کفرفقہی کے اقسام واحکام(قسط دوم)

کفرفقہی کے اقسام واحکام(قسط دوم)

Table of Contents

کفرفقہی کے اقسام واحکام(قسط دوم)

کفرفقہی کے اقسام واحکام(قسط دوم)
کفرفقہی کے اقسام واحکام(قسط دوم)

از قلم: طارق انور مصباحی

کفر فقہی کی قسم اول:کفر فقہی قطعی کی توضیح وتشریح قسط اول میں مرقوم ہوئی۔قسط دوم میں کفرفقہی کی قسم دوم:کفر فقہی ظنی کی تفصیل مرقوم ہے۔دیگر امور کا بھی اجمالی تذکرہ ہے۔

1باب تکفیر میں دومذہب ہیں:مذہب متکلمین اور مذہب فقہا۔

2تکفیرکے دونوں طریقے حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین سے منقول ہیں۔اس کی تفصیلی بحث،البرکات:رسالہ دوازدہم:باب نہم:فصل سوم میں ہے۔

3باب اعتقادیات میں اہل سنت وجماعت کے دو طبقے ہیں:ماتریدیہ واشعریہ۔

امام اہل سنت حضرت ابومنصور ماتریدی (238-333ھ)باب فقہیات میں حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہحضرت امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مقلد ہیں۔ امام اہل سنت حضرت ابوالحسن اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ (260-324ھ)باب فقہیات میں حضرت امام شافعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مقلد ہیں۔اس کی تفصیل:البرکات:رسالہ دوم:باب دوم میں ہے۔

قال السید مرتضٰی الحسینی البلکرامی:(ہذہ المسائل التی تلقاہا الامامان الاشعری والماتریدی ہی اصول الائمۃ رحمہم اللّٰہ تَعَالٰی فالاشعری بَنٰی کُتُبَہ عَلٰی مسائل من مذہب الامامین مالک والشافعی- اخذ ذٰلک بوسائط فَاَیَّدَہَا وَہَذَّبَہَا-والماتریدی کذلک اَخَذَہَا من نصوص الامام ابی حنیفۃ وہی فی خمسۃ کُتُبٍ(۱)الفقہ الاکبر (۲) والرسالۃ(۳) والفقہ الا بسط(۴)و کتاب العلم والمتعلم(۵)والوصیۃ)
(اتحاف السادۃ المتقین شرح احیاء علوم الدین جلددوم:ص13)

4 حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور حضرت امام شافعی رضی اللہ تعالیٰ عنہما باب تکفیر میں اسی مذہب پر تھے،جس کو آج مذہب متکلمین کہا جاتا ہے،یعنی امام ماتریدی وامام اشعری اور دیگر متکلمین اسلام نے باب تکفیر میں مذکورہ مجتہدین اسلام کے طریق کارکو اختیار فرمایا۔
اس کی تفصیل:البرکات النبویہ:رسالہ دوم:باب دوم میں ہے۔

قال الامام ابن الہمام الحنفی:(اِنَّ الحُکمَ بِکُفرِ مَن ذَکَرنَا مِن اَہلِ الاہواء-مَعَ مَا ثَبَتَ عَن اَبِی حنیفۃ والشافعی رحمہم اللّٰہ من عدم تکفیر اہل القبلۃ من المبتدعۃ کلہم-محملہ ان ذلک المعتقد نفسہ کُفرٌ- فَالقَاءِلُ بِہٖ قَاءِلٌ بِمَا ہُوَ کُفرٌ-وَاِن لَم یُکَفَّر بِنَاءً عَلٰی کَونِ قَولہ ذلک عن استفراغ وسعہ مُجتَہِدًا فی طلب الحق)(فتح القدیر جلداول:ص304)

5 باب تکفیر میں تقلید کا حکم نہیں۔باب فقہیات کے ظنی واجتہادی امور میں تقلید شخصی واجب ہے۔باب تکفیرمیں مذہب متکلمین ومذہب فقہا میں سے کسی ایک کو اختیار کرنے کی اجازت ہے۔اس کی بحث،البرکات النبویہ:رسالہ دوازدہم:باب نہم:فصل اول میں ہے۔

