مرکز ہدایت کی طرف اہل حق کو آنے دو
از قلم: طارق انور مصباحی
مبسملا وحامدا::ومصلیا ومسلما
1-اعلی حضرت علیہ الرحمۃ والرضوان تا حیات اپنے کاشانہ اقدس میں بیٹھ کر امت مسلمہ کے لئے دستاویزات ہدایت رقم فرماتے رہے۔حسب ضرورت دربار رسالت مآب علیہ التحیۃ والثنا سے دستگیری ہوتی رہی,تاکہ امت مسلمہ ان کی تعلیمات پر عمل کرے اور ہدایت کی راہ پر مستحکم رہے۔امت مسلمہ کو مرکز ہدایت کی طرف آنے دو۔کسی اہل حق کو نہ روکو۔اعلی حضرت علیہ الرحمۃ والرضوان کی بیش بہا تحقیقات وتحریرات امت مسلمہ کی امانت ہیں۔
2-برصغیر میں جملہ مسلمانان اہل سنت وجماعت فکری اور اعتقادی طور پر اعلی حضرت قدس سرہ العزیز سے منسلک ہیں۔کچھ کامل ہوں گے,کچھ ناقص,لیکن سب انھیں سے وابستہ ہیں۔ہم صرف اس سے الگ ہو سکتے ہیں جو کسی وجہ سے مذہب اہل سنت وجماعت یا دین اسلام سے خارج ہو جائے۔
ہم اہل حق کو اعلی حضرت قدس سرہ القوی سے دور نہیں کر سکتے۔سب اہل حق”اعلی حضرت”کے ہیں,اور وہ تمام اہل حق کے”اعلی حضرت”ہیں۔وہ سب کے ہیں۔سب ان کے ہیں۔(رفع اللہ تعالی درجاتہ وعم فیوضاتہ وبرکاتہ)
3-علمائے اشرفیہ(مبارک پور) فرماتے ہیں کہ ہم نے ٹرین پر نماز کے مسئلہ میں اعلی حضرت علیہ الرحمۃ والرضوان سے اختلاف نہیں کیا۔ہمارے بیان کردہ حکم کو اختلاف نہیں کہا جا سکتا ہے۔(جدید مسائل پر علما کی رائیں اور فیصلے:جلد دوم ص42-48۔جامعہ اشرفیہ مبارک پور)
جب ان کا ظن غالب یہی ہے تو ہم انہیں کچھ نہیں کہہ سکتے۔ظنیات واجتہادیات میں کون عند اللہ حق ہے۔یہ خدا ہی کو معلوم۔بندوں کو معلوم نہیں۔کیا علمائے اشرفیہ کا قول قطعی البطلان ہے؟ان کا فیصلہ اصول وضوابط سے قطعی طور پر منحرف ہے؟قطعی انحراف کا علم قطعی دلیل سے ہو گا۔یہاں قطعی دلیل کیا ہے؟
ہاں,امت مسلمہ سے ہم یہ ضرور عرض کریں گے کہ ٹرین پر بھی نماز پڑھ لیں اور نیچے اتر کر بھی نماز دہرا لیں,تاکہ علما کے اختلاف سے بچ جائیں۔اختلافی صورتوں میں یہی شریعت اسلامیہ کو پسند ہے۔یہ اہل علم پر مخفی نہیں۔
جس عظیم الشان تعلیمی ادارہ کے فارغین میں علمائے دین,فقہائے شرع متین ودیگر شعبہ جات کے ماہرین کا سب سے بڑا قافلہ ہو۔اسے مرکز اہل سنت سے جوڑ کر رکھنے میں اسلام وسنیت کو فائدہ ہے یا توڑ کر؟مل جل کر کام کریں۔
4-اسکاٹ لینڈ کے ایک سائنس داں جان لوئی بیرڈ(John Logie B Baird)(1946-1888)نے 1926 سے ٹی وی کی ایجاد کا پروگرام شروع کیا۔مختلف تجرباتی مراحل سے گزر کر چند سال بعد ٹی وی ایجاد کیا۔اس کے ایجاد کردہ ٹیلی ویژن پر پہلی مرتبہ 30:دسمبر 1929 کو بی بی سی لندن کا پروگرام نشر ہوا۔
اعلی حضرت قدس سرہ العزیز کی وفات 1921میں ٹی وی کی ایجاد سے کئی سال قبل ہو چکی تھی۔ٹی وی کے بارے میں اعلی حضرت علیہ الرحمۃ والرضوان کی کوئی تحقیق نہیں۔آپ کا وصال ٹی وی کی ایجاد سے قبل ہی ہو چکا تھا۔
