حج کی اہمیت و افادیت اور غلط فہمیوں کا ازالہ
تحریر:محمد اورنگ زیب مصباحی
حج نام ہے احرام باندھ کر نویں ذو الحجہ کو عرفات میں ٹھہرنے اور کعبہ معظمہ کے طواف (طریقہ سنت میں جتنی باتیں ہیں اس کے مطابق ادا کرنے) کا اور اس کے لیے ایک خاص وقت مقرر ہے کہ اس میں یہ افعال کیے جائیں، حج ۹ہجری میں فرض ہوا، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ترجمہ:- حج و عمرہ کو اللہ کے لیے پورا کرو (البقرہ ۱۹۶)
حج زندگی بھر میں صرف ایک مرتبہ فرض ہے، اس کی فرضیت قطعی ہے، جو اس کی فرضیت کا انکار کرے کافر ہے۔
حج فرض ہونے کے لیے آٹھ شرائط ہیں
جبتک آٹھوں نہ پائے جائیں حج فرض نہیں ہوگا (۱)مسلمان ہونا (۲) دار الحرب کا مسلمان ہو تو اس کے لیے فرضیت حج کا علم بھی ضروری ہے(۳) بالغ ہونا(۴)عاقل ہونا (۵) آزاد ہونا(۶)تندرست ہونا (۷)سفر خرچ کا مالک ہو (۸)وقت
حج کے فضائل
دیکھیے حج کے یوں تو بےشمار فضائل ہیں مثلاً اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں حج بھی شامل ہے، صحیحین میں حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، حضور ﷺ سے عرض کی گئی، کون عمل افضل ہے؟ فرمایا:اللہ و رسول پر ایمان۔ عرض کی گئی پھر کیا؟ فرمایا:اللہ کی راہ میں جہاد۔ عرض کی گئی پھر کیا؟ فرمایا:حج مبرور۔ ابنِ ماجہ ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے راوی، کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:حج کمزوروں کے لیے جہاد ہے، عورتوں پر بھلے جہاد فرض نہیں مگر انہیں حج کے ذریعے اس کا ثواب ملتا ہے احادیث پاک میں حج کو عورتوں کے لیے جہاد کہا گیا۔
حج کے فضائل پر بے حساب احادیث ہیں جن میں کہیں کروڑوں نیکی کی بابت وضاحت کی گئی تو کہیں، گناہوں سے بالکل پاکی اور تزکیہ پہ دلیل ہے تو کہیں جنت کی بشارت دی گئی، بس شرط قبولیت ہے، کیونکہ حج مبرور کی بشارتیں ہیں حالانکہ معاذاللہ کسی وجہ سے حج قبول نہ بھی ہو تب بھی بےشمار نیکیوں کا حقدار ہوگا مگر یہ بڑی بدنصیبی اور محرومی کی بات ہے کہ مسلمان حج کو جائے اور قبول نہ ہو۔
حج کے متعلق کچھ غلط فہمیوں کا ازالہ
پہلی غلط فہمی:-
کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ زندگی بھر ہم برائیوں میں مشغول ہوکر حقوق اللہ اور حقوق العباد میں خیانت کر کے پھر حج پہ چلے جائیں تو تو ہم سارے گناہوں سے پاک ہوجائیں گے، مگر یاد رکھیں کہ اگر آپ نے اگر کسی غریب کو ستایا ہے تو اس سے حج پہ جانے سے قبل معافی مانگنے کا بھی حکم ہے، ورنہ ممکن ہے کہ اس ایک گناہ کی وجہ سے آپ کا حج بجائے مبرور ہونے کے مردود ہوجائے
دوسری غلط فہمی:-
زندگی بھر نمازیں عمداً و سہوا چھوڑتے رہیں اور حج کر کے گمان کریں کہ ہم تو گناہوں سے ایسے پاک ہوگئے جیسے ماں کے پیٹ سے بچہ بےگناہ پیدا ہوا کرتا ہے، حالانکہ ایسا ہرگز نہیں کیونکہ جو نمازیں حج سے قبل حاجی کے ذمہ قضا تھیں وہ بعد حج بھی اسی کے ذمہ ہے اور اگر ممکن ہو تو حج سے قبل ہی قضا کرے ورنہ توبہ استغفار کرکے حج پہ چلا جائے اور بعد حج قضا کرے ہاں اللہ کے کرم سے انشاء اللہ حج کی وجہ سے وقت سے بےوقت پڑھنے پہ جو گناہ ملتا وہ نہیں ملے گا اگر دل سے تائب ہو، مگر قضا بہرحال باقی رہے گا۔