6 فقہائے احناف اوران کے مؤیدین ضروریات دین کی قسم دوم یعنی ضروریات اہل سنت کے انکار پر بھی حکم کفرعائد کرتے ہیں۔حضرات ائمہ مجتہدین میں سے حضرت امام احمد بن حنبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بھی یہی مذہب ہے۔آپ خلق قرآن کے قائلین کی تکفیر فرماتے تھے،حالاں کہ قرآن مقدس کے غیر مخلوق ہونے کا مسئلہ ضروریات دین میں سے نہیں ہے۔متکلمین ضروریات اہل سنت کے منکر کو گمراہ قرار دیتے ہیں۔
معتزلہ اور جہمیہ وغیرہ قرآن مجید کومخلوق مانتے تھے،اس سبب سے ان لوگوں پر کفر فقہی کا حکم عائدکیا گیا۔ حضرت امام احمد حنبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے عہد کے بہت سے فقہائے اسلام وعلمائے اہل سنت نے خلق قرآن کے قائلین کو کافر قرار دیا۔ کافرفقہی کے لیے ”من شک فی کفرہ فقدکفر“کی اصطلاح بھی استعمال فرماتے تھے۔ہمارے رسالہ: مناظراتی مباحث اورعقائد ونظریات:بحث دوم:فصل دوم میں تفصیل ہے۔

(الف) امام احمد بن حنبل نے نقل فرمایا:(قال ابوبکر بن عیاش:
من قال:القرآن مخلوق فہوکافر-ومن شک فی کفرہ فہوکافر)
(الورع للامام احمد بن حنبل:جلد اول ص88-مکتبہ شاملہ)

(ب) امام مسددبن مسرہد بصری نے معتزلہ،جہمیہ وغیرہ کے فتنوں کے زمانے میں حضرت امام احمد بن حنبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے چند سوالات کیے۔امام احمدبن حنبل نے جواب میں ایک رسالہ تصنیف فرمایاجو”العقیدہ“کے نام سے مشہور ہے۔آپ نے رقم فرمایا:

(وآمرکم أن لا تؤثروا علی القرآن شیئا-فإنہ کلام اللّٰہ وما تکلم اللّٰہ بہ فلیس بمخلوق-وما أخبر بہ عن القرون الماضیۃ فلیس بمخلوق- وما فی اللوح المحفوظ وما فی المصحف وتلاوۃ الناس وکیفما وصف فہو کلام اللّٰہ غیر مخلوق-فمن قال مخلوق فہو کافر باللّٰہ العظیم-ومن لم یکفرہ فہو کافر)
(العثیدۃ للامام احمدبن حنبل -روایت محدث خلال حنبلی-ص60-مکتبہ شاملہ)

7 ضروریات اہل سنت کے منکر کی تکفیر کا مسئلہ بھی حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین سے منقول ہے۔ضروریات دین قطعی بالمعنی الاخص امور ہیں اور ضروریات اہل سنت قطعی بالمعنی الاعم امور ہیں۔دونوں قطعیات میں سے ہیں۔

قال الامام احمد رضا القادری:(وَقَد تَوَاتَرَعن الصحابۃ والتابعین العظام والمجتہدین الاعلام علیہم الرضوان التام-اِکفَارُ القَاءِلِ بِخَلق الکلام کَمَا نَقَلنَا نُصُوصًا کَثِیرًامنہم فی(سبحٰن السبوح عن عیب کذب مقبوح)وَہُمُ القُدوَۃُ لِلفُقَہَاءِ الکِرَامِ فِی اِکفَارِکُلِّ مَن اَنکَرَ قَطعِیًّا- وَالمُتَکَلِّمُونَ خَصُّوہُ بالضروری-وہوالاحوط) (المعتمد المستند: ص50)

قسم دوم:کفر فقہی ظنی کی تفصیل:

ضروری دینی کا ظنی انکار کفر فقہی ظنی ہے۔ اس میں فقہاکا اختلاف ہوتا ہے۔
اس میں کفر راجح ہوتا ہے،اورعدم کفر مرجوح ہوتا ہے۔جن فقہا کے یہاں عدم کفر راجح ہوتا ہے،وہ اسے کفرنہیں مانتے ہیں۔اس کفر میں اجتہادجاری ہوتا ہے،اسی لیے اس میں فقہائے کرام کاباہمی اختلاف بھی ہوتا ہے۔یہ فقہا کے یہاں بھی کفر لزومی ہے۔

