دیوبندیہ فرقہ وہابیہ کی شاخ ہے۔ابن عبد الوہاب نجدی(1115-1206ھ)نے بارہویں صدی ہجری میں اس فرقہ کی بنیاد نجد میں رکھی تھی۔1240 ھ سے اسماعیل دہلوی نے بھارت میں وہابیت کی تبلیغ شروع کی۔اس کی موت کے بعد وہابیہ دو حصوں میں منقسم ہو گئے۔ایک حصہ غیر مقلد ہو گیا۔اس کو اہل حدیث,سلفی اور غیر مقلد کہا جاتا ہے۔ایک حصہ حسب سابق تقلید پر عمل کرتا ہے,اور عقائد میں وہابیوں کی پیروی کرتا ہے۔اس حصے کو دیوبندی کہا جاتا ہے۔جب فرقہ وہابیہ ایک نیا فرقہ ہے تو اس کی شاخ یعنی فرقہ دیوبندیہ بھی ضرور ایک نیا فرقہ ہے۔
تمام لوگوں کو طلب حق اور(فاسئلوا اہل الذکر ان کنتم لاتعلمون)پر عمل کے لئے علمائے اہل سنت وجماعت کی طرف رجوع کرنا لازم ہے۔
باب اعتقادیات کے مسائل کے حل کے لئے امام اہل سنت اعلی حضرت قدس سرہ العزیز کے رسائل وفتاوی دیکھیں۔وہ امام اشعری اور امام ماتریدی کی طرح عظیم متکلم تھے۔اگر کوئی مسئلہ ان کی تحریروں میں نہ مل سکے تو بہت افسوس ہے۔امام اہل سنت قدس سرہ العزیز کی تحریروں کی تصدیق وتصویب ہو چکی ہے۔
مجبوری کی صورت میں عہد حاضر کے کسی بھی عالم کی طرف رجوع کریں تو ان کی تحریر کی تصدیق وتصویب دیگر علمائے اہل سنت سے بھی طلب کریں۔کوئی عالم ومحقق معصوم نہیں۔کسی سے بھی لغزش وخطا ہو سکتی ہے۔مجھ سے بھی لغزش وخطا ہو سکتی ہے,بلکہ ہوتی ہے,پھر تصحیح ورجوع بھی کرتا ہوں۔ہذا من فضل ربی۔
تحریر: طارق انور مصباحی
جاری کردہ:22:اگست 2021