قربانی اور اس کے مسائل

قربانی اور اس کے مسائل

Table of Contents

قربانی اور اس کے مسائل

از قلم: سبطین رضا مصباحی

قربانی اور اس کے مسائل
قربانی اور اس کے مسائل

قربانی ایک مہتم بالشان عبادت ہے جو حضرتِ آدم علیہ السلام سے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی امت تک چلی آرہی ہے_ ہر امت میں اس عظیم عبادت پر عمل رہا ہے چناں چہ اللہ رب العزت کا فرمانِ عالی شان ہے”: ﴿وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا لِيَذْكُرُوا اسْمَ اللهِ عَلَى مَا رَزَقَهُمْ مِنْ بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ﴾ [سورۂ الحج،آیت: 34]
ایسے ہی حضرتِ ابراہیم علیہ السلام نے بحکمِ الہی اپنے لختِ جگر کو راہِ حق میں خلوص سے قربانی کے لیے پیش کیا اس قربانی کی نسبت آپ کی طرف کردی گئی اور اسے اب سنت ابراہیمی کہا جانے لگا ، حضور صلی اللہ علیہ و سلم  اپنے حیاتِ طیبہ میں مسلسل قربانی کرتے رہے مدینہ طیبہ میں ایک ایسا سال بھی نہیں گزرا کہ آپ نے قربانی نہ فرمائی ہو اور صحابہ کو بھی اس عظیم قربانی کی عظمت و اہمیت سے آگاہ فرمایا.

سادہ اور سہل لفظوں میں کہا جاے تو قربانی مخصوص جانور کو مخصوص دن بہ نیت تقرب الی اللہ ذبح کرنے کا نام ہے، قربانی کا مقصد جہاں سنت ابراہیم کی ادائیگی ہے وہیں اس کے ذریعے بندۂ مومن کے اخلاص کی جانچ بھی ہے-

قربانی ہر آزاد،مقیم،صاحبِ نصاب مسلمان مرد و عورت پر ہر سال اپنی طرف سے قربانی واجب ہے اگر نہیں کرے گا تو گناہ گار ہوگا(بہارِ شریعت،ج:3،حصہ:15،ص:332)
قربانی ہر شخص پر واجب نہیں بلکہ اس کے لیے شریعت نے ایک خاص نصاب مقرر کیا ہے جس شخص کے پاس اس نصاب کے برابر مال ہو اس کو صاحبِ نصاب کہتے ہیں صرف اسی پر قربانی واجب ہے اور جو صاحبِ نصاب نہ ہو اس پر قربانی واجب نہیں، صاحبِ نصاب ہر وہ شخص ہے جو رہائشی مکان و اسباب خانہ داری اور پیشہ کے آلات کے علاوہ ساڑھے باون تولہ چاندی یا ساڑھے سات تولہ سونا یا ان کی قیمت کے روپے پیسے یا تجارتی سامان کا مالک ہو(حوالہ سابق،ص:333)
قربانی کی فضیلت اور ثبوت قرآن و حدیث سے عیاں ہے چناں چہ ارشادِ باری تعالی ہے” {فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَ انْحَرْ} تو تم اپنے رب کے لیے نماز پڑھو اور قربانی کرو۔

اس آیت کی تفسیر میں  ایک قول یہ بھی ہے کہ نماز سے نمازِ عید مراد ہے۔( مدارک، الکوثر، تحت الآیۃ: ۲، ص۱۳۷۸، خازن، الکوثر، تحت الآیۃ: ۲، ۴ / ۴۱۶-۴۱۷، ) قربانی کی فضیلت میں کثرت سے احادیث وارد ہیں چناں چہ حضرتِ زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ حضور سے صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! ماھی الاضاحی! یہ قربانیاں کیا ہیں تو حضور نے فرمایا:” سنۃ ابیکم إبراهيم یعنی تمہارے باپ ابراہیم کی سنت ہے -پھر صحابہ نے عرض کیا” فما لنا فیھا یا رسول اللہ” یعنی ان میں ہمیں کیا ملے گا! تو حضور نے فرمایا” بکل شعرۃ حسنۃ”یعنی قربانی کے جانور کے ہر ہر بال کے بدلے ایک ایک نیکی ملے گی_(سنن ابن ماجہ،ص:535،دارِ احیا تراث بیروت) ظاہر ہے کہ جانور کے بدن پر کتنے بال ہوتے ہیں اگر کوئی گننا چاہے تو شاید ممکن نہیں_
قربانی کی مناسبت سے افادۂ عام کی خاطر  کچھ معلومات نذرِ قارئین ہے۔  سوال ہے کہ کن جانوروں کی قربانی ہوسکتی ہے اور وہ جانور کیسا ہو! سب سے پہلے جان لیں کہ قربانی کا جانور شرعی طور پر متعین ہیں ، شریعت مطہرہ نے قربانی کے جانور کی تین اقسام بیان فرمائی ہیں(1)بکری(2)گاے(3)اونٹ فقہ حنفی کی مشہور کتاب ہدایہ میں ہے