تیسری غلط فہمی:-
کوئی کسی کا کتنا بھی مال و دولت یا سرمایہ لوٹ کر ہضم کرجائے یا قرض پر پیسے لیکر پھر اسے دینے سے انکار کر دے یا ہر قسم کا گھوٹالا حتی کہ جملہ حقوق العباد حج کے بعد سب معاف، حالانکہ ایسا ہرگز نہیں بلکہ ممکن ہو تو حج سے قبل ہی لوٹ خسوٹ کی ادائیگی اور تلافی کرلے اور قرضوں اور گھوٹالوں کی بھرپائی کردیں ورنہ آپ کے ذمہ باقی رہ کر قبولیت حج میں خلل بھی ہوگا۔
چوتھی غلط فہمی:-
بعض لوگ محض حج پہ حج عمرے پہ عمرہ کیے جاتے ہیں مگر وہ یہ خیال نہیں کرتے کہ کہ وہ جس دولت سے حج یا عمرے کرتے ہیں وہ حرام تو نہیں! یقین مانیں کہ قبولیت حج کے لیے حلال دولت شرط ہے جو حج پہ خرچ کیا جائے ورنہ حج مردود ہوسکتا ہے۔
پانچویں غلط فہمی:-
آج کل لوگ سب تو نہیں مگر اکثر ریا کاری کے لیے یا نام و نمود کے لیے کرتے ہیں تاکہ لوگ انہیں حاجی کہیں، اور اپنے گمان میں وہ جنتی بھی ہوچکے ہوتے ہیں مگر درحقیقت ایسے لوگ کی حج صحیح ادا ہونے کے باوجود صرف فرض پورا ہوتا ہے نہ کہ نیکیاں اور جنت کا ٹکٹ۔
یہ کچھ ایسی غلط فہمیاں اور برائیاں ہیں جن کی وجہ سے حج مقبول نہیں ہو پاتا اور مسلمان نیکیوں سے محروم ہوجاتا ہے۔ لہذا حج پہ جانے سے قبل ہی رب کی بارگاہ میں صدق دل سے توبہ کرے اور گریہ و زاری کرے، پھر عموماً جو لوگ معافی مانگتے ہیں وہ ایسے لوگوں سے مانگتے ہیں جن کے ساتھ ان کی لڑائی وغیرہ نہیں ہوئی اور جن سے ہوئی ہوتی ہے ان سے معافی نہیں مانگتے، یہ انتہائی گھٹیا رواج ہے، سبھوں سے معافی مانگیں مگر بالخصوص ان سے جن سے دشمنی ہے۔
حج کے فوائد
حج کے اہم فائدوں میں سے ایک یہ ہے کہ انسان اس کی وجہ سے دنیاوی آلائش سے اپنے آپ کو پاک و صاف کرسکتا ہے، وہ دنیا کی رنگینیوں میں مگن تھا مگر ایام حج میں حج کے دوران خدا کے احسانات اور اس کی کبریائی اور اہم نشانیاں اس کی نظروں کے سامنے ہوتا ہے جنہیں دیکھ کر خواب غفلت سے بیدار ہوکر رب قدیر کی بارگاہ عالیہ میں عاجزی اور گریہ کرتا ہے۔
اور گناہوں سے مکمل تزکیہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے، جیسا کہ ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جس نے حج کیا اور فحش کلام اور فسق نہ کیا تو گناہوں سے پاک ہوکر ایسے لوٹا جیسے اس دن کہ ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا، اور انہیں سے مروی ہے کہ عمرہ سے عمرہ تک ان گناہوں کا کفارہ ہے جو درمیان میں ہوئے اور حج مبرور کا ثواب جنت ہی ہے (بخاری و مسلم)
مگر یاد رہے کہ یہ اجر و ثواب اسی بندہ کے لیے ہے جو حج یا عمرہ شرعی اصولوں اور احکام کے مطابق ادا کرے، یقیناً وہ اس گھر کی عظمت اور شعائر اللہ کی برکت اور وہاں کی دعاؤں کے نتیجے میں پاک و صاف ہوکر واپس ہوگا جو کہ ایک عظیم نعمت ہے
