ارتداد کا معنی، حکم ، اسباب اور حل کے طریقے
از قلم:- محمد عبدالرحمن القادري الرضوي المصباحي
نحمده و نصلي على رسوله الكريم…
اما بعد…
فأعوذ بالله من الشيطان الرجيم بسم الله الرحمن…
میرے عزیز ساتھیو!
آج ہم ایک ایسے نہایت ہی اہم اور سلگتے ہوئے موضوع پر گفتگو کرنے جا رہے ہیں جس کی ناری تپش سے صرف ہم اور آپ نہیں بلکہ پورا بر صغیر۔چمنستان غریب نواز۔تپ رہا ہے، یہ ایسی آگ ہے جس کی نہ تھمنے والی لپٹوں سے دل و روح جل رہے ہیں، اور انکے کوئلے کا بخار عیون مسلم سے مثل ماے حمیم ارض اشرف الاجسام پر رواں دواں ہے۔
میرے عزیزو!۔۔
تو ذرا غور کریں جس سنگ دل ہوا کے ایسے اثرات ہوں کہ جس سے ہنستا کھیلتا ،موسم بہار کا سر سبز و شاداب چمن، عرب کا خشک ریگستان ہو جائے ؛وہ امت مرحومہ کے قلوب و اذہان پر، انکے ذہن و فکر پر ،سماج، تہذیب و تمدن ،ثقافت و رواج پر کیسے سنگین اثرات مرتب کرے گی آپ اس کا اندازہ بخوبی لگا سکتے ہیں۔
میرے عزیز ساتھیو! ۔۔۔
اس مختصر سی تمہید سے آپ یقینا سمجھ گئے ہوں گے کہ موجودہ وقت میں سر زمین ہند میں کون سا ایسا سنگین فتنہ ہے، کون سا نہ رکنے والا طغیانی سیلاب ہے جس کی طغیانی لہروں میں ہر دن کسی نہ کسی کا آشیانہ بہہ رہا ہے جس کی وجہ سے کم از کم ایک پڑھے لکھے ذی شعور مسلمان کا دل ماتم کدہ بنا ہوا ہے۔
ہاں تو دل تھام کر سننا میرے عزیز ساتھیوں ،اس فتنے سے میری مرآد ۔فتنہ ارتداد۔ ہے۔
آئیے سب سے پہلے ہم جانے کہ ارتداد کیا ہے؟اسکے معنی کیا ہیں؟اس کا فتنہ کیسا ہے؟ پھر اس کے اسباب اور حل پر اپنے ناقص علم کے مطابق گفتگو کروں گا۔ ان شاءاللہ عزوجل
ارتداد کا لغوی معنی
ارتداد کے لغوی معنی ہیں________ "التراجع” يعني لوٹنا، پلٹنا، واپس ہونا،پھرنا_____ تو ارتداد عن الدین کے معنی ہوے____التخلي ، الرجوع عنه۔۔۔ بے دین ہونا ،دین سے پھرنا، دین سے پلٹنا۔
تو اب مرتد کے اصطلاحی معنی ہوے "مرتد وہ شخص ہے کہ اسلام کے بعد کسی ایسے امر کا انکار کرے جو ضروریات دین سے ہو یعنی زبان ایسا صریح کلمہ کفر بکے جس میں تاویل صحیح کی گنجائش نہ ہو، یونہی بعض الفاظ بھی ایسے ہوتے ہیں جن سے کافر ہو جاتا ہے۔مثلا بت کو سجدہ کرنا، مصحف شریف کو نجاست کی جگہ پھینک دینا۔(در مختار، ج 6، ص 344، کتاب الجھاد، باب المرتد )
یعنی اسلام کا کلمہ پڑھ کر جو مسلمان ہو جائے اور اسکے بعد کلمہ کفر کہے یا فعل کفر کرے اور اس پر قائم رہے۔ایسے شخص کو مرتد کہتے ہیں۔
یونہی جو شخص بطور مزاق یا ٹھٹے کے کفریہ کلمہ زبان سے بکے یا فعل کفر کرے گا وہ بھی مرتد ہے اگرچہ کہتا ہے کہ ایسا اعتقاد نہیں۔(درمختار، کتاب الجھاد، باب المرتد، ج 6، ص 343)۔
میرے عزیز ساتھیو!!
