حقائق سے چشم پوشی اور سماجی اختلاف
از قلم: طارق انور مصباحی
جو ہو سکے تو کرو چاک پردۂ ظلمت
ستارہ بن کے چمکنے سے کچھ نہیں ہوتا
1-شرعی حقائق سے چشم پوشی کے سبب اہل سنت وجماعت میں سماجی اختلاف مستحکم ہو گیا۔میں تو حدیث نبوی کے سبب اصحاب نظر فقہائے کرام کے فقہی اختلاف کو رحمت ہی مانتا ہوں۔عہد حاضر میں علمائے کرام نے”آداب اختلاف فقہا”کے موضوع پر مضامین اور کتب ورسائل رقم فرمائے۔سماجی اختلاف کو کم کرنے کی کوشش کی۔ماحول میں کچھ خوش گواری آئی۔صالح افکار ونظریات کو توانائی ملی۔”ہل من مزید”کا نعرہ بھی سنائی دیتا ہے۔انتشار شکن افکار ونظریات کو فروغ دیا جائے۔
مضمون حاضر میں”اسباب اختلاف فقہا”کا بیان ہے۔ہمیں شرعی احکام کو ملحوظ خاطر رکھنا ہے۔لغزش ہو تو دستگیری کی جائے۔مذہبی مصلحتوں پر نظر رکھنی ہے,لیکن مذہبی مصلحتوں کو ہم قلمبند نہیں کر سکتے۔بوقت ضرورت متعارف وشناسا حضرات کو مصلحت مذہبی اور حکمت عملی زبانی بتائی جا سکتی ہے۔ہمیں جملہ طبقات اہل سنت کے اساطین وعمائدین کی عزت وحرمت کی پاسداری کرنی ہے,تاکہ ربط باہم کا سورج طلوع ہو سکے۔
اہل سنت وجماعت میں موجودہ طبقہ بندی حضور اقدس تاجدار دوجہاں علیہ التحیۃ والثنا کی مرضی مبارک کے خلاف معلوم ہوتی ہے۔حنفی ومالکی,شافعی وحنبلی میں بہت سے فقہی اختلاف ہیں,لیکن باہمی تبرا بازی کی اجازت نہیں۔وضو کے بعض مسائل میں عدم رعایت کے سبب کبھی ایک فقہی مذہب کے مقلد کی نماز دوسرے فقہی مذہب کے مقلد کی اقتدا میں درست نہیں ہوتی,لیکن باہمی تنقید آرائی کی اجازت نہیں۔ضالین ومرتدین کے احکام جداگانہ ہیں۔سنی صحیح العقیدہ مسلمانوں کے ساتھ بدمذہبوں کی طرح سلوک نہیں کیا جا سکتا۔یہ بالکل غلط نظریہ ہے۔طعن وتشنیع,تبرا بازی,کسی طبقہ کے خلاف ماحول سازی ودیگر مفاسد خلاف شرع ہیں۔
ہم لوگ حضور اقدس حبیب کبریا علیہ التحیۃ والثنا کی مرضی مبارک کی تابعداری کرتے ہیں۔ان کے ہی ارشادات لطیفہ کی ناز برداری کرتے ہیں۔چوں کہ یہ دین ومذہب انھیں کا ہے,اس لئے ان سے ربط وتعلق کے سبب ان کے دین ومذہب کی خدمت انجام دیتے ہیں,نیز ہم بھی اسی دین ومذہب کے ماننے والے سنی حنفی مسلمان ہیں:فالحمد لربی والصلوۃ والسلام علی حبیبی وآلہ واصحابہ دائما سرمدا کثیرا ووافرا
اعلی حضرت قدس سرہ العزیز نے ہمیں عشق مصطفوی کی تعلیم دی تھی,اور وصایا شریف میں اتباع شرع کی تلقین کی تھی۔عہد حاضر میں لوگ حکم شرعی کی بجائے اپنی ذاتی فکر دوسروں پر مسلط کرنے کی کوشش کرتے ہیں,حالاں کہ بنی نوع انسانی مختلف الطبائع ہیں۔مذہبی اتحاد ممکن ہے۔فکری اتحاد مشکل۔
2-امام ابن نجیم مصری حنفی(926-970) نے رقم فرمایا:(اذا سئلنا عن مذہبنا ومذہب مخالفینا فی الفروع۔
یجب علینا ان نجیب:بان مذہبنا صواب یحتمل الخطأ۔
ومذہب مخالفینا خطأ یحتمل الصواب۔
لانک لو قطعت القول لما صح قولنا:ان المجتہد یخطئ ویصیب۔
واذا سئلنا عن معتقدنا ومعتقد خصومنا فی العقائد۔
یجب علینا ان نقول:الحق ما نحن علیہ۔والباطل ما علیہ خصومنا۔