حج اتحاد امت کا سبب بھی ہے
درحقیقت پوری دنیا سے آنے والے حجاج کرام دربار الہی میں خصوصی نمائندے، وفد اور مہمان ہوتے ہیں کہ دنیا کے تمام چھوٹے بڑے شہری حتی کہ بادیہ نشین اور دیہاتی بھی عشق الہی میں سرشار وارفتگی کے عالم میں چلے آتے ہیں اور میقات ہی سے سب احرام پہن کر سب ایک لباس میں ملبوس ہوجاتے ہیں، دنیا کے تمام مسلمان حاجیوں کی زبان پر ایک ہی صدا بلند ہوتی ہے "الہم لبیک”۔ مختلف جگہوں کے ہوتے ہوئے اور مختلف زبانوں اور رنگ و نسل کے ہوتے ہوئے بھی سب ایک لباس میں اور سب کا قول و فعل بھی یکساں، یہ پر کیف منظر امت مسلمہ کو اتحاد کی دعوت دیتی ہے، گویا سب کہہ رہے ہوتے ہیں کہ ہم بھلے دنیا میں دکھنے کے اعتبار سے الگ ہوں مگر ہم سب اللہ ہی کے بندے ہیں ہم مسلمان ہیں، ہماری مرادیں ہمارے مقاصد ایک ہیں۔
آج ایسے ماحول میں بھی جب کسی کو برادری میں اونچ نیچ رنگ و نسل کی بنیاد پر دہرا رویہ دولت ثروت کی وجہ سے کسی کو غلام سمجھنا عام بات ہے، اسلام ان چھوت چھات اور اس قسم کے دوہرے رویہ سے قطع نظر اخوت اور مساوات کا درس دیتا ہے، حتى کہ بادشاہ وقت اور ایک ادنی فقیر ایک ہی صف میں نظر آتا ہے۔
جو لوگ جمہوریت کے دعویدار ہوکر اسلامی تہذیب و تعلیمات پر دہشت گردی کا الزام لگاتے اور خود کو انسانیت کے ٹھیکیدار سمجھتے ہیں ان کے منہ پر زوردار طمانچہ ہے۔
پھر دنیا کے مختلف علاقوں میں پھیلے پریشان حال مسلمانوں کو بھی اتحاد امت مسلمہ پر زوردار اقدامات کرنا چاہیے کہ یہود و نصاریٰ بلکہ جملہ کفار و مشرکین جو مسلمانوں کی جان، مال، عزت، آبرو اور دینی جذبات سے کھلواڑ کرتے ہیں جس کے لیے انہیں متحد ہونا چاہیے، وہیں سعودی حکومت کو بھی امریکا، یورپ اور یہودیوں کی کٹھ پتلی بننے کے بجائے اپنے اندر دینی حمیت پیدا کرتے ہوئے عالم اسلام کے مسلم لیڈران سے میٹنگ کر دنیا کے ہر پریشان حال مسلمانوں کی بھر پور مدد کریں اور جو مسلم دشمنی میں سرگرم عمل رہتے ہیں ان کے سر کچلنے کے لیے لائحہ عمل تیار کریں۔
حج آپسی جھگڑے مٹانے کا ذریعہ
کتنا پیارا وہ دور تھا جب ایک مسلمان دوسرے مسلمان بھائی کی جان مال عزت و آبرو کی حفاظت کے لیے جان پر کھیل جاتا تھا مگر آج مسلمان آپسی جھگڑوں میں مصروف عمل ہے، حالانکہ فرمان الہی ہے۔ ترجمہ:آپس میں جھگڑا اور نزاع نہ کرو ورنہ تم ناکام ہو جاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی (الانفال ۴۶)
عموماً جھگڑے دولت و ثروت اور حسب و نسب، اور رنگ و نسل کی وجہ سے ہوتی ہے حالانکہ ان چیزوں میں کچھ بھی فضیلت نہیں بلکہ اللہ کے نزدیک تقوے والے کو ہی فضل و کمال حاصل ہے۔ اور بالخصوص حج کے قبولیت کی جو شرط ہے یعنی جدال فسق کا نہ پایا جانا یقیناً مسلمانوں کو متحد کرنے کے لیے ہی ہے۔
اللہ رب العزت ہمیں اور ہمارے والدین کو حج مبرور نصیب کرے۔ آمین
تحریر:محمد اورنگ زیب مصباحی
گڑھوا جھارکھنڈ
(رکن: مجلس علمائے جھارکھنڈ)