کوئی ایسا کلام جو کسی ضروری دینی کے انکار میں صریح نہ ہو، نہ صریح متعین ہو، نہ صریح متبین ہو،بلکہ اس کلام کی بعض تاویل کے سبب کسی ضروری دینی کا انکار لازم آتا ہو تو فقہائے کرام ایسے قول پر بھی حکم کفر عائد کرتے ہیں،کیوں کہ وہ قول ترتیب مقدمات کے بعد کسی ضروری دینی کے انکار کی طرف منجر ہوتا ہے۔ یہ کفر ظنی لزومی ہے۔ اس میں اجتہاد جاری ہوتا ہے۔ بعض فقہا کی تحقیق میں لزوم کفر راجح ہوتا ہے،بعض کی تحقیق میں مر جوح۔

حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اورحضرت امام شافعی رضی اللہ تعالیٰ عنہما ایسے کلام کے قائلین کو کافر نہیں کہتے،لیکن دونوں مجتہدین کے جومقلدین باب تکفیر میں فقہائے کرام کے مذہب پر ہیں،وہ قائل کی تکفیر کرتے ہیں۔یہ تکفیر فقہی ہے،تکفیر کلامی نہیں۔

ظنی واجتہادی مکفرات امام اعظم سے منقول نہیں

قال ابن نجیم:(ان ہذا الفروع المنقولۃ من الخلاصۃ وغیرہا بصریح التکفیر،لَم تُنقَل عَن اَبِی حَنِیفَۃَ-وانما ہی مِن تَفرِیعَاتِ المَشَاءِخِِ کَاَلفَاظِ التَّکفِیرِالمنقولۃ فی الفتاوٰی-وَاللّٰہُ سُبحَانَہٗ ہُوَ المُوَفِّقُ)
(البحر الرائق:جلد اول:ص613)

قال الامام ابن ہمام:(نعم یقع فی کلام اہل المذاہب تکفیرٌ کَثِیرٌ- ولکن لیس من کلام الفقہاء الذین ہم المجتہدون بل من غیرہم- وَلَاعِبرَۃَ بِغَیرِ الفُقَہَاءِ-وَالمَنقُولُ عن المجتہدین ما ذکرنا)
(فتح القد یر: جلدششم:ص100)

توضیح:کفر فقہی ظنی کی صورتیں جو فقہی کتابوں میں مرقوم ہیں۔وہ حضرت امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول نہیں۔بعد کے فقہا ئے کرام نے حسب ضرورت بیان وہ صورتیں فرمائیں۔ جب ایسے مسائل وحوادث درپیش ہوئے توفقہا نے شرعی دلائل میں غوروفکر کے بعد جواب دیا۔ان میں جو صورتیں کفر کلامی وکفر فقہی قطعی کی ہیں، وہ ظنیات واجتہادیات سے خارج ہیں۔ کفر فقہی ظنی میں اجتہاد جاری ہوتا ہے۔ کفر ظنی میں صریح کفر  نہیں پایا جاتا،بلکہ اس کلام کی تاویل کے سبب کفر لازم آ تا ہے۔وہ کسی ضروری دینی کے انکار کی طرف منجر ہوتا ہے۔ اس کوکفر لزومی کہا جاتا ہے۔

ظنی واجتہادی مکفرات میں ایک مذہب کےفقہاکااختلاف

قال الحصکفی عن الفاظ الکفر:(والفاظہ تُعرَفُ فِی الفَتَاوٰی-بَل اَفرَدتُ بِالتَّالِیفِ-مَعَ اَنَّہٗ لَا یُفتٰی بِالکُفرِ بِشَیءٍ مِنہَا اِلَّا فِیمَا اِتَّفَقَ المَشَاءِخُ عَلَیہِ)(الدرالمختار ج۴ص۸۰۴)

توضیح:(لا یفتی بالکفربشیء منہاالا فیما اتفق المشائخ علیہ)سے واضح ہے کہ کفر فقہی ظنی میں ایک فقہی مذہب کے فقہا کا بھی باہمی اختلاف ہوتا ہے۔

قال ابن نجیم:(وَالَّذِی تَحَرَّرَ اَنَّہٗ لَا یُفتٰی بِتَکفِیرِ مُسلِمٍ اَمکَنَ حَملُ کَلَامِہٖ عَلٰی مَحمَلٍ حَسَنٍ-اَوکَانَ فِی کُفرِہٖ اِختِلَافٌ وَلَو رِوَایَۃٌ ضَعِیفَۃٌ- فعلٰی ہذا فَاَکثَرُ  اَلفَاظِ التَّکفِیرِ المَذکُورَۃِ لَایُفتٰی بِالتَّکفِیرِ بِہَا-وَلَقَد اَلزَمتُ نَفسِی اَن لَا اُفتِیَ بِشَیءٍ مِنہَا)(البحر الرائق جلددوم:ص210)