ہکذا نقل عن المشائخ رحمہم اللہ تعالی)(الاشباہ والنظائر جلد اول:ص381-مکتبہ شاملہ)
ترجمہ:جب ہم سے فرعیات(فقہ کے ظنی واجتہادی مسائل) کے بارے میں ہمارے مذہب اور ہمارے مخالفین کے مذہب کے بارے میں سوال ہو تو ہم پر یہ جواب دینا واجب ہے کہ ہمارا مذہب صحیح ہے,اور خطا کا احتمال رکھتا ہے۔اور ہمارے مخالفین کا مذہب خطا ہے,اور صحت کا احتمال رکھتا ہے۔
اس لئے کہ اگر تم نے(اپنے مذہب کی حقانیت کے)قول کو یقینی بتا دیا تو ہمارا قول درست نہیں ہو گا کہ مجتہد مصیب ومخطی ہوتا ہے۔
اور جب ہم سے ہمارے عقیدہ اور عقائد میں ہمارے مخالفین کے عقیدہ کے بارے میں سوال کیا جائے تو ہم پر یہ کہنا واجب ہے کہ حق وہی ہے,جس پر ہم ہیں,اور جس پر ہمارے مخالفین ہیں,وہ باطل ہے۔اسی طرح حضرات مشائخ کرام علیہم الرحمۃ والرضوان سے منقول ہے۔
3-برصغیر میں فقہائے اہل سنت میں جو فقہی اختلافات ہوئے۔ان میں ہر فقیہ یہی کہتا ہے کہ ہم صحیح ہیں,اور ہمارا مخالف غلط ہے تو اس کا سبب یہی ہے کہ ہر صاحب نظر فقیہ کو اپنے قول کو ظن غالب کے طور پر صحیح بتانا اور مخالف فقیہ کے قول کو ظن غالب کے طور پر غلط بتانا واجب ہے۔یہاں نہ کسی فقیہ کو اپنے قول کے حق ہونے کا یقین ہوتا ہے,نہ ہی دوسرے فقیہ کے قول کے باطل ہونے کا یقین ہوتا ہے۔ہر ایک کو اپنے ظن غالب پر عمل کا حکم ہوتا ہے,اور ظن غالب کے طور پر اپنے قول کو صحیح سمجھنے کا حکم ہے۔
اسی طرح ہر مجتہد اور صاحب نظر فقیہ کو اپنے قول پر عمل کا حکم ہوتا ہے۔ان کے لئے(فاسئلوا اہل الذکر ان کنتم لا تعلمون)کا حکم نہیں,کیوں کہ وہ خود اہل ذکر ہیں۔
عوام مسلمین نے اس حقیقت کو نہیں سمجھا اور یہ کہنے لگے کہ فلاں حضرت ہمارے حضرت کے خلاف ہیں۔ایسا نہیں,بلکہ ہر صاحب نظر فقیہ کو اپنے قول پر عمل کرنے اور اپنے قول کو صحیح بتانے کا حکم شریعت اسلامیہ نے دیا ہے۔
کسی صاحب نظر فقیہ سےان کے فقہی موقف سے رجوع کرنے کا مطالبہ کرنا غلط ہے اور شرعی احکام سے ناواقفی کی دلیل ہے۔
جب مجتہد اور صاحب نظر فقیہ کو اپنی اجتہادی خطا اور تحقیقی لغزش کا علم ہو جائے,تب ان کے لئے رجوع کرنے کا حکم ہے۔
صاحب نظر فقیہ کو اپنے قول پر عمل کرنا ہے۔اس کا تفصیلی ذکر فتاوی رضویہ(جلد 18-ص489-501-جامعہ نظامیہ لاہور)
4-عہد حاضر میں مجتہدین کا وجود نہیں۔اب حوادث جدیدہ کا حکم اصحاب نظر فقہائے کرام کو بیان کرنا ہے۔جب مجتہدین اسلام کے اجتہادی مسائل ظنی ہیں تو اصحاب نظر فقہائے کرام کے تحقیقی مسائل بدرجہ اولی ظنی ہیں۔شاید عوام نے قطعی سمجھ لیا ہے۔
عہد حاضر میں تمام اکابر فقہائے احناف طبقہ ہفتم کے ہیں اور فقہ وورع میں متقارب ہیں۔سب متبع شرع اور صاحب تقوی ہیں۔
5-باب فقہ کے اجتہادی مسائل میں ایک ہی قول عند اللہ حق ہے,جو بندوں کو معلوم نہیں,لیکن اصول وضوابط کے اعتبار سے ہر مجتہد کو حق مانا جاتا ہے۔
(الف)علامہ احمد جیون جون پوری نے رقم فرمایا:
