ضروریات دین کی تعریف میں خواص وعوام سے کیا مراد ہے؟

خواص وعوام سے کیا مراد ہے؟

Table of Contents

ضروریات دین کی تعریف میں خواص وعوام سے کیا مراد ہے؟

(قسط اول)

ضروریات دین کی تعریف میں خواص وعوام سے کیا مراد ہے؟
ضروریات دین کی تعریف میں خواص وعوام سے کیا مراد ہے؟

از قلم: طارق انور مصباحی

ضروریات دین کی تعریف میں خواص وعوام سے کون حضرات مراد ہیں؟

ضروریات دین کی متعدد تعریفات ہیں۔ضروریات دین کی پانچ تعریفات کی تفصیلی بحث ہمارے رسالہ:”ضروریات دین کی تعریفات“میں مرقوم ہیں۔

ضروریات دین سے متعلق دیگر امورکی تفصیل ”البرکات النبویہ:رسالہ یازدہم،باب اول میں مرقوم ہے۔

ضروریات دین کی دوتعریفوں میں عوام وخواص کا ذکر آیا ہے۔ اس تحریر میں عوام وخواص کا مفہوم، صحبت خواص کا معنی اور ضروری دینی کے علم کا معنی مرادبیان کیا گیا ہے۔

قسط اول میں پہلی تعریف کا تجزیہ مرقوم ہے۔قسط دوم میں دوسری تعریف پر تبصرہ مرسوم ہے۔

تعریف اول:ضروری دینی ایسا متواتر وقطعی امردینی ہے جو عوام وخواص میں مشہور ہو۔

قال الہیتمی الشافعی:(وقولہ فما القدر المعلوم من الدین بالضرورۃ؟

جوابہ:أنہ قد سبق ضابطہ وہو أن یکون قطعیاً مشہورًا بحیث لا یخفی علی العامۃ المخالطین للعلماء بأن یعرفوہ بداہۃ من غیر إفتقار إلی نظر واستدلال)(فتاویٰ حدیثیہ ص141-مکتبہ شاملہ)

ترجمہ:علامہ ابن حجر ہیتمی شافعی مکی (909-974ھ)نے رقم فرمایا:سائل کا قول کہ ضروریات دین کی متعینہ مقدا ر کیا ہے؟

اس کا جواب ہے کہ اس کا ضابطہ گزر چکا۔وہ یہ کہ ضروری دینی ایسا قطعی مشہور امر دینی ہوتا ہے جو علما کی صحبت میں رہنے والے عوام سے پوشیدہ نہیں ہوتا،اس طرح کہ وہ عوام نظر واستدلال کے بغیر بداہۃً اسے جان لیتے ہیں۔

قال العلامۃ البدایونی:(فَمَا کَانَ ثبوتُہ ضَرُورَۃً عَن نَقلٍ اِشتَہَرَ وَتَوَاتَرَ فَاستَوٰی مَعرفۃُ الخاص والعام)(المعتقد المنتقد: ص210-المجمع الاسلامی مبارک پور)

ترجمہ:پس وہ دینی منقول امرکہ مشہور ومتواتر نقل کے ذریعہ جس کا بدیہی طورپرثبوت ہو، جس میں خاص وعام کی معرفت برابر ہو۔(ایسا منقول امردینی ضروری دینی ہے)

منقولہ بالا تعریف میں خواص اور عوام سے کون حضرات مراد ہیں۔اس کی متعدد توضیحات ہیں۔ایک قول یہ ہے کہ خواص سے حضرات ائمہ مجتہدین مرادہیں اور صحبت یافتہ عوام سے حضرات ائمہ مجتہدین کے تلامذہ اور تلامذہ کے تلامذہ مراد ہیں۔

عوام وخواص کے متعدد معانی ہیں، مثلاً حضرات انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃوالسلام کے بالمقابل تمام غیر انبیا عوام ہیں۔حضرات اولیائے کرام علیہم الرحمۃوالرضوان کے بالمقابل تمام غیر اولیا عوام ہیں۔ حضرات ائمہ مجتہدین علیہم الرحمۃوالرضوان کے بالمقابل تمام غیر مجتہدین عوام ہیں۔