ایسی صورت میں ہم کیسے کہہ دیں کہ ٹی وی کی تصویر کو تصویر نہ ماننے والے اور ٹی وی کو جائز قرار دینے والے اعلی حضرت علیہ الرحمہ کی تحقیق کے خلاف چلے گئے؟
قائلین جواز تو فرماتےہیں کہ ہم نے اعلی حضرت قدس سرہ العزیز کی تحقیق کے برخلاف تحقیق نہیں کی ہے۔اس بارے میں مجدد گرامی کا کوئی قول ہی نہیں۔قائلین جواز سینیما اور ٹی وی کی تصویر میں بھی تفریق کے قائل ہیں۔کیا دونوں کی تصویر میں تفریق وعدم تفریق کا معاملہ ظنیات میں سے نہیں؟
5-ٹی وی کے جواز کے قائلین بھی مانتے ہیں کہ تصویر حرام ہے۔ٹی وی کے عدم جواز کےقائلین بھی تصویر کو حرام مانتے ہیں۔اختلاف تو اس بات میں ہے کہ ٹی وی کی تصویر تصویر میں شامل ہے یا نہیں؟کسی فریق کے پاس قطعی دلیل نہیں۔ہر فریق کی دلیل ظنی ہے۔ظنیات واجتہادیات میں کون عند اللہ حق ہے۔یہ اللہ کو معلوم ہے۔بندوں کو نہیں معلوم کہ کون عند اللہ حق ہے۔
کیا باب ظنیات واجتہادیات میں کسی قول کو سو فی صد حق ماننا اور کسی قول کو صد فی صد غلط ماننا صحیح ہے؟یہ حکم قطعیات کا ہے,نہ کہ ظنیات کا۔
6-علمائے اہل سنت نے قائلین جواز فقہا کی تفسیق نہیں کی ہے۔اگر کوئی دعوی کرتا ہے تو کسی معتمد عالم اہل سنت کا فتوی دکھائے؟
7-عرب وعجم کے بہت سے فقہائے احناف ٹیلی ویژن کے جواز کے قائل ہیں۔کیا ان سب فقہائے کرام کی تفسیق ہو گی؟گرچہ وہ صاحب نظر فقہائےاحناف ہوں؟
ہر مجتہد کو اور حوادث جدیدہ میں صاحب نظر فقیہ وقاضی کو اپنے قول پر عمل کا حکم ہے۔کیا شریعت اسلامیہ نے ایسے قول پر عمل کا حکم دے دیا جس کے سبب ان پر حکم فسق عائد ہو سکتا ہے؟
اللہ تعالی ہر مجتہد کو اجتہاد کے سبب اور حوادث جدیدہ میں ہر صاحب نظر فقیہ کو اس کی تحقیق کے سبب اجر عطا فرماتا ہے۔اگر صحت کو پا لے تو دو اجر,اگر خطا ہو جائے تو ایک اجر۔کیا اللہ تعالی ایسے کام پر اجر عطا فرمائے گا جو گناہ وفسق ہو۔
واضح رہے کہ حوادث جدیدہ میں مجتہد کے عدم وجود کے وقت صرف صاحب نظر فقیہ مجتہد کے قائم مقام ہے۔دوسرے لوگ اس منصب کے حامل نہیں۔اگر نا اہل جرأت بیجا کرے تو اس پر حکم شرعی عائد ہو گا۔
8-حقہ نوشی کے بارے میں بعض فقہائے کرام حرمت کے قائل تھے۔بعض کراہت اور بعض حلت کے قائل تھے۔چوں کہ حقہ نوشی میں عرب وعجم کے بے شمار مسلمان مبتلا تھے,گرچہ وہ ابتلا اختیاری تھا,لیکن حرمت کے فتوی کے سبب بے شمار مسلمانوں کی تفسیق لازم آتی تھی۔اعلی حضرت علیہ الرحمۃ والرضوان نے فرمایا کہ ایسے موقع پر اختلافی اقوال میں سے اس قول پر فتوی دیا جائے گا۔جس سے امت مسلمہ فسق سے بچ جائے۔رسالہ:حقۃ المرجان لمہم حکم الدخان کا ایک اقتباس مضمون کے اخیر میں درج ہے۔