یہ بات ہر ذی شعور پر اچھی طرح سے واضح ہے کہ دین و شریعت مزاق کے لئے نہیں بلکہ نہایت ہی ادب و احترام اور عقیدت و محبت کے ساتھ اس پر ثابت قدم رہنے کے لئے ہے۔
میرے پیارے دوستوں اور ساتھیوں ذرا دل تھام کر بیٹھے کہ اب ہم بات آگے بڑھاتے ہیں۔
محترم ساتھیو!!
اب ذرا دیکھیں کہ ایسے فعل مذموم اور حرکت مردود کے تعلق سے ہمارا رب کریم ۔جل جلالہ۔وحدہ لا شریک لہ ۔کیا فرماتا ہے۔
مرتد کے انجام اور اسکی سزائے ابدی کے تعلق سے رب تبارک و تعالٰی ارشاد فرماتا ہے " و من يرتد منكم عن دينه فيمت و هو كافر فاؤلئك حبطت اعمالهم في الدنيا والآخرة و أولئكأصحاب النار هم فيها خالدون "،قرآن کریم، پارہ 2، البقرة، ايت 217)
‘تم میں جو کوئی اپنے دین سے مرتد ہو جائے اور کفر کی حالت میں مرے اسکے تمام اعمال دنیا و آخرت میں رائگاں ہیں، اور وہ لوگ جہنمی ہیں، اس میں ہمیشہ رہیں گے۔
یعنی جو شخص اسلام سے پھر کر کفر کو اختیار کرے اور حالت کفر میں مر جائے تو اسکے تمام اعمال، جو کچھ بھلائی کی ہے دنیا و آخرت دونوں جگہوں میں سب برباد ہو جائیں گے، کچھ بھی قابل قبول نہ ہوں گے، اور مرنے کے بعد آخرت میں ان کا ٹھکانہ جہنم ہوگا جس میں انہیں ہمیشہ و ہمیش رہنا ہوگا اس انکو خلاصی نہیں۔
میرے عزیز دوستو!!
اس آیت کریمہ سے پتا چلا کہ دین بر حق اسلام ہی ہے تب تو اس سے پھرنے کی اتنی سزا ہے، لہذا مرتدین کے لئے دنیا و آخرت میں کچھ بھی جیر نہیں بلکہ ان اللہ کا قہر و غضب ہے، اور بد ترین ٹھکانہ انکی آخری منزل ہے۔
دوسری جگہ اللہ تعالٰی ارشاد فرماتا ہے "يا أيها الذين آمنوا من يرتد منكم عن دينه فسوف يأتي الله بقوم يحبهم و يحبونه اذلة علي المؤمنين اعزة علي الكافرين يجاهدون في سبيل الله ولا يخافون لومة لائم ذلك فضل الله يؤتيه من يشاء والله واسع عليم ".پارہ 6۔المائدہ:54۔
‘اے ایمان والو!تم میں سے جو کوئی اپنے دین سے مرتد ہو جائے تو عنقریب اللہ تعالٰی ایسی قوم لاے گا جو اللہ تعالٰی کو محبوب ہوگی اور وہ اللہ تعالٰی کو محبوب رکھے گی، مسلمانوں کے سامنے نرم اور کافروں پر سخت ہوگی، وہ لوگ اللہ تعالٰی کی راہ میں جہاد کریں گے، کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں گے، یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہتا ہے دیتا ہے اور وسعت والا علم والا ہے ‘