ضروریات دین کی تعریف میں خواص سے حضرات ائمہ مجتہدین رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین مراد ہیں اور صحبت یافتہ عوام سے غیر مجتہد فقہا وعلمامراد ہیں۔

علامہ عبد العزیز ملتانی (1206-1239ھ)نے ایمان کی مشہو ر تعریف کی تشریح میں رقم فرمایا:
((ہو التصدیق بما جاء بہ الرسول من عند اللّٰہ تعالٰی)
(ای تصدیق النبی علیہ الصلوۃ والسلا م بالقلب)قید بہ،لان العامۃ قد یسمون الاقرار تصدیقًا(فی جمیع ما علم بالضرورۃ)

قیل:اراد بالضرورۃ مایقابل الاستدلال-فالضروری کالمسموع من فم رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم-او المنقول عنہ بالتواتر- کالقرآن والصلوات الخمس وصوم رمضان وحرمۃ الخمر والزنا۔
والاستدلالی……

وقیل:اراد بالضرورۃ الاشتہار بین الخاصۃ والعامۃ-ضروریا کان الحکم او استدلالیا-واورد علیہ انہ یلزم عدم تکفیر من ینکر الحکم القطعی الغیر المشتہر بین العامۃ-کحد القذف-وقد یجاب بتفسیر الخاصۃ بالمجتہدین والعامۃ بسائر العلماء۔
وکتب الشارح علی ہوامش الکتاب:ان المراد بالضرورۃ الیقین- فلا یکفر بانکار الظنی کالثابت بالاجتہاد او خبر الواحد)
(النبراس شرح شر ح العقائدص531-مکتبہ یاسین استنبول ترکی)

منقولہ بالا عبارت کا درج ذیل اقتباس محل استدلال ہے:

(وقیل:اراد بالضرورۃ الاشتہار بین الخاصۃ والعامۃ-ضروریا کان الحکم او استدلالیا-واورد علیہ انہ یلزم عدم تکفیر من ینکر الحکم القطعی الغیر المشتہر بین العامۃ-کحد القذف-وقد یجاب بتفسیر الخاصۃ بالمجتہدین والعامۃ بسائر العلماء)

ترجمہ:کہا گیا کہ”ضرورت“ سے خواص وعوام کے درمیان مشہور ہونا مراد ہے۔وہ حکم بدیہی ہو یا استدلالی۔اس پراعتراض کیا گیا کہ اس سے اس کی عدم تکفیر لازم آتی ہے جو عوام کے درمیان غیر مشہور،قطعی حکم کاانکار کرے، جیسے حد قذف۔ اس اعتراض کا جواب دیا جاتا ہے،خواص کی تفسیر مجتہدین کے ذریعہ اور عوم کی تفسیر جملہ علماکے ذریعہ بیان کرکے۔

توضیح:منقولہ بالا اقتباس سے واضح ہو گیا کہ ضروریات دین کی تعریف میں خواص سے حضرات ائمہ مجتہدین رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین مراد ہیں،اور عوام سے غیر مجتہد علما مراد ہیں۔

در اصل حضرات ائمہ مجتہدین نے ہی امت مسلمہ کو شرعی مسائل کی تفصیلی معلومات فراہم کیں۔ان نفوس عالیہ نے اپنی حیات مستعار کو دین خداوندی کی خدمت کے لیے وقف کردیا۔امت مسلمہ کو جن مسائل کی ضرورت درپیش ہوسکتی تھی،ان مسائل کو قرآن وحدیث اور قیاس واستنباط کے ذریعہ حل فرمایا۔

ان حضرات عالیہ نے مسائل بھی بتائے اور مسائل کے مراتب ودرجات بھی بیان فرمائے کہ یہ فرض ہے،یہ واجب۔یہ سنت ہے،یہ مستحب۔یہ حرام ہے،یہ مکروہ تحریمی، یہ مکروہ تنزیہی وغیرہ۔ جو احکام ومسائل ضروریات دین میں سے تھے، ان کو بھی انہوں نے واضح فرمایا۔فرض قطعی اور حرام قطعی ضروریات دین میں سے ہیں۔

