نادار متکبر !!

Table of Contents

نادار متکبر !!

نادار متکبر !!

تحریر: غلام مصطفےٰ نعیمی

دیکھیے آپا جان!
آپ پہلے ہی بہت وقت برباد کر چکی ہیں یہ سوٹ ہماری دکان کا نہیں ہے، ہمیں معاف کریں!

دکان دار کا لہجہ اور الفاظ دونوں سخت ہوتے جارہے تھے، خاتون کے اصرار کے باوجود دکان دار کے تیور خراب ہی تھے۔

آخر خاتون، خریداری سلپ تلاشنے میں کامیاب ہوئیں، انہوں نے پر اعتماد لہجے میں کہا دیکھیے یہ بِل سلپ آپ ہی کی دکان کی ہے اب تو آپ مانیں گے نا!
سلپ دیکھ کر دکان دار کے تیور کچھ نرم ہوئے مگر تلخی برقرار رہی اور ہُوں ہُوں کرتے ہوئے کہا کہ ٹھیک ہے دو گھنٹے کے بعد آئیں بدل لیجیے گا۔
دو گھنٹے! بھائی جان مجھے پہلے ہی دو گھنٹے ہوگیے ہیں اب واپس جاؤں، پھر آؤں، پانچ منٹ کا کام ہے کلر ہی تو بدلنا ہے ابھی دکھا دیں تاکہ دوبارہ آنے جانے کی پریشانی نہ اٹھانا پڑے۔

یہ بحث شہر کی مشہور دکان پر چل رہی تھی۔جہاں ایک مسلم خاتون سے مسلم دکان دار انتہائی تیکھے اور تیز لہجے میں بات کر رہا تھا، سامان اسی دکان کا تھا مگر وہ ماننے کو تیار نہیں تھا، وہ اپنی بات پر سکون انداز میں بھی کہہ سکتا تھا مگر خاتون جس قدر نرم لہجے میں بات کر رہی تھی دکان دار کا لہجہ اتنا ہی کاٹ دار اور خراب تھا۔

ایک بار مئی کی تپتی دوپہر میں ایک کسٹمر مسلم دکان دار کے یہاں پہنچا۔گرمی بہت سخت تھی اس نے دکان دار سے کہا، ایک گلاس پانی ملے گا؟

ہم موٹر پارٹس بیچتے ہیں پانی نہیں!

دکان دار کے لٹھ مار جواب سے کسٹمر کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔

کیا میں یہاں تھوڑی دیر بیٹھ سکتا ہوں؟

ہوٹل والے نے نگاہ اٹھا کر دیکھا ایک مسافر دھوپ کی وجہ سے ہوٹل کی کرسی پر بیٹھنے کی اجازت مانگ رہا تھا۔

ہوٹل ہے مسافر خانہ نہیں، اگر میں ایسے ہی سب کو بِٹھاتا رہا تو چلا چکا ہوٹل!

ہوٹل والے کا ٹکا سا جواب سن کر مسافر کے پاس کہنے کو کچھ نہیں تھا۔

ودھایک صاحب!
ہمارے گاؤں میں آج تک لائٹ نہیں آئی اگر آپ کوشش کریں تو ہمارے گاؤں میں لائٹ آسکتی ہے۔

اچھا، تم گاؤں پہنچو، میں بجلی کے کھمبے کندھے پر رکھ کر لارہا ہوں۔

گاؤں والوں کے لہجے میں جتنا انکسار تھا ودھایک نے اتنے ہی متکبرانہ اور تمسخرانہ لہجے میں جواب دیا۔

حضرت نظام الدین کی درگاہ چلنا ہے، کیا کرایہ ہوگا؟

تین سو روپے!