آیت کریمہ سے ہمیں کئی باتیں معلوم ہوتی ہیں، پہلی بات تو یہ کہ جب تک ہم دین پر قائم رہیں گے تب تک ہی حقیقتا ہماری بقا ہے اگر خدانخواستہ شامت نفس دین بر حق سے کوئی مرتد ہو جائے تو اللہ تعالٰی اس پر قادر ہے کہ اپنے محبوب فرما برداروں کی نئی قوم پیدا فرمائے ، یعنی وہ رب العزت ہم سے بے نیاز ہے، ہاں ہم ضرور بالضرور اس رب ذوالجلال کے ہر حال میں محتاج ہیں۔
دوسرے یہ کہ اللہ تبارک و تعالٰی انہیں ہی محبوب رکھتا ہے جو جو اسکے دین پر قائم رہتے ہیں اور اسکے فرمابردار ہوتے ہیں نہ کہ وہ جو اس کی نافرمانی کرتے ہوئے دین سے دنیا کی گندی ہوس اور قبیح محبت میں پھر جاتے ہیں۔اور محبوبیت دین پر قائم رہنے میں ہے نہ کہ پھر جانے میں۔
تیسرے یہ کہ اللہ تبارک و تعالٰی کے محبوبوں کی یہ صفت ہے کہ وہ مسلمانوں سے محبت کرنے والے، آپس میں اتحاد و اتفاق قائم رکھنے والے ہوں گے، اور کافروں سے دور رہنے، ان سے نفرت کرنے والے اور ان سخت ہوں گے۔تو اے میرے عزیز ساتھیو! پتا چلا کہ مسلمانوں سے آپس میں محبت کرنا، ان سے گفتگو میں نرم لہجہ اور شریں زبان ہونا اور متحد رہنا، اور کافروں سے دور رہنا، دل میں ان کے لئے نفرت رکھنا۔غیرت ایمانی کی وجہ سے جو کفر سے ہر مؤمن کو ہوتی ہے۔اللہ تبارک و تعالٰی کی رضا کا ذریعہ اور سبب ہے۔
اب ذرا غور کریں میرے عزیز ساتھیو! جب کافر اصلی کے ساتھ مومنین کو اس طرح کے معاملے کا حکم ہے تو مرتد جو احکام میں کافر اصلی سے زیادہ سخت ہے اس کے ساتھ معاملات کا کیا حکم ہوگا، یقینا ہم کو ان سے اور بھی دور رہنا ہوگا، دلوں میں انکے لئے اور بھی زیادہ نفرت لازمی ہے کہ وہ راہ حق پا کر اللہ تعالٰی و رسول اکرم صلی اللہ تعالی علیہ والہ و صحبہ و بارک و سلم کے دشمن اور دین حق کے باغی ہوے،ان پر اور بھی سخت رہنا ہوگا۔
میرے عزیز ساتھیو! آپ یہ بات بخوبی سمجھ رہے ہوں گے کہ ایک وہ شخص جو دین بر حق اسلام میں داخل ہو ،پھر اپنے رب کی نعمتوں کا نا شکرا ہو کر دین سے مرتد ہو جائے اس کا کیا اعتبار کہ وہ آپ کے ساتھ وفادار ہوگا ،آپ کو دھوکہ نہ دے گا اور آپ کا ساتھ نہ چھوڑے گا۔یقینا کیوں نہیں ،بالکل ،ضرور بالضرور جو اپنے رب کے دین سے غداری کر سکتا ہے وہ آپ کے ساتھ غداری ضرور کرے گا۔
اور چوتھے یہ کہ اللہ تبارک و تعالٰی کے محبوبین کی یہ شان ہے کہ وہ دین حنیف کے تحفظ اور شریعت مطھرہ کی اتباع میں کسی باد مخالف اور ملامتی کی ملامت و مخالفت کی ہرگز پرواہ نہیں کریں گے، بلکہ وہ ہمیشہ شریعت غرہ کی ہی اتباع کریں گے۔