قرون اولیٰ میں علم کلام اور علم فقہ دومستقل اور جداگانہ علم نہ تھے،بلکہ علم فقہ میں علم کلام اورعلم تصوف شامل تھے۔علم فقہ سے علم فقہ وکلام وتصوف تینوں مراد ہوتے تھے۔
حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے علم عقائدمیں جورسالہ رقم فرمایا،اس کا نام ”الفقہ الاکبر“ہے۔اس زمانے میں علم کلام بھی علم فقہ کا ایک حصہ تھا۔

حضرت امام ابومنصور ماتریدی (238-333ھ)نے اعتقادی مسائل کی تحقیق وتنقیح میں حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے طریق کار کو اپنایا۔

حضرت امام ابوالحسن اشعری (260-324ھ)نے امام شافعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے طرز تحقیق کو اختیار فرمایا۔یہ دونوں ائمہ کرام، علم کلام کے امام ہیں۔امام ابومنصورماترید ی باب فقہ میں حضرت امام اعظم ابوحنیفہ علیہ الرحمۃوالرضوان کے مقلد تھے اور امام ابوالحسن اشعری باب فقہ میں حضرت امام شافعی علیہ الرحمۃ والرضوان کے مقلد تھے۔

صحبت یافتہ عوام سے کون حضرات مراد ہیں؟

ضروریات دین کی مذکورہ تعریف میں صحبت یافتہ عوام سے وہ علمائے اسلام مراد ہیں جوحضرات ائمہ مجتہدین کے صحبت یافتہ ہوں۔خواہ براہ راست ان کے صحبت یافتہ ہوں،یا ان کے صحبت یافتگان کے صحبت یافتہ ہوں۔ صحبت وتربیت کی وضاحت مندرجہ ذیل ہے۔

عرف عام میں صحبت سے یہی مرادہے کہ کسی کے ساتھ نشست وبرخاست کی جائے۔اپنا کچھ وقت کسی کی معیت میں گزاراجائے۔خواہ اس صحبت ومعیت کا مقصد کچھ بھی ہو۔
ضروریات دین کی منقولہ بالا تعریف میں خواص کی صحبت ومعیت سے مرادعلمی تربیت اورتحقیقی مشق ومزاولت ہے۔یہ بات روشن بدیہیات میں سے ہے کہ ضروریات دین کی معرفت اور غیر ضروریات سے ضروریات دین کی تمیز اسی وقت حاصل ہوگی،جب اس امر کی تربیت اوراس کی مشق ومزاولت ہو۔علمی صحبت کا مفہوم مندرجہ ذیل ہے۔

مسئلہ: کیافرماتے ہیں علمائے دین اس باب میں کہ اگرکوئی شخص جس نے سوائے کتب فارسی اور اردو کے جوکہ معمولی درس میں پڑھی ہوں،اور اس نے کسی مدرسہ اسلامیہ یاعلمائے گرامی سے کوئی سند تحصیل علم نہ حاصل کی ہو۔ اگر وہ شخص مفتی بنے،یا بننے کا دعویٰ کرے،اور آیات قرآنی اور احادیث کو پڑھ کر اس کاترجمہ بیان کرے،اور لوگوں کو باور کرائے کہ وہ مولوی ہے تو ایسے شخص کاحکم یافتویٰ اور اقوال قابل تعمیل ہیں یانہیں،اور ایسے شخص کاکوئی دوسرا شخص حکم نہ مانے توا س کے لئے شریعت میں کیاحکم ہے؟

الجواب: سندکوئی چیز نہیں۔ بہتیرے سندیافتہ محض بے بہرہ ہوتے ہیں اور جنہوں نے سند نہ لی،اُن کی شاگردی کی لیاقت بھی ان سندیافتوں میں نہیں ہوتی۔ علم ہوناچاہئے اور علم الفتویٰ پڑھنے سے نہیں آتا، جب تک مدتہا کسی طبیب حاذق کا مطب نہ کیاہو۔