"وَالْأُضْحِيَّةُ مِنْ الْإِبِلِ وَالْبَقَرِ وَالْغَنَمِ-لانھا عرفت شرعا ولم تنقل التَّضْحِيَةُ بغیرھا من النبی علیہ السلام ولامن الصحابة رضی اللہ عنھم” یعنی قربانی کے جانوروں میں سے اونٹ،گاے،اور بکری ہیں-کیوں کہ شرعا یہی معروف ہیں اور ان جانوروں کے علاوہ کسی کی قربانی نبی کریم اور صحابۂ کرام سے ثابت نہیں_(ہدایہ،ج:4،ص:408،مکتبہ دار العلمیہ بیروت)
حضور صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں”قربانی کے تین قسم کے جانور ہیں: اونٹ،گاے،بکری-ہر قسم کی جتنی نوعیں ہیں سب داخل ہیں-نر مادہ خصی اور غیر خصی سب کا ایک حکم ہے-بھینس گائے میں شمار ہے-بھیڑ اور دنبہ بکری میں داخل ہے_(بہارِ شریعت،حصہ:15،ص:339،مطبوعہ مکتبہ المدینہ کراچی)

قربانی کا وقت دسویں ذوالحجہ کی صبحِ صادق سے لے کر بارہویں کے غروبِ آفتاب تک ہے_
قربانی سے متعلق مسائل جاننا بہت ضروری ہیں اکثر لوگ مسائل کی غلط معلومات کے شکار ہوجاتے ہیں ان میں سے کچھ مندرجہ ذیل ہیں_
(1) آج کل یہ بات زور و شور کے ساتھ نشر ہورہی ہے کہ جس پر قربانی واجب ہو اسے قربانی تک بال اور ناخن نہیں کاٹنا چاہیے جب کہ ایسا ضروری نہیں حدیث میں ہے کہ جس کو قربانی کرنی ہے اسے ذوالحجہ کا چاند طلوع ہونے کے بعد سے قربانی تک اپنے بال اور ناخن کاٹنے سے منع کیا گیا ہے لیکن یہ حکم وجوبی نہیں استحبابی ہے یعنی اس پر عمل کرنا بہتر ہے نہ کرے تو کوئی مضائقہ (حرج) نہیں البتہ مستحب اور افضل یہ ہے کہ نہ کاٹنے-

فتاویٰ رضویہ میں ہے”یہ حکم صرف استحبابی ہے کرے تو بہتر ہے نہ کرے تو کوئی مضائقہ نہیں، نہ اس کو حکم عدولی کہہ سکتے ہیں نہ قربانی میں نقص آنے کی کوئی وجہ_(جلد:2،ص:353،رضا فاؤنڈیشن لاہور)
(2) جانوروں کے کانوں میں سوراخ کو لے کر معاملہ کبھی تذبذب ہوجاتا ہے کہ اس سے قربانی ہوں گی یا نہیں جیسا کہ اکثر بیوپاری جانوروں کو مخصوص نشان لگاتے ہیں- مستحب یہ ہے کہ جانوروں کے کان،آنکھ،ناک،ہاتھ،پاؤں وغیرہ صحیح سلامت ہو اور عیب سے پاک ہوں_ اگر تھوڑا سا عیب ہو تو قربانی مکروہ-اگر زیادہ ہو تو ناجائز ہے- مسئلہ یہ ہے کہ اگر بیل کے کان میں سوراخ ایسا ہے کہ اگر وہ سب مل کر تہائی کان کی مقدار ہو یا اس سے کم ہے اور کوئی دوسرا مانع عیب بھی نہیں تو ایسے جانوروں کی قربانی جائز تو ہے مگر مکروہ خلافِ اولیٰ ہے اور ایک تہائی سے زیادہ ہو تو ناجائز –

