مسجد کی اشیاء ذاتی مفاد کے لئے استعمال کرنا کیسا ہے ؟

مسجد کی اشیاء ذاتی مفاد کے لئے استعمال کرنا کیسا ہے ؟

Table of Contents

مسجد کی اشیاء ذاتی مفاد کے لئے استعمال کرنا کیسا ہے ؟

از: محمد توصیف رضا

مسجد کی اشیاء ذاتی مفاد کے لئے استعمال کرنا کیسا ہے ؟
مسجد کی اشیاء ذاتی مفاد کے لئے استعمال کرنا کیسا ہے ؟سوال :-

 

ایک مسئلہ ہے کہ مسجد کا سامان کوئی شخص  اپنے ذاتی مفاد کے لئے استعمال کر سکتا ہے  کیا؟

چاہے وہ نمازی ہو یا غیر نمازی ہو یا صدر  یا کمیٹی کا کوئی ممبر…
اور امام کے بھی بارے میں بتا دیں امام مسجد کا کیا کیا استعمال کر سکتا ہے اور کیا نہیں دلائل کی روشنی میں میں بتا دیں ہو سکے تو ہندی میں زبان میں لکھ دیں بڑی مہربانی ہوگی آپکی.

عام طور پر ایک مسئلہ زیادہ پیش آ رہا ہے مسجد کی موٹر سے پڑوسی لوگ پانی بھرتے ہیں ضرورت پر اور صدر مسجد اکثر بھرا کرتے ہیں اور اسکا ہدیہ بھی مسجد میں نہیں دیتے ایک شخص نے آج سو روپے دیے وہ بھی یہ کہکر کے یہ امام صاحب کے ہیں کیا امام کو وہ سو روپے اپنے استعمال میں لانا ہے یا مسجد فنڈ میں دینا ہے ؟؟

سائل :- حافظ و قاری افسر القادری اویسی ( قنوج یوپی )

الجواب بعون الملک الوھاب:

مسجد کا کوئی بھی سامان مثلًا لوٹا چراغ موٹر وغیرہ  کسی بھی شخص کو اپنے گھر لے جاکر ذاتی مفاد کے لئے استعمال کرنا جائز نہیں چاہے وہ مسجد کا متولی ہو یا امام یا دیگر مصلیان ہاں مسجد کے اندر ہی مصلیان جو نماز ادا کرنے کے لئے آتے ہیں وہ ضرور وضو کے لئے پانی وغیرہ کا استعمال کر سکتے ہیں —

بہار شریعت میں ہے 

مسجد کی اشیاء مثلًا لوٹا چٹائی وغیرہ کو کسی دوسری غرض میں استعمال نہیں کر سکتے مثلًا لوٹے میں پانی بھر کر اپنے گھر نہیں لے جا سکتے اگرچہ یہ ارادہ ہو کہ پھر واپس کر جاوں گا اس کی چٹائی اپنے گھر یا کسی دوسری جگہ بچھانا ناجائز ہے یوہیں مسجد کے ڈول رسی سے اپنے گھر کے لئے پانی بھرنا یا کسی چھوٹی سی چھوٹی چیز کو بے موقع اور بے محل استعمال کرنا ناجائز ہے

( بہار شریعت جلد دوم حصہ دہم صفحہ ۵٦١ / ۵٦٢ مطبوعہ مکتبة المدینہ )

فتاوی مرکز تربیت افتاء میں ہے —
مسجد کی کسی بھی چیز کا اپنے گھر لانا یا کسی ذاتی کام میں استعمال کرنا کسی بھی شخص کے لئے خواہ عوام ہوں یا امام یا موذن حرام و گناہ ہے —

( فتاوی مرکز تربیت افتاء جلد دوم صفحہ ١٧٧ )

فتاوی مرکز تربیت افتاء میں دوسری جگہ ہے —

مسجد کا موٹر اپنے لئے چلاکر پانی بھرنا اور اپنے استعمال میں لانا تو اور زیادہ حرام و گناہ ہے کہ یہ بہت بڑی دھاندھلی بھی ہے —

( فتاوی مرکز تربیت افتاء جلد دوم صفحہ ١٩٠ )

جس شخص نے مسجد کی موٹر استعمال کی اور سو روپیہ امام کو دیا یہ کہہ کر کہ یہ امام کے ہیں

مذکورہ سوال کا جواب یہ ہے کہ اگر روپیہ امام کو بطور تحفہ دیا گیا ہے نہ کہ مسجد کی موٹر کا کرایہ تو امام کو وہ پیسا استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں جائز ہے

اب بات رہی مسجد کی موٹر یا کوئی اور چیز بطور کرایہ استعمال کی جا سکتی ہے یا نہیں ؟؟

فتاوی بحر العلوم میں ہے 

مسجد کی چیزیں ذاتی استعمال میں لانا حرام ہے ہاں ان چیزوں کو مسجد پر وقف کرنے والوں نے اگر اس نیت اور شرط سے بنوایا کہ کرایہ پر بھی دی جایا کرے تو اب کرایہ پر دی جاسکے گی شرط الواقف کنص الشارع ترجمہ وقف کرنے والے کی شرط شارع کی نص کی طرح ہے —

( فتاوی بحر العلوم جلد اول صفحہ ١٨٧ )

ھذا ما ظہر لی واللہ تعالی و رسولہ اعلم بالصواب

محمد توصیف رضا

( کالپی شریف )

مزید پڑھیں

انگریری زبان یا تعیلم حاصل کرنا فتاوی رضویہ کی روشنی میں

ایک حکیمانہ قول کی توضیح

مقرر کے لئے کتنی شرائط ہیں؟

مہر کی مقدار کیا ہے ؟

شیئر کیجیے

Leave a comment