مفتیان کامل کے بعض صحبت یافتہ کہ ظاہری درس وتدریس میں پورے نہ تھے، مگر خدمت علمائے کرام میں اکثر حاضررہتے اور تحقیق مسائل کا شغل ان کا وظیفہ تھا۔ فقیر نے دیکھاہے کہ وہ مسائل میں آج کل کے صدہا فارغ التحصیلوں، بلکہ مدرسوں، بلکہ نام کے مفتیوں سے بدرجہا زائد تھے، پس اگر شخص مذکور فی السوال خواہ بذات خود خواہ بفیض صحبت علمائے کاملین علم کافی رکھتاہے۔جو بیان کرتاہے، غالباً صحیح ہوتاہے۔اس کی خطا سے اس کا صواب زیادہ ہے تو حرج نہیں،اور اگردونوں وجوہِ علم سے عاری ہے۔ صرف بطور خوداردو،فارسی کتابیں دیکھ کر مسائل بتائے اور قرآن وحدیث کا مطلب بیان کرنے پر جرأت کرتاہے تو یہ سخت اشدکبیر ہ ہے،اور اس کے فتویٰ پرعمل جائزنہیں،اور نہ اس کا بیان حدیث وقرآن سننے کی اجازت۔

حدیث میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں:اجرأکم علی الفتیا اجرأکم علی النار۔تم میں جو شخص فتویٰ دینے پر زیادہ جرأت رکھتا ہے، وہ آتش دوزخ پر زیادہ دلیر ہے۔

اور ارشاد فرمایا:صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے:من قال فی القراٰن برایہ فاصاب فقد اخطاء۔جس نے قرآن کے معنی اپنی رائے سے بیان کئے، اس نے اگرٹھیک کہے تو غلط کہے۔

اور فرماتے ہیں:صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم:من قال فی القراٰن بغیرعلم فلیتبؤ مقعدہ من النار۔جو بغیر علم کے قرآن کے معنی کہے،وہ اپنا ٹھکانا دوزخ میں بنالے۔ والعیاذ باللہ تعالیٰ، واللہ تعالیٰ اعلم۔(فتاویٰ رضویہ:جلد نہم:جز اول:ص 231-رضا اکیڈمی ممبئ)

توضیح:منقولہ بالا فتویٰ میں مرقوم ہے کہ علم فتویٰ پڑھنے سے نہیں آتا،بلکہ جس طرح طبابت اسی وقت آتی ہے،جب طبیب حاذق کے پاس مشق وممارست کیا ہو۔اسی طرح علمائے کرام کی صحبت میں رہنے والے کا مشغلہ تحقیق مسائل ہو،تب ان کوفتویٰ نویسی آئے گی۔اگر لوگ علما ئے کرام وفقہائے عظام کی خدمت میں بیٹھے رہیں اور تحقیق مسائل ان کا شغل نہ ہو تو ان کو فتویٰ نویسی نہیں آسکتی۔فتویٰ مذکورہ کا درج ذیل اقتباس بغور پڑھیں۔

”مفتیان کامل کے بعض صحبت یافتہ کہ ظاہری درس وتدریس میں پورے نہ تھے، مگر خدمت علمائے کرام میں اکثر حاضررہتے اور تحقیق مسائل کا شغل ان کا وظیفہ تھا۔ فقیر نے دیکھاہے کہ وہ مسائل میں آج کل کے صدہا فارغ التحصیلوں، بلکہ مدرسوں، بلکہ نام کے مفتیوں سے بدرجہا زائد تھے“۔(فتویٰ سابق)

امام الائمہ اپنے استاذفقہ کی صحبت میں

حضرت امام اعظم رضی اللہ عنہ دس سال تک حضرت امام حماد بن ابی سلیمان رضی اللہ عنہ کے پاس فقہ اسلامی کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد کوفہ سے بصرہ چلے گئے-پھرواپس آکر آٹھ سال تک حضرت حماد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس فقہ کی تعلیم میں مشغول رہے۔