ہاں تو میرے عزیزو! اب یہی وقت ہے کہ خدمت دین مبین میں ہمیں کسی معروف و مجہول کی پروا نہیں کرنی ہے بلکہ ہمیں صرف اور صرف اللہ و رسول۔عز و جل،صلی اللہ تعالی علیہ والہ و صحبہ و بارک و سلم۔کی رضا کے خاطر کرنا ہے۔ہمیں کسی نرم وسخت کو نہیں دیکھنا ہے ہمیں صرف اور صرف محمد رسول اللہ ۔صلی اللہ تعالی علیہ والہ و صحبہ و بارک و سلم۔ کی شریعت کو دیکھنا ہے۔
میرے عزیز قارئین کرام! جب آپ نے ارتداد اور مرتدین کے بارے میں اختصارا جان لیا تو اب ہم دیکھتے ہیں کہ اس فعل بد کرنے والے دین حنیف کے غدار کے بارے میں ہماری مبارک شریعت ہمیں کیا حکم دیتی ہے۔ اس تعلق سے ہماری شریعت یہ حکم صادر فرماتی ہے کہ مرتد پر اسلام پیش کرنا مستحب ہے، اگر قبول کرے یعنی توبہ کر کے پھر سے اسلام میں داخل ہو جائے تو فبھا ورنہ اسکو قتل کر دیا جائے گا۔در مختار، کتاب الجھاد، باب المرتد، مطلب۔الإسلام يكون بالفصل، ج 6، ص 353۔
کیونکہ اگر ایسے انسان کو قتل نہ کیا جائے تو خواہ مخواہ ملک میں
فتنہ فساد مچاے گا اور امن و آمان کو خراب کرے گا، لہذا اسکو قتل کرنا ہی مقتضائے حکمت ہے۔ بہار شریعت، حصہ 9، مرتد کا بیان۔
۔ارتداد کے اسباب۔
ارشاد باری تعالٰی ہے "يا أيها الذين آمنوا لا تتخذوا بطانة من دونكم لا يالونكم خبالا ودوا ما عنتم قد بدت البغضاء من افواههم "سورہ آل عمران، آیت 118۔
۔اے ایمان والو! غیروں کو اپنا راز دار نہ بناؤ وہ تمہاری بربادی میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔انہیں وہی چیز پسند ہے جس سے تمہیں تکلیف پہچے،تحقیق کہ ان انکی دشمنی ان کے منھ سے ظاہر ہوگی۔۔۔
محترم قارئین کرام! اگر ہم مذکورہ آیت کریمہ میں غور کریں تو یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ ارتداد کی ایک بہت ہی اہم وجہ غیر مسلموں سے اختلاط،ان سے دوستی، ان سے محبت اور ان کو اپنا رازدار بنانا ہے۔لفظ۔اختلاط۔ بہت ہی با معنی ہے،اگر ہم غایت نظر سے دیکھیں تو یہ سمجھنا زیادہ مشکل نہیں ہوگا کہ ارتداد کی سب سے اہم وجہ غیر مسلموں کے ساتھ تعلقات، اور میل ملاپ رکھنا ہے۔
ہاں یہ الگ بات ہے کہ یہ اختلاط الگ۔ الگ جگہوں پر الگ۔ الگ صورتوں میں ہے، لیکن ہے اختلاط ہی۔مثلا ان کے ساتھ اٹھنے، بیٹھنے،کھانے، پینے میں اختلاط، ان کا مسلموں اور مسلمانوں کا انکے گھر آنے جانے میں اختلاط، بلا کسی جھجھک کے ہمارے نوجوانوں کا ان کے ساتھ دوستی کرنے، اور بات چیت، ہنسی مذاق کرنے میں اختلاط، کسی بھی طرح کے دنیوی فنکشن میں ان کا اختلاط، اسکول اور کالجس کی تعلیم میں مسلم بچے، بچیوں کا غیر مسلم بچے، بچیوں سے اختلاط، تہذیب و تمدن، ثقافت بلکہ بعض مذہبی امور میں بھی انکے ساتھ اختلاط وغیرہ ان میں