کچھ مناسب ہوسکتا ہے؟

پانچ سو دے دینا۔

آٹو والے کا جواب سن کر مسافر نے آگے بڑھنے میں ہی عافیت سمجھی۔

ایک زمانے سے مسلمانوں کا رویہ ایسا ہی تیکھا اور متکبرانہ مشہور ہوگیا ہے، وہ لوگوں سے ایسے لہجے میں بات کرتے ہیں مانو جاگیردار کسی مزدور سے بات کر رہا ہو…یہ تیور اس وقت ہیں جب مسلمان ملک کی سب سے نادار اور مفلس قوم ہیں مگر لہجے میں غرور وتکبر ایسا ہے جیسا خلجیوں اور مغلوں کو بھی کبھی نہیں رہا ہوگا۔

____ آقائے کائنات ﷺ فرماتے ہیں:
ما كان الرفق في شيء إلا زانه، وَما نُزِعَ مِنْ شَيءٍ إِلَّا شَانَهُ،
(صحیح مسلم رقم الحدیث 2594)
"جس چیز میں نرمی ہو وہ قابل تعریف ہوتی ہے اور جس چیز سے نرمی نکال دی جائے وہ عیب دار ہوجاتی ہے۔”

اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ لوگ کسی انسان سے صرف اس وجہ سے ملنا نہیں چاہتے کہ وہ زبان کا سخت اور ترش رو ہے۔ جب کہ متواضع اور نرم مزاج افراد کی طرف اپنے تو اپنے، بیگانے بھی جانا پسند کرتے ہیں۔
مزے کی بات یہ ہے کہ جو لوگ سیدھے منہ بات کرنے کے روادار نہیں ہوتے وہ الزام بھی دوسروں پر ہی لگاتے ہیں، کاش وہ لہجے کی اہمیت سمجھ پاتے؛

صرف لہجے کو بدلنے کی ضرورت ہے میاں
گفتگو آپ کی گل ریز بھی ہو سکتی ہے

مشہور کہاوت ہے؛
بنیا گُڑ بھلے ہی نہ دے مگر گُڑ جیسی باتیں ضرور کرتا ہے۔

بنیے کو استحصال کی علامت سمجھا جاتا ہے، اس کے باوجود اس کی شیریں بیانی بھی مسلّم ہے، کہ بنیا گُڑ( مٹھائی) بھلے ہی نہیں دیتا مگر باتیں ضرور گڑ جیسی میٹھی کرتا ہے، اس کی میٹھی باتوں کا ہی اثر ہوتا ہے کہ اس کے استحصالی کردار کے باوجود لوگ اس کا یقین کر لیتے ہیں، یعنی نرمی اس قدر فائدہ مند ہے کہ مخالف کو بھی فائدہ پہنچاتی ہے تو صاف دل والے اگر نرم مزاجی اپنا لیں تو ان کی مقبولیت اور شخصیت کو چار چاند لگ جائیں گے۔

آقائے کریم علیہ السلام فرماتے ہیں:
إِنَّ اللَّهَ رَفِيقٌ يُحِبُّ الرِّفقَ، وَيُعْطِي على الرِّفق ما لا يُعطي عَلى العُنفِ، وَما لا يُعْطِي عَلى مَا سِوَاهُ،
( صحيح مسلم رقم الحديث 2593)

اللہ تعالیٰ مہربان ہے اور نرمی کو پسند کرتا ہے اور جو کچھ نرمی پر عطا کرتا ہے وہ سختی پر یا کسی اور شے پر عطا نہیں کرتا۔

___ ابلیس نے رب کی نافرمانی کی اور حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ نہیں کیا۔

حضرت آدم علیہ السلام کو دانہ گندم کی ممانعت تھی مگر ان سے چوک ہوئی۔

اللہ تعالیٰ نے دونوں سے باز پرس کی تو ابلیس نے تکبر کے ساتھ کہا؛
اَنَا خَیۡرٌ منہ۔ (سورہ ص: 76)
"میں اس سے بہتر ہوں۔”

متکبرانہ جواب سن کر رب نے فرمایا:
فَاخۡرُجۡ مِنۡہَا فَاِنَّکَ رَجِیۡمٌ۔
(سورہ ص: 77)
"نکل حا! تو لعنت کیا گیا ہے۔”