اس طرح آپ کل اٹھارہ سال تک اپنے استاذ فقہ امام حماد بن ابی سلیمان رضی اللہ عنہ (م ۰۲۱؁ھ) کی خدمت میں رہے۔حضرت حمادبن ابی سلیمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعدآپ ان کے جانشین بنائے گئے۔

حافظ ذہبی وخطیب بغدادی نے تحریرفرمایا:(قال احمد بن عبد اللّٰہ العجلی حدثنی اَبِی قال:قال ابوحنیفۃ:قدمتُ البصرۃ فظننت انی لا اُسأَلُ عن شیء الا اَجَبتُ فیہ-فَسَأَلُونی عن اشیاء،لم یکن عندی فیہا جواب-فجعلت علٰی نفسی انی لا اُفَارِقُ حمادًا حتّٰی یموت-فَصَحِبتُہٗ ثمانی عشرۃَ سَنَۃً)
(سیر اعلام النبلاء:ج6 ص398-تاریخ بغداد ج13ص333)

ترجمہ: حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ میں بصرہ آیاتو میں نے خیال کیا کہ مجھ سے جس چیز کے بارے میں بھی سوال کیا جائے گا،میں اس کا جواب دوں گا،پس لوگوں نے مجھ سے چند چیزوں کے بارے میں سوال کیا،جن کے بارے میں کوئی جواب میرے پاس نہیں تھاتو میں نے اپنے اوپر لازم کرلیا کہ میں حضرت حماد بن ابی سلیمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جدا نہیں ہوں گا، یہاں تک کہ ان کی وفات ہوجائے،پس میں اٹھارہ سال ان کی صحبت میں رہا۔

امام حماد بن ابی سلیمان کی جا نشینی

حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ دس سال تک حضرت امام حمادرضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس علم فقہ حاصل کرتے رہے۔دس سال بعدحضرت امام حمادبن ابی سلیمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی حیات مبارکہ میں حضرت امام اعظم ابوحنیفہ قدس سر ہ العزیزکو اپنا جانشین مقررفرماکرکسی ضرورت کے سبب دوماہ کے لیے بصرہ تشریف لے گئے۔

خطیب بغدادی نے رقم فرمایا:(فجاۂ فی تلک اللیلۃ نعی قرابۃ لہ قد مات بالبصرۃ وترک مالًا و لیس لہ وارثًا غیرہ فامرنی ان اجلس مکانہ فما ہو الا ان خرج حتّٰی وردت عَلَیَّ مسائل لم اسمعہا منہ-فکنت اجیب واکتب جوابی فغاب شہرین ثم قدم فعرضت علیہ المسائل و کانت نحوًا من ستین مسألۃ فوافقنی فی اربعین وخالفنی فی عشرین واٰلیت علٰی نفسی ان لا افارقہ حتی یموت فلم افارقہ حتّٰی مات)
(تا ریخ بغداد ج13ص333-مکتبہ شاملہ)

ترجمہ:پس اسی رات کوان کے پاس ان کے ایک رشتہ دار کی موت کی خبر آئی،وہ بصرہ میں انتقال کئے تھے اورانہوں نے مال چھوڑاتھا اورامام حماد کے علاوہ ان کا کوئی وارث نہیں تھا،پس انہوں نے مجھے حکم دیا کہ میں ان کی جگہ بیٹھوں،پھروہ بصرہ چلے گئے،یہاں تک کہ مجھ سے کچھ مسائل دریافت کئے گئے جنہیں میں نے ان سے نہ سنا تھاتو میں جواب دیتا اور اپنا جواب لکھ لیتا،پس وہ دوماہ غیر حاضر رہے،پھرکوفہ آئے تومیں نے ان کے پاس وہ مسائل پیش کئے اور وہ قریبا ً ساٹھ مسائل تھے۔ انہوں نے چالیس مسائل میں میری موافقت فرمائی اور بیس مسائل میں میری مخالفت کی،پس میں نے اپنے اوپر قسم کھایا کہ میں ان سے جدا نہ ہوں گا، یہاں تک کہ ان کی وفات ہوجائے،پس میں ان سے جدا نہ ہوا، یہاں تک کہ ان کی وفات ہوگئی۔