ہر جگہ اختلاط ہی ہے اگر چہ صورت الگ ہوں مگر ہے اختلاط ہی اور غیروں کے ساتھ اسی اختلاط سے اللہ تبارک و تعالٰی نے منع فرمایا ہے کیونکہ یہ ہمارے لئے بہت ہی خطرناک ہے بلکہ دین و ایمان کے سلب کا ذریعہ بھی ہے، کیونکہ اگر ہمارے نوجوان ان کے ساتھ کسی طرح کے غیر ضروری رابطے نہ رکھیں تو ہرگز ان سے نہ متاثر ہوں گے اور نہ ہی دین و ایمان کے سلب ہونے کا خطرہ بنے گا۔۔۔۔
آپ غور کریں تو یہ بات بہت واضح ہو جائے گی کہ انہی جگہوں پر مسلم نوجوان بچے، بچیوں کا غیر مسلموں کے ساتھ اختلاط آگے چل کر ارتداد کا سبب ثابت ہوتا ہے۔
میرے عزیز ساتھیو!۔۔۔
غور کریں، خود اللہ تبارک و تعالٰی نے فرمایا کہ غیر مسلم، مسلمانوں کی بربادی ہی کے خواہاں ہیں اور ہماری تکلیف ہی کے متمنی ہیں۔تو بھلا وہ ہمارے دوست کیسے ہو سکتے ہیں۔بربادی کیا ہے یہی تو کہ پہلے گندگی محبت کے جھانسے میں دین سے مرتد کرواتے ہیں نتیجتا گھر، خاندان، رشتے دار اور پوری قوم سے اس کا بائیکاٹ ہوتا ہے، پھر خود بھی بے یار و مددگار چھوڑ کر فرار ہو جاتے ہیں، اب اس کے بعد اس کے پاس بس دو ہی راستے ہوتے ہیں یا تو خود کشی کر لے یا تو پھر روڈ پر بھیک مانگے، اور تکلیف کیا ہے یہی تو کہ مرتد ہو کر دنیا کی مشقت اور آخرت کے ابدی عذاب میں گرفتار ہوتا ہے، تو رب تبارک و تعالٰی نے ارتداد کا سبب ، حکم ،انجام اور بچنے کے طریقے سب کچھ بیان کر دے۔فتدبروا یا اولي الالباب۔۔۔۔
غور کریں اگر ان کو تم سے سچی محبت ہوتی تو یہ خود اپنا باطل دین چھوڑ کر آپکے دین بر حق میں داخل ہوتے نہ کہ آپ کو مرتد ہونے پر مجبور کرتے، پیارو! مطلوب کی طلب میں قربانی عاشق دیتا ہے نہ کہ معشوق!
اور اللہ تبارک و تعالٰی نے فرمایا۔۔ لا تتخذوا المؤمنون الكافرين أولياء من دون المؤمنين ۔۔۔آل عمران، آیت 28۔
۔مومنین کے لئے جائز نہیں کہ مومنین کو چھوڑ کر کافروں سے دوستی کریں۔۔، کیونکہ ان کی دوستی بہت خطرناک ثابت ہو رہی ہے جیسا کہ مشاہدہ ثابت ہے۔
ارتداد کے اسباب
1۔ کم علمی اور جہالت، دین کا صحیح علم نہ ہونا۔
2۔ دین سے دوری،باصلاحیت اور صاحب اثر علماء و مشائخ سے رابطے بالکل نہ رکھنا۔
3۔ گھروں میں دینی ماحول کا نہ ہونا۔
4۔ غیر مسلموں کے رسم و رواج طور، طریقے اور انکی تہذیب و تمدن کا تیزی سے مسلم معاشرے میں بڑھنا۔
5۔ بلا جھجھک غیر مسلموں سے اختلاط انکے ساتھ غیر ضروری تعلق اور رابطے رکھنا، انکے ساتھ اپنی باتیں شئر کرنا، انکے مختلف کاموں میں آنا جانا اور انکا بھی مسلمانوں کے گھر بلا روک ٹوک آنا جانا۔ارتداد کا یہ وہ اہم سبب ہے جو آگے چل کر اسکی بنیاد ثابت ہوتا ہے۔