توضیح:(او کان فی کفرہ اختلاف ولو روایۃ ضعیفۃ)سے واضح ہے کہ کفر فقہی ظنی میں ایک فقہی مذہب کے فقہا کا بھی باہمی اختلاف ہوتا ہے۔

قال ابن نجیم:(الکفر تکذیب محمد صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم فی شئ مما جاء من الدین ضرورۃ-ولا یکفر احد من اہل القبلۃ الا بجحود ما ادخلہ فیہ-وحاصل ما ذکرہ اصحابنا رحمہم اللّٰہ تعالی فی الفتاوی من الفاظ التکفیر،یرجع الی ذلک-وفیہ بعض اختلاف،لکن لا یفتی بما فیہ خلاف)(الاشباہ والنظائر:باب الردۃ ص190-دار الکتب العلمیہ بیروت)

توضیح:(وفیہ بعض خلاف لکن لایفتی بما فیہ خلاف)سے واضح ہے کہ کفر فقہی ظنی میں ایک مذہب کے فقہا کا بھی باہمی اختلاف ہوتا ہے۔

کفر فقہی ظنی کے مرتکب کا حکم

کفرفقہی ظنی کے صدور پر مرتکب کوکافر قراردینے سے متعلق دوقول ہیں:

(۱) ایک قول یہ ہے کہ اس امر کے کفر ہونے پر مذاہب اربعہ کے فقہا متفق ہوں۔ کسی فقہی مذہب کے فقیہ کااس میں اختلاف نہ ہو،تب قائل پر حکم کفر عائد ہوگا۔

(۲) دوسرا قول یہ ہے کہ اس خاص فقہی مذہب کے مشائخ اس قول کے کفریہ ہونے پر متفق ہوں،تب قائل حکم کفر عائد ہوگا۔

مذہب اول کا بیان:

قال الحصکفی:((و)اعلم اَنَّہٗ(لَا یُفتٰی بِکُفرِ مُسلِمٍ اَمکَنَ حَملُ کَلَامِہٖ عَلٰی مَحمَلٍ حَسَنٍ-اَو کَانَ فِی کُفرِہٖ خِلَافٌ ولو)کَانَ ذٰلِکَ(روایۃ ضعیفۃ)کَمَا حَرَّرَہٗ فِی البَحرِ)(الدرالمختار جلدچہارم:ص415)

قال الشامی:(قولہ (ولو روایۃ ضعیفۃ) قال الخیرالرملی-اقول: ولوکانت الروایۃ لِغَیرِ اَہلِ مَذہَبِنَا وَیَدُلُّ عَلٰی ذٰلِکَ اشتراط کون ما یوجب الکفر مُجمَعًا عَلَیہِ) (رد المحتار جلدچہارم:ص415)

قال ابن نجیم المصری:(وفی الفتاوی الصغرٰی:الکفر شَیءٌ عَظِیمٌ- فَلَا اَجعَلُ المُؤمِنَ کَافِرًا-مَتٰی وُجِدَت رِوَایَۃٌ اَنَّہٗ لَا یَکفُرُ)
(البحرالرائق:جلدپنجم:ص 210)

علامہ شامی نے اس قول کو ردالمحتارمیں نقل فرمایا۔(رد المحتار:جلد چہارم:ص408)

قال الشیخ محمد بن سلیمان اَفَندِی(م ۸۷۰۱؁ھ)ناقلًا عن البحر الرائق:(ثم اذا کان فی المسئلۃ وجوہٌ ووجہٌ واحدٌ یمنعہ،یمیل العالم الٰی ما یمنع من الکفر ولا ترجح الوجوہُ علی الوجہ-وفی البحر:والحاصل ان من  تکلم بکلمۃ الکفر ہَازِلًا اَو لَاعِبًا کَفَرَ عند الکل،ولا اعتبار باعتقادہ-ومن تَکَلَّمَ بِہَا خَطَاءً اَو مُکرَہًا لَا یَکفُرُ عند الکل-ومن تکلم بہا عَالِمًا عَامِدًا کَفَرَ عند الکل وَمَن تَکَلَّمَ بِہَا اِختِیَارًا جَاہِلًا بِاَنَّہَا کُفرٌ ففیہ اختلاف-والذی تَحَرَّرَ انہ لایفتی بتکفیر مسلم مہما امکن حمل کلامہ علی محمل حسن اوکان فی کفرہ اختلافٌ ولو روایۃً ضعیفۃً فعلٰی ہذا فاکثرالفاظ الکفر المذکورۃ لایفتٰی بالتکفیر فیہا-وَلَقَد اَلزَمتُ نَفسِی اَن لَا اُفتِیَ بِشَیءٍ مِنہَا:انتہی)(مجمع الانہرشرح ملتقی الابحر: ص688)

