مراسم محرم الحرام_ ایک تجزیاتی مطالعہ
از قلم: محمد اکبر حسین
محرم الحرام کا مہینہ بڑا محترم مہینہ ہے اسلامی سال کا یہ پہلا مہینہ اپنی آغوش میں بڑی یادگاریں رکھتا ہے اس میں خاص طور سے کربلا کی سرزمین پربھوک وپیاس،تیروتلواراوردھوپ کی تپش کے ساے میں رونما ہونے والی صبرورضا کی وہ دل سوز اور خون چکا داستان بھی ہے جسے دنیا کی مبارک ترین ہستیوں کے مقدس لہو سے تحریر کیا گیا ہے اس داستان نے جہاں ایک طرف پوری دنیا کے ہر زندہ قوم کو حق کےلیے آواز بلند کرنے کا جزبہ عطا کیا ہے وہیں خاص طور سے اسلام کے ماننے والے کواسلامی کردار کے وہ تمام نقوش کھینچ دیے ہیں جن کو مسلمانfallow کرکے دنیوی اور اخروی سعادتوں کو اپنی تقدیر کے اول صفحے پر لکھ سکتا ہے،
مگر آج افسوس اس بات کا ہے کہ اصلاح فکر و عمل کے بجائے اسی مقدس مہینہ کو جسے کربلاکے مظلوم شہیدوں سے نسبت کا شرف حاصل ہے بدعات وخرافات کے ذریعہ اس کی حرمت کو پامال کیا جارہا ہے جو قرآن وسنت اور تعلیمات کے خلاف ہے۔
نیپال،بنگلہ دیش اور بالخصوص ہندوستان کی سرزمین پر ماہ محرم الحرام کے موقع پر جس طرح کی نئ نئ خرافات وجود میں آرہی ہیں وہ واقعی پوری امت مسلمہ کے لئے تشویش ناک ہے،
ایک زمانہ تھا جب ماہ محرم میں تمام تر بدعات وخرافات اور غیر شرعی امور کا تعلق صرف شیعہ فرقے سے تھا، جنہوں نے امام حسین سے صرف قلبی تعلق کے اظہار کے لیے سیکڑوں بری رسمیں ایجاد کر رکھی تھی، جن کی تردید علماء اہلسنت نے ہمیشہ اپنے قلم کی نوک سے کرتے چلے آرہے تھے مگرکیاپتاتھاکہ خود عوام اہلسنت بھی شہیدان کربلا کے نام پر اس طرح کی غیر شرعی امورخرافات اپناکرعلماکی زبان وقلم کو روک دینگے اور اس آیت کے مصداق بنادینگے یآایھاالذین آمنوالم تقولون مالاتفعلون ۔
ہم ذیل کے سطور میں چندخرافات اختصار کے ساتھ ذکر کررہے ہیں۔ڈھول تاشے: ہندوستان کاشایدہی کوئ تعزیہ بغیر ڈھول تاشے کے بر آمد ہوتاہےاور تعزیوں کے آگے پیچھے ڈھول بجانے والے اکثر نوجوان ہوتے ہیں جو محض مزاحیہ طور پر اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لئے ڈھول تاشے بجاتے ہیں اور دیر رات تک اپنی ماں بیٹیوں کو اکھٹا کرکے طرح طرح کے تماشے اور ناٹک کرتے ہیں جیسے گھوڑے بننا سینے پیٹنا وغیرہ۔
تعزیہ داری: بر صغیر ہند وپاک میں یاد گارے حسین کے نام پر تعزیہ داری کے نام پر جو رسم جاری ہے وہ انتہائی غلط شکل اختیار کرلی ہےاور اب تو اس میں اتنی تبدیلیاں پیدا کر دی گئی ہیں کہ اصل نقشہ کا وجود ہی ختم ہوگیا ہے،پھر اس سے منتیں مانگنا، پیکر بناکر بچوں کو گلی گلی میں دوڑانا
اور مرثیہ پڑھناوغیرہ جو سب لغوو خرافات ہے۔
ان سب امور سے ہرگز امام عالی مقام کی روح کو تسکین نہیں ملےگی آپ ذرا سنجیدہ دماغ سے سوچیں کہ امام عالی مقام اور ان کے رفقا نے احیاےدین وسنیت کے لئے اتنی زبردست قربانیاں دی ہے اور آپ نے معاذاللہ بدعت کا ذریعہ بنا دیا ہے اور بڑی بے باکی سے گلی کوچوں میں کہتے پھرتے ہیں کہ یہ میرا اظہار محبت ہے میں کہتاہوں کہ جب امام عالی مقام نے آخری وقت میں نماز کو ترک نہیں کیا ہے تو محبت کا تقاضا یہ ہے کہ ہمیں بھی نماز کی پابندی کرنی چاہیے اور آخری دم تک اس کی بجا آوری میں کوتاہی نہیں کرنی چاہیے،
نیز دس روز بلا ناغہ تلاوت قرآن کرکے اس کا ثواب امام حسین اور ان کی آل اولاد کو نذر کریں،خصوصا روزوں کی پابندی کریں کہ حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:افضل ترین رمضان کے روزے کے بعد ماہ محرم کے ہیں۔ اس ماہ میں محتاجوں اور یتیموں کو علی اصغر کے نام پر خیرات تقسیم کریں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو راہ حق و اعتدال پر گامزن فرمائے۔
از قلم: محمد اکبر حسین
جامعہ اشرفیہ مبارک پور اعظم گڑھ یوپی