توضیح:حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اٹھارہ سال تک اپنے استاذ فقہ حضرت شیخ فقیہ حمادبن ابی سلیمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں علم فقہ کی مشق وممارست فرماتے رہے۔صحبت ومعیت سے علمی تربیت اور مشق ومزاولت مراد ہے۔

الحاصل مذکورہ بالا تشریحات سے واضح ہوگیا کہ ضروریات دین کی مذکورہ تعریف میں خواص سے حضرات ائمہ مجتہد ین اور عوام سے ان کے صحبت یافتہ علمائے کرام مراد ہیں۔ عہد حاضر کے علما ئے کرام گرچہ حضرات ائمہ مجتہدین کے براہ راست صحبت یافتہ نہیں،لیکن سلسلہ درسلسلہ حضرات ائمہ مجتہدین کے صحبت یافتگان کے صحبت یافتہ اورتربیت یافتہ ہیں۔

ضروریات دین کی منقولہ بالا تعریف میں صحبت سے علمی صحبت مرادہے۔ ضروریات دین کا ملکہ اسی وقت حاصل ہوگا، جب ضروریات دین کے بارے میں مشق ومزاولت ہو۔

جس طرح فن حدیث کی مشق وممارست سے علم فقہ میں کمال حاصل نہیں ہوسکتا۔فن فقہ کی مشق ومزاولت سے علم عقائدمیں مہارت حاصل نہیں ہوسکتی۔اسی طرح دیگر امور کی مشق وممارست سے ضروریات دین کی معرفت اور اس کی تمیز حاصل نہیں ہوسکتی۔

منقولہ بالا تعریف میں مذکور لفظ خواص وعوام کے دیگر معانی بھی علمائے اسلام نے بیان فرمائے ہیں،لیکن کسی نے بھی بالکل جاہل عوام کو مذکورہ ”عوام“میں شامل نہیں فرمایا۔
عہد حاضر میں بھی عوام مسلمین کا ایک طبقہ علمائے کرام ومشائخ عظام کی صحبت ومعیت میں رہتا ہے، لیکن ان میں سے بہت کم لوگ حصول علم دین کی نیت سے علما ومشائخ کی صحبت وخدمت میں رہتے ہیں۔اکثر عوام محض اس مقصد سے علماوصالحین سے ربط وتعلق اور ان کی خدمت وصحبت میں رہتے ہیں کہ انہیں دین ودنیا کی برکتیں حاصل ہوں۔یہ بھی مقصدخیر ہے، لیکن ایسے صحبت یافتہ عوام کو مذکورہ بالا تعریف میں وارد شدہ لفظ ”عوام“کے ضمن میں شا مل نہیں کیا جا سکتا۔ایسے عوام فیض یافتہ ضرور ہیں،لیکن یہ لوگ علمی تربیت حاصل نہ کرسکے۔

عہد ماضی میں حضرات اولیائے کرام علیہم الرحمۃ والرضوان کی خدمت وصحبت میں بھی دوقسم کے مریدین وطالبین حاضر رہتے۔بعض نفوس عالیہ ان مشائخ عظام کی تربیت ورہنمائی میں راہ سلوک کی منز لیں طے کرتے اور بعض مریدین محض حصول برکت کے واسطے حضرات اولیائے کرام قدست اسرارہم کی خدمتوں میں حاضر رہتے۔ اس اعتبارسے بیعت کی بھی دوقسم ہوگئی۔بیعت سلوک اور بیعت برکت۔جو جس قصد سے حاضر ہوا،وہی پایا۔

از قلم: طارق انور مصباحی

جاری کردہ:27:جولائی 2021

مزید پڑھیں

مرکز ہدایت کی طرف اہل حق کو آنے دو

جن کی روحیں طیبہ میں گشت لگاتی ہیں

صالح رسم ورواج کی حیات جاودانی

اسلامیان ہند کے قلیل التعداد طبقات

برصغیر میں اہل سنت وجماعت کون؟

عید غدیر کی حقیقت

اعلیٰ حضرت مخالفین کی نظر میں

شیئر کیجیے

Leave a comment