(الف)چوں کہ عرب وعجم میں بے شمار سنی حنفی مسلمان ٹیلی ویژن پر دینی پروگرام دیکھتے سنتے ہیں,پس عموم بلوی ثابت ہوا یا نہیں؟گرچہ یہ ابتلا اختیاری ہے۔ابتلائے اختیاری میں بھی حکم تخفیف ثابت ہوتا ہے,جب کہ حکم حرمت مختلف فیہ ہو۔جیسے حقہ نوشی میں اختیاری ابتلا تھا۔
ٹی وی کا عدم جواز بھی مختلف فیہ ہے,اور اس میں عوام وخواص مبتلا بھی ہیں۔یہاں حکم تخفیف نافذ ہو گا یا نہیں؟
(ب)بعض لوگ کہتے ہیں کہ عرب وعجم کے اکثر فقہائے احناف ٹی وی کے جواز کے قائل ہیں۔کیا اکثریت کے قول پر عمل کرنے والے لوگ بھی فاسق قرار پائیں گے؟
(ج)پڑوسی ملک میں علمائے احناف کی اکثریت قائل جواز ہے۔کیا وہاں کے سنی حنفی حضرات پر بھی ٹی وی پر دینی پروگرام دیکھنے کے سبب حکم فسق عائد ہو گا؟ وہاں تو اکثر علما جواز کے قائل ہیں۔
وضاحت:صرف ویڈیو اور ٹی وی کی متحرک اور غیر قار تصویر کے بارے میں اختلاف ہے۔کیمرہ سے بنائی گئی عکسی تصویر,یا ہاتھ سے بنائی گئی دستی تصویر میں اختلاف نہیں۔بلا حاجت شرعیہ ایسی تصویر بنانے اور بنوانے والا فاسق ہی ہو گا۔پوسٹروں,اخباروں وغیرہ میں تصویر کی کوئی ضرورت نہیں۔اسی طرح موبائل وغیرہ میں جو مستقر تصویر ہو,وہ بھی ناجائز ہے۔ہمارے نزدیک ٹی وی اور ویڈیو کی تصویر بھی تصویر ہی ہے۔حتی الامکان ہر قسم کی تصویر سے پرہیز کی کوشش بھی کرتا ہوں۔
چوں کہ ایمان اہم ہے۔اگر بندہ مومن ہے تو جس قدر بھی گناہ ہو,مغفرت کی امید ضرور ہے۔بالفرض سزا کے طور جہنم بھی بھیج دیا گیا تو انجام کار نجات ومغفرت ہے,اس لئے جدید آلات کے سہارے بھی لوگوں کے ایمان کی حفاظت ہو سکے تو شرعی دائرہ میں رہ کر کوشش کی جائے۔ہماری نظر میں ایک طرف ٹی وی کا مختلف فیہ عدم جواز ہے اور دوسری طرف لوگوں کے ایمان کی حفاظت ہے۔
بہت سے شہروں میں سنی مساجد کی قلت کے سبب عوام مسلمین نماز جمعہ کے لئے بدمذہبوں کی مساجد میں چلے جاتے ہیں اور رفتہ رفتہ بدمذہب ہو جاتے ہیں۔ہم نے ماقبل کے متعدد مضامین میں مسلمانوں کے ایمان کی حفاظت کے لئے سنی مساجد میں جمعہ کی جماعت ثانیہ کے قیام کا شرعی حکم بھی دریافت کیا ہے۔
کبھی بعض ضرورتوں کی تکمیل کے لئے شعار کفار اختیار کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔اس وقت شعار کفار کی شناعت اور ضرورت میں موازنہ ہو گا۔تفصیل فتاوی رضویہ(ج 25-ص531-532– جامعہ نظامیہ لاہور)میں ہے۔
9-ہماری کوئی بات کسی بھںی تحریر میں حکم شریعت کے خلاف ہو,یا مذہبی مصلحت کے خلاف ہو تو ان شاء اللہ تعالی ضرور رجوع کیا جائے گا۔اگر کوئی بات کسی کے ذاتی افکار ونظریات سے متصادم ہو تو ہم معذور ہیں۔
10:نمبر سوم سے نمبر ہشتم تک سوالات ہیں۔جن کے مدلل و تحریری جوابات اکابر فقہائے کرام یا فقہائے متوسطین سے مطلوب ہیں۔مناظرہ ومباحثہ کی ہرگز اجازت نہیں۔طویل مدت سے مباحثے جاری ہیں۔فائدہ ندارد۔مناظرین ومباحثین کو سلام اور نیک دعائیں۔