6۔ گھروں میں ٹی۔وی،ویڈیو اور موبائل کے رواج کا تیزی سے بڑھنا، جس میں مختلف قسم کے عریانیات و فاحشات کے مناظر دیکھنا،غیروں کے رسم و رواج کو دیکھ کر اثر لینا خاص کر انکے معبودان باطلہ کی پرستش کے مناظر کا مشاہدہ کرنا جس کے بہت ہی برے اثرات بچوں کے ذہن پر مرتب ہوتے ہیں۔
7۔غیر مسلموں کی نفرت کا جھوٹے اخلاق کے نام پر ہمارے دلوں دماغ سے ختم ہونا اور نوجوانوں کے دلوں میں تیزی سے انکی گندی محبت کا بڑھنا، یہ بھی قوم کے لئے زہرے قاتل ہے۔
فتنۂ ارتداد کے حل کے کچھ طریقے
1۔والدین گھر میں دینی ماحول بنائیں آزاد خیالی اور غیروں کے طریقے سے بالکل گھروں کو پاک رکھیں ۔
2۔بچوں کی صحیح دینی تعلیم اور عمدہ تربیت کا انتظام کریں۔
3۔والدین ٹی ،وی یا موبائل پر نا ہی خود کوئی فلم،ڈرامہ یا سیریل دیکھیں اور نا ہی بچوں کو دیکھنے دیں،کیونکہ فلموں، ڈراموں سے ہمارے گھروں میں فحاشی اور عریانیت داخل ہوتی ہے، فلموں اور ڈراموں میں معبودان باطلہ کی پرستش دکھائی جاتی ہے جس سے ہمارے بچے لا شعوری طور پر متاثر ہوتے ہیں، ڈراموں میں مصیبت زدہ فرد معبودان باطلہ سے مدد مانگتا ہے اور اس کا کام ہو جاتا ہے جس سے بچے لا شعوری طور پر متاثر ہوتے ہیں۔لہذا گھر بیٹھے انکو ان شرکیہ کاموں کے دیکھنے سے روکیں۔
4۔روزانہ گھر کے تمام افراد جمع ہو کر پندرہ منٹ ایک جگہ بیٹھے اور دینی بات کریں، درود شریف کی محفل سجائیں ہو سکے تو دس منٹ آن لائن یا آف لائن دینی درس کا اہتمام کریں، یقین جانے تھوڑی مدت میں دینی ماحول بن جائے گا ان شاء اللہ تعالٰی۔
5۔کفار و مشرکین کی بری باتوں سے انکو آگاہ کریں، ان کے معبودان باطلہ سے خود بھی نفرت کریں اور بچوں کو بھی نفرت دلائیں، کفار کے تیوہار اور رسومات سے سخت اجتناب کریں اور اور بچوں کو بھی دور رکھیں، انکے ساتھ تال میل بڑھانے سے منع کریں، اور اگر کوئی کر بیٹھے تو سخت تنبیہ کریں یونہی نہ چھوڑ دیں۔۔
6۔علمائے اہل سنت و مشائخ کرام سے خود بھی اچھے رابطے رکھیں اور بچوں کو بھی ان کی صحبت میں رہنے اور ان سے تعلقات بنانے کی تنبیہ کریں۔
7۔اللہ تبارک و تعالٰی اور اس کے رسول مقبول ۔صلی اللہ تعالی علیہ والہ و صحبہ و بارک و سلم۔کی محبت پیدا کیجئے، اسلام کی نشر و اشاعت میں جن مجاہدین نے مصائب و آلام برداشت کیے بچوں،بچیوں کو ان کی تاریخ بتائیں، جن مستورات نے بڑھ چڑھ کر اسلام کی خدمت کی اور ہر طرح سے قربانیاں دیں انکی بھی تاریخ سے آگاہ کیجئے،ایمان پر ثابت قدم رہنے والے مجاہدین کی سیرت بھی بتائیں اور ایمان سے پھرنے پر عذاب و وعید بتائیں۔
