مزارات پر میلوں ٹھیلوں کا عذاب

مزارات پر میلوں ٹھیلوں کا عذاب

Table of Contents

مزارات پر میلوں ٹھیلوں کا عذاب

از: مفتی عبدالرشید امجدی‌اشرفی

آج کل ملک کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے مزارات مقدسہ پر جس طرح کے ایمان سوز میلے ٹھیلے منعقد کئے جاتے ہیں اور ان میں ہمہ قسم کی دھما چوکڑی مچائ جاتی ہے علماء اہل سنّت کا فرض ہے کہ وہ لوگوں کو ایسے میلوں پر جانے سے سختی سے روکیں یہ میلے ٹھیلے جہاں مزارات کی سخت بے حرمتی کا سبب ہیں انہیں سے اہل سنت کی بھی شدید بدنامی ہو رہی ہے ہمیں حیرت ہے کہ ہمارے علماء و فقہاء اور خطباء و مقررین کے قلم اور زبانیں اس سلسلے میں اپنا اجتماعی کردار ادا کرنے سے کیوں عاجز آگیے ہیں اس میں کوی شق نہیں کہ عرس کی محفل. منعقد کرنا شرعی طور پر ایک جائز کام ہے جس سے بہت سے دینی مصالح اور شرعی فوائد وابستہ ہیں لیکن عرسوں کے آڑ میں فواحش و منکرات کا بازار گرم کرنا جوا کھیلنا شراب پینا سرکسیں منعقد کرنا نیم عریاں عورتوں کا رقص کرنا کان پھاڑ نے والی آوازوں کے ساتھ سارے شہر میں گانوں کا گونجنا  بدکاری حرام کاری کی دعوتوں کا عام ہونا کیا یہ بھی کوئ عرس کا حصہ ہیں؟ یا پھر عرس کے دنوں میں یہ گندے اور غلیظ کام جائز ہو جاتے ہیں ؟ حقیقت یہ ہے کہ آج مزارات کے زیر سایہ ان تمام بدکاریوں کو دینی جواز فراہم کر دیا گیا ہے اور جاہل لوگ ان خبیث کاموں کو کار ثواب سمجھ کر کرتے ہیں یہ میلے ٹھیلے جرائم کی آماجگاہ بن چکے ہیں غنڈے لوفر بدمعاش چور اچکے زانی قاتل ڈاکو لوطی مراثی جواری شرابی غرضیکہ دنیا بھر کے ذلیل ترین اور ننگ انسانیت لوگ یہاں جمع ہوتے ہیں اور ان مقامات مقدسہ پر ہر وہ بدترین کام ڈنکے کی چوٹ پر ہوتا ہے جس سے اِنسانیت منھ چھپائے پھر تی ہے اور اسلام کا سرعام جنازہ اٹھ رہا ہوتا ہے _
مزید برآں ان میلوں ٹھیلوں کا مسلک اہل سنت کے سر تھوپنا بھی ایک جاہلانہ اور شیطانی حرکت ہے کیونکہ علماء اہل سنّت انہیں کل بھی حرام قرار دیتے تھے اور آج بھی حرام قرار دیتے ہیں ہم میلوں کی ان تمام غیر شرعی رسوم و روایات سے کلیتا  بے زاری کا اعلان کرتے ہیں _ لیکن ناجائز کاموں کو دیکھ کر جائز کاموں کو بھی ناجائز قرار دے دینا بھلا یہ کہاں کی عقلمندی ہے میلے ٹھیلے منعقد کرنا اگر عملی جہالت ہے تو عرسوں کو ناجائز قرار دینا علمی جہالت ہے لہذا مہر بانی فرما کر ناجائز سے روکیں اور جائز کو جائز رہنے دیجئے

خیر!  آمدم برسر مطلب ان میلوں ٹھیلوں کا نہ تو دینی و شرعی جواز ہے اور نہ ہی قانونی و اخلاقی یہ چھوٹے چھوٹے اور بڑے بڑے ہزاروں میلے ظلم ہی ظلم اور جرم ہی جرم ہیں ان سے رکنا اور روکنا ہر مسلمان پر فرض عین ہے خاص طور پر علماء کرام کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس سلسلے میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں ان اسلام کش اور دین دشمن میلوں کا خلاف برسر پیکار ہوجائیں اور اپنی تمام تر علمی و عملی توانائیوں کے ساتھ انہیں رکوا کر ہی دم لیں..
اگر علمائے کرام نے اجتماعی طور پر اپنا یہ فرض ادا نہ کیا تو پھر وہ قیامت کے دن مواخذہ کے لیے تیار ہو جائیں *حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو غلط کام کو دیکھے اور اس سے نہ روکے تو وہ گونگا شیطان ہے*  ہمارے بہت سے خطباء و مقررین جو علم سے کورے ہوتے ہیں اور فقط سُر گُر کی بنا پر عوام میں اپنا اثر و رسوخ  قائم کر لیتے ہیں میلوں ٹھیلوں کا اس جرم میں وہ بھی برابر شریک ہیں کیونکہ وہی ان میلوں پہ جاکر تقریریں کرتے ہیں اور عوام کی صحیح تربیت کر نے کہ بجائے انہیں لطیفے چٹکلے سناتے ہیں نیز انہیں یہ حق ہی کس نے دیا ہے کہ وہ عوام کو وعظ سنائیں جبکہ ان کا وعظ سنا ہی شریعت میں حرام ہے وعظ کرنے کے لیے آدمی کا مستند عالم ہونا ضروری ہے جو نہ صرف یہ کہ *شہاۃ العالمیہ* پاس ہو بلکہ اس کے ساتھ علم دین پر کامل عبور بھی رکھتا ہو

از ۔۔ تلمیذ محدث کبیر

مفتی عبدالرشید امجدی‌اشرفی دیناجپوری

خلیفہ حضور شیخ الاسلام و المسلمین و ارشد ملت
خادم ۔۔ سنی حنفی دارلافتاء زیر اہتمام تنظیم پیغام سیرت مغربی بنگال
*7030786828*

مذید پڑھیں

ہمیں مرشد کی ضرورت کیوں؟

حضور مفتی اعظم،شریعت اور تعظیمِ نسبت

مختصر سوانح حیات تاجدار اہل سنت مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ

شیئر کیجیے

Leave a comment