مدحتِ شاہِ خوباں ﷺ
نتیجۂ فکر؛ شاکر رضا نوری
نہ پوچھ مجھ کو ملا کیا سے کیا مدینے سے
ملا ہے مجھ کو ارم کا پتہ مدینے سے
ہمارے قلب حزیں کی دوا مدینے سے
تو لے کے آنا اے بادِ صبا مدینے سے
سجا تو محفلِ ذکرِ حبیبِ خالقِ کُل
ضرور آئیں گے وہ دیکھنا مدینے سے
وہ مارا مارا پھرے گا جہاں میں ہر لمحہ
ہو جائے جس کا بھی گر خارجہ مدینے سے
کسی طبیب سے جس کا علاج ہو نہ سکے
وہ لائے تھوڑی سی خاکِ شفا مدینے سے
وہ بادشاہوں کو دیتا ہے دونوں ہاتھوں سے
عطائیں لے کے جو لوٹا گدا مدینے سے
ہَوا ارم کی ہے؛ محسوس ایسا ہوتا ہے
قسم خدا کی چلے جب ہوا مدینے سے
زمانے بھر سے اندھیروں کو ختم کر ڈالا
ضیا جو پھوٹی ہے یا مصطفیٰ مدینے سے
نظر نہ کر کبھی تو تخت و تاج کی جانب
سدا تو قلب کو اپنے لگا مدینے سے
تلاش کرتا ہے کیوں تو یہاں وہاں جنت
ملے گا اس کا تجھے راستہ مدینے سے
وہاں جو جائے گا دل اپنا رکھ کے آئے گا
اگر چہ گھر کو وہ آجائے گا مدینے سے
بچانے عظمتِ دینِ شفیعِ روز جزا
گیا ہے قافلہ کرب و بلا مدینے سے
بیاں تو کرتا جا توصیف شاہ اے شؔاکر
بلاوا آئے گا اک دن ترا مدینے سے