جامع صغیر میں ہے” دون قطع من الذنب اوالاذن اوالالیہ الثلث او اقل اجزاہ وان اکثرھم لم یجز” یعنی اگر جانوروں کی دم یا کان یا چکی کا ایک تہائی یا اس سے کم حصہ کٹا ہوا ہے تو اس کی قربانی جائز ہے اور اگر اگر ایک تہائی سے زیادہ حصہ کٹا ہو تو اس جانور کی قربانی ناجائز ہے_(کتاب الذبائح،ص:473،مطبوعہ عالم الکتب بیروت)
(3) حاملہ جانور کو لے کر کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اس کی قربانی صحیح نہیں جب کہ ایسا بالکل بھی نہیں ہے-مسئلہ یہ ہے کہ حاملہ جانور کی قربانی شرعا ناپسند ہے لیکن قربانی ہوجائے گی البتہ مالک نصاب کو چاہیے کہ اگر وقت ولادت قريب ہوتو بدل کر دوسرا لے لے، کہ  اب بلاوجہ اس کا بچہ ضائع ہو جائے گا. جو کہ مکروہ ہے.
علامہ ابن عابدين شامی فرماتے ہیں :
ان تقاربت الولادۃ یکرہ ذبحہا۔ (ردالمحتار مع الدر ۹؍۴۴۱)خلاصہ یہ ہے کہ احتراز اولیٰ یعنی بچنا بہتر ہے_
(4) جانور کے سینگ کو لے کر معاملہ کبھی طول پکڑ لیتا ہے اس معاملہ کے متعلق مسئلہ یہ ہے کہ سینگ کا ٹوٹنا اس وقت عیب شمار ہوتا ہے جب کہ جڑ سمیت ٹوٹ جائے اور زخم بھی ٹھیک نہ ہوا ہو-لہذا اگر جانور کی سینگ جڑ سمیت ٹوٹ جائے اور زخم بھر جائے تو اس کی قربانی ہوسکتی ہے کیوں کہ جس عیب کی وجہ سے قربانی نہیں ہورہی تھی وہ عیب اب ختم ہوچکا ہے لہذا اس کی قربانی ہوجائے گی-اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ اسی طرح کے ایک مسئلے کے جواب میں فرماتے ہیں "سینگ ٹوٹنا اس وقت قربانی سے مانع ہوتا ہے جب کہ سر کے اندر جڑ تک ٹوٹے اگر اوپر کا حصہ ٹوٹ جائے تو مانع نہیں_(فتاویٰ رضویہ،جلد:20،ص:46،رضا فاؤنڈیشن لاہور)

ان احادیث اور اقوال فقہا سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ قربانی سے مقصد صرف اور صرف اللہ کی رضا ہو، نہ گوشت کا خیال ہو نہ اپنے جاہ ومنصب کا ، نہ ہی لوگوں کی مدح و ستائش کا ، اور قربانی کا جانور صحت مند اور فربہ ہو، یہ قربانیاں اللہ کی بارگاہ میں نہیں پہنچتی، ان کا گوشت پوست نہیں پہنچتا بلکہ اللہ کی بارگاہ میں تقویٰ اور حسنِ نیت پہنچتی ہے، اس لیے قربانی اچھی نیت سے ہونی چاہیے

دعا ہے رب تعالیٰ ہماری قربانیوں کو شرفِ قبولیت بخشے

از قلم: سبطین رضا مصباحی کشن گنج بہار
اسلامک ریسرچ اسکالر البرکات علی گڑھ

مزید پڑھیں

قربانی میں نصاب کیا ہےکیا مقروض و مسافر پر قربانی واجب ہے

قربانی کسے کہتے ہیں،شرعی حکم،قربانی کس پر واجب ہے

قربانی کے ایک مسئلے کی وضاحت

ایک حکیمانہ قول کی توضیح

مقرر کے لئے کتنی شرائط ہیں؟

قربانی کے مسائل اور ان کا حل قسط دوم (الف)

قربانی کے متعلق سوال و جواب کا ایک انمول تحفہ

شیئر کیجیے

Leave a comment