مذہب دوم کابیان:

ایک شکل یہ ہے کہ جس قول کے کفر ہونے پر تمام فقہی مذاہب کے فقہا متفق ہوں، صرف اس قول کے قائل پر کفر کاحکم عائدکیا جائے۔دوسری شکل یہ کہ اس فقہی مذہب کے مشائخ اس قول کے کفر ہونے پر متفق ہوں،تب حکم کفر عائد کیا جائے۔اگر اسی مذہب کے فقہاکا اختلاف ہوتو حکم کفر جاری نہ کیا جائے۔جب کفر کا حکم نہ ہوتو وہاں حرمت وعدم جواز وغیرہ کا جوحکم ہو، وہ بیان کیا جائے،تاکہ قائل توبہ کرکے جرم سے پاک ہوجائے۔

قال الحصکفی عن الفاظ الکفر:(والفاظہ تُعرَفُ فِی الفَتَاوٰی-بَل اَفرَدتُ بِالتَّالِیفِ-مَعَ اَنَّہٗ لَا یُفتٰی بِالکُفرِ بِشَیءٍ مِنہَا اِلَّا فِیمَا اِتَّفَقَ المَشَاءِخُ عَلَیہِ)(الدرالمختار جلد چہارم:ص408)

قاضی مقلد ومفتی مقلدکے احکام

حکم کفر جاری کرنے سے متعلق قاضی مقلد اور مفتی مقلددونوں کے لیے جداگانہ حکم ہیں۔ قاضی مقلدکواپنے فقہی مذہب کے مفتی بہ اور معتمد وراجح قول کے مطابق کفروعدم کفر کافیصلہ کرنا ہے۔وہ مسئلہ تکفیر میں بھی اپنے فقہی مذہب کے مطابق فیصلہ جاری کرے گا۔ مفتی مقلد سے متعلق دومذہب ماقبل میں مذکور ہوئے۔قاضی مقلد کا حکم مندرجہ ذیل ہے۔

(۱) قال الہیتمی ناقلًا عن الرافعی:(فَاِن کَانَ مَدلُولُ لَفظِہٖ کُفرًا مُجمَعًا عَلَیہِ-حُکِمَ بِرِدَّتِہٖ-فَیُقتَلُ اِن لَم یَتُب-وَاِن کَانَ فِی مَحَلِّ الخِلَافِ -نظرفی الراجح من الادلۃ ان تأہل-والا اخذ بالراجح عند اکثر المحققین من اہل النظر-فَاِن تَعَادَلَ الخِلَافُ اُخِذَ بِالاَحوَطِ-وَہُوَ عَدَمُ التَّکفِیرِ-بَلِ الَّذِی اَمِیلُ اِلَیہِ اذا اُختُلِفَ فِی التَّکفِیرِ-وَقفُ حالہ وَتَرکُ الاَمرِ فِیہِ اِلَی اللّٰہِ تَعَالٰی-انتہٰی)(الفتاوی الحدیثیہ:ص222-دارالفکر بیرو ت)

توضیح:مجمع علیہ قول کواختیار کرنے اوراحتیاط کرنے کا حکم مفتی مقلدکے لیے ہے۔ قاضی مقلد اپنے مذہب فقہی کے مطابق فیصلہ کرے گا۔اگر چہ اس امر کے کفر ہونے میں دیگر مذاہب کے فقہا کا اختلاف ہو۔قاضی مقلد اپنے فقہی مذہب کے مطابق فیصلہ کرے گا۔