الحمد لربی والصلوۃ والسلام علی حبیبی وعلی آلہ واصحابہ واولیاء امتہ وعلمائے ملتہ وشہداء محبتہ وجمیع امتہ دائما ابدا کثیرا ووافرا
وہ جو بیچتے تھے دوائے دل
وہ دکان اپنی بڑھا گئے (بہادر شاہ ظفر)
حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمۃ والرضوان کی حیات مبارکہ میں بھی غلط نظریات پھیلتے تھے,لیکن آپ ان فتنوں کو دور دفع فرما دیتے۔لوگ آپ کی طرف نسبت کر کے کہتے کہ حضرت علیہ الرحمہ نے فلاں فلاں کو کافر کہا ہے۔آپ تردید فرماتے کہ ہم نے فلاں فلاں کی تکفیر نہیں کی ہے۔بعض لوگ بعض سنی حضرات پر طعن کرتے۔آپ ایسی حرکتوں سے منع فرماتے۔متعدد ویڈیو کلپس بھی ایسے بیانات پر مشتمل موجود ہیں۔اب علمائے اہل سنت وجماعت کو عوام میں پھیلنے والے غلط افکار ونظریات کو انفرادی واجتماعی طور پر دور کرنا ہو گا۔یہ علمائے کرام کا فرض منصبی ہے۔عہد حاضر میں نظریۂ تفسیق پھیلتا جا رہا ہے۔تبرا بازی کا مرض بھی دور کرنا ہے۔اپنے مفاسد کا محاسبہ ضروری ہے۔چشم پوشی نقصان دہ ہے۔
مختلف فیہ فقہی اقوال میں تطبیق
اعلی حضرت قدس سرہ العزیز نے رقم فرمایا:
"صدہا مسائل میں اضطراب شدید نظر آتا ہے کہ ناواقف دیکھ کر گھبراجاتا ہے,مگر صاحب توفیق جب ان میں نظر کو جولان دیتا اور دامن ائمہ کرام مضبوط تھام کر راہ تنقیح لیتا ہے۔توفیق ربانی ایک سررشتہ اس کے ہاتھ رکھتی ہے جو ایک سچا سانچا ہو جاتا ہے کہ ہر فرع خود بخود اپنے محمل پر ڈھلتی ہے اور تمام تخالف کی بدلیاں چھنٹ کر اصل مراد کی صاف شفاف چاندنی نکلتی ہے۔اس وقت کھل جاتا ہے کہ اقوال سخت مختلف نظرآتے تھے۔ حقیقۃ سب ایک ہی بات فرماتے تھے۔الحمد ﷲ فتاوائے فقیر میں اس کی بکثرت نظیریں ملیں گی:وللہ الحمد تحدیثا بنعمۃ ﷲ وما توفیقی الا باﷲ، وصلی ﷲ تعالی علی من امدنا بعلمہ وایدنا بنعمہ وعلی الہ وصحبہ وبارک وسلم آمین والحمدﷲ رب العلمین”-(فتاوی رضویہ:ج16۔ص 376۔377 جامعہ نظامیہ لاہور)
عموم بلوی کے وقت اختلافی مسائل کا حکم
حقۃ المرجان لمہم حکم الدخان کی عبارت
"بالجملہ عندالتحقیق اس مسئلہ میں سواحکم اباحت کے کوئی راہ نہیں ہے,خصوصاً ایسی حالت میں کہ عجماً وعرباً وشرقاً وغرباً عام مومنین بلاد وبقاع تمام دنیاکو اس سے ابتلا ہے توعدم جوازکاحکم دینا عامہ امت مرحومہ کومعاذ ﷲ فاسق بنانا ہے جسے ملت حنفیہ سمحہ سہلہ غرا بیضا ہرگز گوارا نہیں فرماتی۔اسی طرف علامہ جزری نے اپنے اس قول میں اشارہ فرمایاہے:فی الافتاء بحلہ دفع الحرج عن المسلمین۔اس کے حلال ہونے کافتوٰی دینے میں مسلمانوں سے دفع حرج ہے(ت)
اور اسے علامہ حامد عمادی پھر منقح علامہ محمدشامی آفندی نے برقراررکھا۔
