محدث اعظم پاکستان اور ادب حدیث
مرتب: محمد سلیم انصاری ادروی
محدث اعظم پاکستان علامہ سردار احمد قادری چشتی گورداس پوری رحمه الله حدیث پاک کا احترام اس درجہ کرتے تھے کہ دوران درس کوئی شخص خواہ وہ کتنا ہی معزز ومحترم ہو، آتا، سلام کرتا تو سلام کا جواب تو ضرور دے دیتے اور ہاتھ سے بیٹھنے کے لیے اشارہ کرتے، مگر اس وقت تک کلام نہ فرماتے جب تک سبق پورا نہ ہو جائے۔ پھر آنے والے کے پاس اتنا وقت ہو تو بیٹھا رہے ورنہ اٹھ کر چلا جائے۔ آپ مطلقا پرواہ نہ کرتے، دوسرے وقت ملاقات ہوتی تو فرما دیتے کہ آپ فلاں وقت تشریف لائے تھے، میں حدیث شریف پڑھا رہا تھا، اس لیے آپ سے بات نہ کر سکا۔ جو طالب علم عبارت پڑھتا اسے تاکید ہوتی کہ حضور کے نام نامی کے ساتھ "ﷺ” ضرور کہے اور صحابی کے نام کے ساتھ "رضی اللہ عنہ”، اور خود بھی اس کا التزام رکھتے تھے، جیسے ہی نام نامی سنتے بہ آواز "ﷺ” کہتے، تاکہ دوسرے طلبا، جو غافل ہوں، انہیں سن کر یاد ہو جائے۔ اگر کہیں حدیث میں آ جاتا کہ "ضحک النبی ﷺ” تو خود بھی مسکراتے اور طلبا سے بھی کہتے ہنسو! (تذکرہ محدث اعظم پاکستان/ج: ١/ص: ١٦٧)
ایک بار عظیم مفسر و محدث، تفسیر نورالعرفان اور تفسیر نعیمی کے مصنف، شارح بخاری ومشکوة، حضرت حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی بدایونی علیہ الرحمہ آپ سے ملاقات کرنے کے لیے فیصل آباد تشریف لائے۔ اس وقت حدیث شریف کا سبق جاری تھا۔ درس ختم ہونے تک حضرت حکیم الامت بیٹھے حدیث کا سبق سنتے رہے۔ سبق سے فراغت کے بعد حسب عادت محدث اعظم پاکستان نے ان سے ملاقات کی۔ چاے وغیرہ بطور ناشتہ سے خدمت کی۔ دوران ناشتہ حضرت حکیم الامت نے آپ کے درس حدیث سے متاثر ہو کر کہا:
"میری خواہش ہے کہ میں بھی آپ کے حلقۂ درس میں طلبا کی صف میں شامل ہو جاؤں۔” (تذکرہ محدث اعظم پاکستان/ج: ١/ص: ١٩٣)
محدث اعظم پاکستان اور ادب حدیث
مرتب: محمد سلیم انصاری ادروی
مزید پڑھیں:
برصغیر کے سنی علما کی ترتیب کردہ چودہ مشہور کتب حدیث
امام احمد رضا کے خلفا، تلامذہ اور مریدین کی تفسیری خدمات