(۲)قال الہیتمی فی تشریح قول الرافعی:(وقولہ:وان کان فی محل الخلاف،الخ:محلہ فی غیر قاض مقلد رفع الیہ امرہ-وَاِلَّا لَزِمَہُ الحُکمُ بما یقتضیہ مذہبہ-اِن اِنحَصَرَالاَمرُ فِیہِ سَوَاءٌ وَافَقَ الاِحتِیَاطَ اَم لَا)
(الفتاوی الحدیثیہ ص222-دارالفکربیروت)

توضیح:علامہ ہیتمی کا قول (اِن اِنحَصَرَالاَمرُ فِیہ)سے مراد یہ ہے کہ قاضی مقلد کے مذہب میں ایسے قائل کی تکفیر سے متعلق کوئی اختلاف نہ ہو،بلکہ معاملہ تکفیر میں منحصر ہو، اوراس مذہب کے فقہا کے درمیان ایسے قائل کی تکفیرمتفق علیہ ہوتو کفرکا حکم دے گا۔دیگر مذاہب کے فقہا کااس کی تکفیر میں اختلاف ہوتو قاضی مقلد کوان کے قول پرعمل کا حکم نہیں۔
کفرفقہی ظنی میں کب حکم کفرہوگا؟

   فقہا نے جن ظنی کفریات کوکفر بتایا ہے،ان کفریات کا قائل جب وہی معنی مراد لے،جس بنا پر فقہا نے ان کلمات کو کفر کہاہے،تب قائل پرحکم کفر جاری ہوگا۔اگر قائل نے غیر کفری معنی مراد لیا ہے توحکم کفر جاری نہیں ہوگا۔یہ کیفیت محتمل کلام میں ہوگی،یعنی جہاں متعدد معانی کا احتمال ہو، اسی طرح کفر لزومی میں بھی یہ کیفیت پائی جائے گی، یعنی بعض تاویل قریب کے مطابق کسی ضروری دینی کا انکار لازم آتا ہو، اور بعض تاویل قریب کے مطابق ضروری دینی کا انکار لازم نہ آتا ہو، تب یہ حکم ہے کہ فقہا نے جس معنی کوکفر قراردیا ہے، قائل کی وہی مراد ہے تو حکم کفر عائد ہوگا۔اگر ضرور ی دینی کا انکار لزوم بین کے طورپر ہوتو فقہا ومتکلمین دونوں کے یہاں حکم کفر عائد ہوگا۔اسی طرح اگر تاویل بعید کے اعتبار سے حکم کفر لازم نہیں آتا ہے تو فقہا کے یہاں تاویل بعید کا لحا ظ نہیں ہوگا اور حکم کفر عائد ہوگا۔

قال النابلسی:(جمیع ما وقع فی کتب الفتاوٰی من کلمات الکفر التی صرح المصنفون فیہا بالجزم بالکفر یکون الکفر فیہا محمولًا علٰی ارادۃ قائلہا المعنی عللوا بہ الکفر-واذا لم تکن ارادۃ قائلہا ذلک فلا کفر)
(الحدیقۃ الندیۃ شرح الطریقۃ المحمدیہ: جلد اول:ص304-مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد:پاکستان)

وضاحت: جس کفرفقہی ظنی کے کفرہونے پر تمام مذاہب فقہیہ کے فقہا کا اجماع ہو، اس اجماعی کفر فقہی ظنی کے قائل پر متکلمین بدعت وضلالت کا حکم نافذکریں گے۔جس کفر فقہی ظنی میں فقہائے کرام کے درمیان اختلاف ہو،پس اختلاف کرنے والے فقہائے کرام اگر ایسے قول کو ناجائزوحرام کہتے ہوں تو متکلمین بھی اس قائل کوگنہ گار قرار دیں گے۔

ان شاء اللہ تعالیٰ مستقل قسط میں تفصیل مرقوم ہوگی:واللہ الہادی والموفق وہو المستعان::والصلوٰۃوالسلام علیٰ حبیب الرحمن وعلیٰ آلہ واصحابہ ذوی الفضل والاحسان۔

از قلم: طارق انور مصباحی

جاری کردہ:یکم اگست 2021

مزید پڑھیں

کفرفقہی کے اقسام واحکام (قسط اول)

ضروریات دین کی تعریف میں عوام وخواص سے کیا مراد ہے؟(قسط دوم)

ضروریات دین کی تعریف میں خواص وعوام سے کیا مراد ہے؟(قسط اول)

مرکز ہدایت کی طرف اہل حق کو آنے دو

شیئر کیجیے

Leave a comment