اقول:ولسنا نعنی بھذا ان عامۃ المسلمین اذا ابتلوا بحرام حل۔ بل الامران عموم البلوٰی من موجبات التخفیف شرعا وما ضاق امر الا اتسع فاذا وقع ذٰلک فی مسئلۃ مختلف فیھا ترجح جانب الیسر صونا للمسلمین عن العسر ولایخفی علی خادم الفقۃ ان ھذا کما ھو جار فی باب الطھارۃ والنجاسۃ کذٰلک فی باب الاباحۃ والحرمۃ ولذا تراہ من مسوغات الافتاء بقول غیرالامام الاعظم رضی اﷲ تعالٰی عنہ کما فی مسئلۃ المخابرۃ وغیرھا مع تنصیصھم بانہ لا یعدل عن قولہ الی قول غیرہ الا لضرورۃ بل ھو من مجوزات المیل الٰی روایۃ النوادر علٰی خلاف ظاھرالروایۃ کما نصوا علیہ مع تصریحھم بان ما یخرج عن ظاھرالروایۃ فھو قول مرجوع عنہ وما رجع عنہ المجتہد لم یبق قولا لہ۔
وقد تشبث العلماء بھٰذا فی کثیر من مسائل الحلال والحرام۔
ففی الطریقۃ وشرحھا الحدیقۃ۔ فی زماننا ھذا لایمکن الاخذ بالقول الاحوط فی الفتوی الذی افتی بہ الائمۃ وھو مااختارہ الفقیہ ابواللیث انہ ان کان فی غالب الظن ان اکثر مال الرجل حلال جاز قبول ھدیتہ ومعاملتہ والالا۔اھ ملخصا۔
اقول:(میں کہتاہوں کہ)ہماری اس سے مراد یہ نہیں کہ عام مسلمان اگرکسی حرام میں مبتلا ہوجائیں تووہ حلال ہوجاتاہے, بلکہ مقصدیہ ہے کہ عموماً بلوٰی شرعی طورپر اسباب تخفیف میں سے ہے، کوئی تنگی نہیں جس میں وسعت نہ پیداہو، جب یہ معاملہ ایک اختلافی مسئلہ میں واقع ہوا تو مسلمانوں کو تنگی سے بچانے کے لئے آسانی کی جانب کو ترجیح ہوگی۔
خادم فقہ پرپوشیدہ نہیں کہ جیسے یہ ضابطہ طہارت ونجاست میں جاری ہے۔ایسے ہی حرمت واباحت میں بھی جاری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تو اس ضابطہ کو امام اعظم ابوحنیفہ علیہ الرحمۃ کے غیرکے قول پر فتوٰی دینے کے مجوزات میں دیکھتا ہے جیسا کہ مسئلہ مخابرہ وغیرہ میں,حالاں کہ ائمہ کرام نے تصریح فرمائی ہے کہ بلاضرورۃ امام اعظم علیہ الرحمہ کے قول سے عدول نہیں کیاجائے گا,بلکہ یہ ضابطہ ظاہرالروایہ کے خلاف روایت نوادر کی طرف میلان کے لئے بھی مجوز ہے جیسا کہ علما نے نص فرمائی,باوجودے کہ وہ تصریح فرماچکے ہیں کہ جو قول ظاہرالروایۃ سے خارج ہے,وہ مرجوع عنہ ہے اور جس قول سے مجتہد رجوع کرلے,وہ اس کا قول نہیں رہتا-
علماء نے بہت سے مسائل حلال وحرام میں اس سے استدلال کیا ہے۔طریقہ اور اس کی شرح حدیقہ میں ہے کہ ہمارے زمانے میں قول احوط کو لیناجس پرائمہ کرام نے فتوٰی دیاہے, ممکن نہیں۔اسی کو فقیہ ابواللیث نے اختیارفرمایا ہےکہ اگرکسی شخص کے اکثر مال کے حلال ہونے کا گمان غالب ہو تواس کاہدیہ قبول کرنا اوراس کے ساتھ معاملہ کرنا جائز ہے,ورنہ نہیں۔اھ۔اختصار۔
وفی ردالمحتار من مسئلۃ بیع الثمار لا یخفی تحقق الضرورۃ فی زماننا،ولاسیما فی مثل دمشق الشام،وفی نزعھم عن عادتھم حرج، وماضاق الامر الااتسع ولایخفی ان ھذا مسوغ للعدول عن ظاھر الروایۃ۔اھ ملخصا۔
