مخدوم سمناں کا رند تصوف

Table of Contents

مخدوم سمناں کا رند تصوف

 

تحریر: توحید اختر حامد مصباحی

خاکدان گیتی پر دو صنف کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ ایک وہ ہے جو مال و منال جاہ و حشمت اور حطام دنیا کے پیچھے بھاگتا نظر آتا ہے اور تھوڑے دن کی زندگی گزار کر ہمیشہ کے لیے فنا ہو جاتے ہیں اور کوئی ان کا نام لینے والا نہیں ہوتا۔وہ بھولی بسری یادوں کی طرح ہوجاتے ہیں۔ایک وہ ہے جو اپنے گرد دنیا کی محبت و چاہت پھٹکنے نہیں دیتے۔جن کا مطمح نظر فقط حصول رضائے الہی ہوا کرتا ہے اور دنیاوی علائق و موانع سے کنارہ کش ہو کر فقط جلوۂ باری کا مشتاق و منتظر رہتے ہیں جن کی شام و سحر اور شب و روز کا ایک ایک لمحہ تسبیح و تہلیل کی نذر ہوا کرتی ہے۔عشق و ایمان کی پختگی,نفس و خیال کی طہارت و پاکیزگی اور اپنے معبود حقیقی سے شدت لگاؤ جنھیں محبوب کی شوکت و جمال کے لیے ہمیشہ بے چین رکھتی ہے یہی لوگ انما اکرمکم عند اللہ اتقٰکم کے سراپا مصداق ہوا کرتے ہیں اور انھیں لوگوں پر تصوف کا صحیح اطلاق ہوتا ہے۔یہ مبارک جماعت ہے جن سے ان کی حیات ظاہری میں بھی مخلوق الہی استفادہ و اکتساب فیض کرتی ہے اور بعد وفات بھی۔
تارک السلطنت حضرت مخدوم اشرف جہاں گیر سمنانی انھیں ستودہ صفات بزرگوں اور مقربین بارگاہ میں سے ہیں جنھوں نے دنیا کو ذرے کی سی بھی حیثیت نہیں دی ,سمنان کے موروثی بادشاہت و سلطنت,تخت و تاج کو صرف رضائے الہی کی خاطر ترک کر دیا,طاؤس و رطاب, آرام و لطف,راحت و آسائش والی اور شاہانہ زندگی کو خیرباد کہہ کر فقیرانہ زندگی اختیار کی اور راہ سلوک کا مسافر بن گئے۔
آپ ہمیشہ محبوب کی یاد میں کھویا کھویا رہتے , آپ کے ذہن کے دریچے ہمیشہ ذکر الہی سے معطر رہتے اگر چہ ظاہری طور پر امور مملکت آپ کو مشغول رکھتے تھے لیکن فرائض و واجبات اور سنن و نوافل کی پابندی یہاں تک کرتے تھے کہ آدابِ ارکان بھی شریعت آپ سے ترک نہیں ہوتے تھے_آپ کی نوجوانی کا ایک بہت مشہور واقعہ ہے کہ شہر سمنان سے متصل ایک پہاڑی کے غار میں آپ مصروف عبادت تھے آپ نے دیکھا کہ آپ کی والدہ ماجدہ تشریف لائی ہیں اور کہ رہی ہیں: اشرف مستقبل قریب میں عنان حکومت تمہارے ہاتھوں میں آنے والی ہے اور اگر امور حکومت سے تمہاری بے رغبتی کا یہی عالم رہا تو تم کس طرح شہنشاہی کے فرائض انجام دوگے یہ الفاظ جیسے ہی آپ کی سماعت سے ٹکرائے تو آپ نے اپنی نگاہ اوپر اٹھا کر دیکھا اور غصہ کی حالت میں یہ ارشاد فرمایا: تو میری ماں ہرگز نہیں ہوسکتی کیوں کہ میری والدہ مجھے یاد الہی سے غافل کرنے کی سعی ہرگز نہیں کرسکتی تو یقیناً دیوتا ہے جو اپنے مکر و فریب میں گرفتار کرکے یاد الہی سے بیگانہ کرنا چاہتی ہے_ آپ کے ان الفاظ کو سن کر وہ دیوتا بہت زور سے ہنسا اور کہنے لگا اشرف میں واقعی دیوتا ہوں اور اپنے مکر و فریب میں اسیر کرنا چاہتی تھی لیکن تم جیت گئے اور میں ہار کر شرمندہ و پشیماں ہوں_
بارگاہ رب العزت میں عبادت و بندگی کا ذوق نہایت ہی لطیف تھا جب وہ اپنے دولت کدے سے نکل کر فرائض بندگی کے لیے خدا خانے میں جاتے تو آنکھوں سے آنسوؤں کے سیلاب رواں ہوجاتے۔ تن بدن جہنم کی یاد سے سہم جاتے پھر رفتہ رفتہ یہ رقت انگیزی دور ہوتی اور اپنے آپ کو یوں محسوس کرتے کہ تصورات کی دنیا میں عالم بالا کا سیر کر رہے ہیں ,اسرار الہی آپ پر عیاں ہوگئے ہیں , جلوۂ باری کے احاطہ میں گھرے ہوئے ہیں اور دل کی سرزمین پر عشق و مستی اور کیف و سرور کالی گھٹاؤں کی طرح برس رہا ہے۔ آپ کو اللہ تعالی کی اسرار و معرفت عطا کی گئی تھی صاحب صحائف اشرفی رقم طراز ہیں : کہ حضرت محبوب یزدانی حضرت مخدومی کی خدمت میں بیٹھے تھے اور سخنانِ اسرار و معرفت سن رہے تھے کہ حضرت مخدومی نے حضرت محبوب یزدانی کی بہ نسبت فرمایا کہ "فرزند اشرف” بستانِ استعداد کو میں نے تمہارے لیے خشک کر دیا اور جو کچھ ابتدا سے انتہا تک اسرار معرفت تھے وہ سب تم کو عطا کیے.

تم پوچھتے ہوکہ سرِّ وحدت کیا ہے
ماسوا کی بھلا حقیقت کیا ہے

تحریر: توحید اختر حامد مصباحی

کشن گنج, بہار

مذید پڑھیں

ہمیں مرشد کی ضرورت کیوں؟

حضور مفتی اعظم،شریعت اور تعظیمِ نسبت

مختصر سوانح حیات تاجدار اہل سنت مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ

شیئر کیجیے

Leave a comment