دوسری طرف حضرت آدم نے اعتراف خطا کرتے ہوئے نہایت نرمی سے عرض کیا:

رَبَّنَا ظَلَمۡنَاۤ اَنۡفُسَنَاوَاِنۡ لَّمۡ تَغۡفِرۡ لَنَا وَتَرۡحَمۡنَا لَنَکُوۡنَنَّ مِنَ الۡخٰسِرِیۡنَ۔
(اعراف :23)
"اے ہمارے رب ہم نے اپنی جان پر ظلم کیا تو اگر تو ہمیں نہ بخشے اور ہم پر رحم نہ کرے تو ہم ضرور نقصان والوں میں ہوئے۔”

حضرت آدم کی نرمی دیکھ کر اللہ کو رحم آیا اور ان کی توبہ قبول فرما کر انہیں پہلے جیسی عزت وعظمت عطا فرمائی۔

غور کریں!

تکبر دکھا کر ابلیس مردود بارگاہ ہوگیا۔

اور نرمی دکھا کر حضرت آدم مقبول بارگاہ بنے رہے۔

یعنی اللہ جو انعام نرمی پر عطا فرماتا ہے وہ سختی پر نہیں دیتا، کیا یہ مثال مسلمانوں کو سمجھنے کے لیے کافی نہیں ہے؟

سرداری پر تکبر ہوجائے تو ایک حد تک سرداری کا اثر سمجھا جاتا ہے لیکن ناداری کے تکبر کو کیا کہا جائے؟

تمہیں بتاؤ یہ انداز گفتگو کیا ہے

ہم دیکھتے ہیں کہ مسلم علاقوں میں غیر مسلم افراد محض اپنی شیریں بیانی سے کامیاب ہوجاتے ہیں اور ہمارے افراد ترش روئی اور تلخ مزاجی سے اپنوں کو بھی ساتھ نہیں رکھ پاتے۔
بات سیاست کی ہو چاہے تجارت کی، ہماری ناکامی کی بڑی وجہ یہی رویہ ہے حالانکہ بہ حیثیت مومن ہمارے لیے آقائے کریم ﷺ کا یہ ارشاد مشعل راہ ہونا چاہیے:

إذا أراد ألله بأهلِ بيتٍ خيرًا أدخل عليهم الرِّفقَ. وإذا أراد ألله بأهلِ بيتٍ شرًا، نزع منهم الرفق.
(رواہ الاحمد فی المسند 6/71)

"جب اللہ تعالیٰ کسی گھرانے سے بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے تو ان میں نرمی ڈال دیتا ہے اور جب کسی گھرانے سے برائی کا ارادہ فرماتا ہے تو ان سے نرمی چھین لیتا ہے۔”

بہ حیثیت قوم غور کریں کہ کہیں ہمارے زوال کی ایک وجہ نرم مزاجی کا چھن جانا تو نہیں ہے؟

اغیار سے میٹھے لہجے میں بات کرنے والے اپنوں سے تیکھا لہجہ کیوں اپناتے ہیں؟ جب کہ ہمارے حسن سلوک کے اولین حق دار ہمارے اپنے ہیں۔

اس لیے اپنے اندر نرمی پیدا کریں، اچھے الفاظ اور دھیما لہجہ اختیار کریں، خوش روئی اپنائیں اور لہجے میں مٹھاس لائیں اگر ان اوصاف کو اپنا لیا جائے تو گفتگو خود بہ خود مؤثر ہوجاتی ہے کیوں کہ؛

کون سی بات کب، کہاں، کیسے کہی جاتی ہے
یہ سلیقہ ہو تو ہر بات سنی جاتی ہے

26 1442ھ
6 اگست 2021 بروز جمعہ

تحریر: غلام مصطفےٰ نعیمی

مدیر اعلیٰ سواد اعظم دہلی

مزید پڑھیں

آخر انسانیت کا مسیحا کون ؟

شیئر کیجیے

Leave a comment