وفی مسئلۃ العلم فی الثوب ھو ارفق باھل ھذا الزمان لئلا یقعوا فی الفسق والعصیان۔اھ
وفیہ من کتاب الحدود ومقتضی ھذا کلہ ان من زفت الیہ زوجتہ لیلۃ عرسہ ولم یکن یعرفھا لایحل لہ وطؤھا مالم تقل واحدۃ اواکثر انھا زوجتک وفیہ حرج عظیم لانہ یلزم منہ تاثیم الامۃ اھ ملخصا الٰی غیرذٰلک من مسائل یکثر عدھا ویطول سردھا فاندفع ماعسٰی ان یوھم من قول الفاضل اللکنوی ان عموم البلوی انما یؤثر فی باب الطھارۃ والنجاسۃ لافی باب الحرمۃ والاباحۃ صرح بہ الجماعۃ۔اھ۔
اور رد المحتار میں پھلوں کی بیع کے مسئلہ میں ہے:ہمارے زمانے میں اس کی ضرورت کا متحقق ہونا پوشیدہ نہیں خصوصاً شام کے شہر دمشق میں،اور ا ن کو عادت سے ہٹانے میں حرج ہے،اورکوئی تنگ معاملہ نہیں جس میں وسعت نہ آئے۔مخفی نہیں کہ یہ بات ظاہرالروایہ سے عدول کی مجوز ہے۔اھ۔ تلخیص۔
اورکپڑے پرنقش ونگار کے مسئلہ میں ہے کہ اس میں اہل زمانہ کے لئے نرمی ہے,تاکہ وہ فسق اورگناہ میں مبتلا نہ ہوں۔اھ
اوراسی کے کتاب الحدود میں ہے:اوراس تمام کا مقتضٰی یہ ہے کہ اگرشب زفاف شوہر کے پاس اس کی بیوی بھیجی جائے تو اس وقت تک اس کے لئے وطی حلال نہیں جب تک وہ عورت ایک یا کئی بار اس کوکہہ نہ دے کہ وہ اس کی بیوی ہے,حالاں کہ اس میں حرج عظیم ہے,کیوں کہ اس سے امت کوگنہگار بنانا لازم آتاہے۔اھ تلخیص۔
اس کے علاوہ کئی مسائل جن کی تعداد کثیر اوران کو بیان کرنے میں طوالت ہے۔اس سے فاضل لکھنوی کے قول سے پیدا ہونے والا یہ وہم دور ہوگیا کہ عموم بلوٰی صرف طہارت ونجاست میں مؤثر ہے,نہ کہ حرمت واباحت میں۔جماعت علما نے اس کی تصریح فرمائی ہے۔اھ(ت)”۔(فتاوی رضویہ:ج25-ص89-91-جامعہ نظامیہ لاہور)
سوال:عہد حاضر میں تبلیغ دین اور تعلیم دین ودیگر امور خیر کے لئے بہت سے علمائے اہل سنت ٹی وی اور ویڈیو کا استعمال کرتے ہیں۔سنی حنفی ناظرین وسامعین کی تعداد عرب وعجم میں شمار سے باہر ہے۔ایسی صورت میں ابتلائے عام کا حکم نافذ ہو گا یا نہیں؟کیوں کہ ٹی وی کے بارے میں فقہائے احناف کی تحقیق مختلف فیہ ہے۔
عدم جواز کے قائلین عام حالات میں مجوزین فقہائے کرام کو چھوڑ کر دیگر ناظرین کے لئے اپنے فقہی موقف کے اعتبارسے حکم فسق ہی دیں گے,جیسا کہ اعلی حضرت علیہ الرحمۃ والرضوان نے قوالی مع مزامیر میں شرکت کرنے والوں کو ایسا ہی قرار دیا۔یہاں عموم بلوی کی صورت کا حکم دریافت کیا جا رہا ہے۔جب مومنین کی کثیر تعداد اس میں مبتلا ہے تو عموم بلوی متحقق ہوا یا نہیں؟جیسا کہ حقہ کے بارے میں عموم بلوی متحقق ہوا؟ غور وفکر کے بعد صحیح حکم شرعی بیان کیا جائے۔بہتر کہ فقہی مجالس اس کا حکم شرعی بیان کریں۔
از قلم: طارق انور مصباحی