8۔بلوغت کے بعد جلد از جلد کا اہتمام کیجئے، پڑھائی کا بہانہ بنا کر بالکل شادی میں تاخیر نہ کیجئے۔
9۔شادی سے پہلے بچیوں کو ہرگز موبائل نہ دیجئے اور اگر دے رکھا ہے تو اس کو چیک کرتے رہیں ساتھ ہی بچیوں کے فرنڈس کے بارے میں مکمل معلومات رکھیں، اگر کوئی بھی قابل اعتراض بات نظر آے تو فورا تنبیہ کریں۔
10۔ماں بچیوں کے ساتھ دوستانہ ماحول بنائیں اور انکے روز مرہ کے حالات جاننے کی کوشش کریں، پھر ان میں کوئی بھی قابل گرفت بات نظر آے تو فورا ناصحانہ انداز میں محبت کے ساتھ تنبیہ کریں۔
11۔گھر کے بڑے ذمہ دار افراد والد یا بھائی وغیرہ بچیوں کو اسکول لانے لے جانے کا کام کریں اور ٹیچرس سے بھی کہیں کہ انکا خیال رکھیں اور لڑکوں سے دوستی ہرگز نہ کرنے دیں۔
12۔خالص دینی تربیت کریں، اگر آج آپ ہی اپنے بچوں کی تربیت پر توجہ نہ دیں گے تو کل یہی بچے آپ کی عزت کو خاک میں ملا کر آپ کو ذلت و رسوائی کے گڑھے میں ڈھکیل دیں گے۔
13۔قوم کے باثروت اور اہل خیر حضرات بھی اپنی قومی اور ملی ذمے داری کا ثبوت دیں اور بچیوں کی تعلیم کے لئے عظیم اسکول اور کالجس کھولیں جہاں پر دینی و عصری تعلیم کے ساتھ ساتھ بہترین اسلامی تربیت کا بھی انتظام کیا جائے۔
14۔بیواؤں کے لئے بھی مناسب رشتے کا انتظام کیا جائے۔شادیوں کو سستا کیجئے ہو سکے تو اجتماعی شادیوں کا انتظام کیجئے تاکہ بچیوں کی شادی میں تاخیر نہ ہو۔۔
جہیز کی لعنت کو ختم کریں۔
15۔بگڑتے ہوئے رشتوں کو بنانے کی کوشش کریں تاکہ جلد از جلد گھر آباد ہو سکے۔
یہ چند طریقے ہیں جو میں نے لکھے اس کے علاوہ حالات و زمانے کے لیے لحاظ سے جو تدابیر مناسب ہو علمائے کرام اسے عمل میں لائیں، اسکے علاوہ علمائے کرام اب ناز و نعم کو چھوڑ کر باہر آئیں اور اپنی عوام سے مخلصانہ رابطہ بنائیں اور وقتا فوقتا دینی اصلاحی مجلسیں منعقد کریں اور انکے عقائد و اعمال کی اصلاح کرتے رہیں، اور اپنے علم و عمل کے ذریعے اجتماعی اور انفرادی کوشش کرتے رہیں خاص کر جس جگہ حالات بگڑ رہے ہوں وہاں مخلصانہ انفرادی کوشش کو عمل میں لائیں۔
اللہ تبارک و تعالٰی ہم سب کے دین و ایمان کی حفاظت فرمائے اور اپنی رضا کے خاطر اپنے دین مبین کی خوب۔ خوب خدمتیں لے۔
أمين أمين یا رب العالمین بجاه النبي الكريم صلى الله تعالى عليه وآله وصحبه وبارك وسلم .
وما توفيقي الا بالله عليه توكلت و إليه أنيب.
تمام شد