((ان المجتہد یخطئ ویصیب۔والحق فی فی موضع الخلاف واحد)ولکن لا یعلم ذلک الواحد بالیقین۔فلہذا قلنا بحقیۃ المذاہب الاربعۃ)(نور الانوار جلد دوم۔ص301-دار الکتب العلمیہ بیروت)
ترجمہ۔مجتہد مخطی ومصیب ہوتا ہے اور اختلافی مسئلہ میں ایک ہی(عند اللہ)حق ہوتا ہے,لیکن اس ایک حق کا یقینی علم نہیں(کہ کون سا قول حق ہے),اسی لئے ہم نے مذاہب اربعہ(حنفی ومالکی,شافعی وحنبلی)کے حق ہونےکا قول کیا۔
(ب)قیاس واجتہاد کا حکم۔
((وحکمہ الاصابۃ بغالب الرأی)ای حکم الاجتہاد لذکرہ قریبا او حکم القیاس لذکرہ فی الاجمال۔اصابۃ الحق بغالب الرأی دون الیقین)(نور الانوار جلد دوم۔ص301-دار الکتب العلمیہ بیروت)
خلاصہ:قیاس واجتہاد میں حق ہونے کا ظن غالب ہوتا ہے۔یقین نہیں ہوتا ہے۔
(ج)خطائے اجتہادی پر اجر وثواب-
((والمختار انہ مصیب ابتداء مخطئ انتہاء)لانہ اتی بما کلف بہ فی ترتیب المقدمات وبذل جہدہ فیہ۔فکان مصیبا فیہ وان اخطأ فی آخر الامر وعاقبۃ الحال۔فکان معذورا۔بل ماجورا۔لان المخطئ لہ اجر۔والمصیب لہ اجران)(نور الانوار جلد دوم۔ص 304-دار الکتب العلمیہ بیروت)
توضیح۔اصول وضوابط کے استعمال,حق کو پانے میں محنت ومشقت اور دلائل شرعیہ میں تدبر وتفکر کے اعتبار سے ہر مجتہد کو حق مانا جاتا ہے,گرچہ مطلوب کے پانے میں خطا ہو جائے۔اجتہادی خطا پر بھی ایک اجر ہے۔
حوادث جدیدہ میں مجتہد کی غیر موجودگی میں صرف صاحب نظر فقیہ مجتہد کے قائم مقام ہیں۔فقہ سے مشغولیت رکھنے والے تمام علما اس منزل میں نہیں۔شریعت میں بعض امور اہل کے لئے جائز اور نااہل کے لئے ناجائز ہیں۔غیر مقلدین مجتہد نہیں۔ان کو قیاس واجتہاد کرنا جائز نہیں۔
مجتہد کی غیر موجودگی میں صاحب نظر فقیہ کو حوادث جدیدہ کا حکم بیان کرنا ہے۔فتاوی رضویہ(جلد 18-ص494-496۔جامعہ نظامیہ لاہور)میں تفصیل مرقوم ہے۔
6-بسا اوقات مجتہدین وفقہائے کرام اپنے مخالف مجتہد وفقیہ کے قول کو قرآن وحدیث کے بھی خلاف بتاتے ہیں۔وہ اپنے اجتہاد وتحقیق کے پیش نظر کسی تاویل بعید کے سبب ایسا کہتے ہیں۔اس قسم کے اقوال سے مخالف مجتہد وفقیہ پر کوئی شرعی حکم عائد نہیں ہوتا۔مذاہب اربعہ کی فقہی کتابوں میں ایسے مباحث مرقوم ہیں۔مجتہد وفقیہ اپنے مذہب کو قوی اور صحیح بتانے کے لئے ایسا کہتے ہیں۔
7-برصغیر کے فقہائے اہل سنت میں ایک طویل مدتی معرکۃ الآرا اختلاف ٹی وی اور ویڈیو کی تصویر سے متعلق ہے۔اس مسئلہ میں احادیث طیبہ کے عموم واطلاق سے استدلال کیا گیا ہے۔اسی طرح اقوال فقہا کے عموم واطلاق سے بھی استدلال کیا گیا۔عموم واطلاق سے استدلال مجتہدین کے ساتھ خاص نہیں۔مجتہدین اور اصحاب نظر فقہا دونوں طبقہ عموم واطلاق سے استدلال کریں گے۔
اعلی حضرت علیہ الرحمۃ والرضوان نے رقم فرمایا:
"اطلاق وعموم سے استدلال نہ کوئی قیاس ہے,نہ مجتہد سے خاص”-(فتاوی رضویہ۔جلد ہفتم ص497-جامعہ نظامیہ لاہور)
8-ایک طبقہ نےاقوال فقہائے کرام کے عموم سے استدلال کرتے ہوئے فرمایا کہ ہر تصویر ناجائز ہے۔ٹی وی کی تصویر بھی تصویر ہے,لہذا وہ بھی ناجائز ہے,اور احادیث نبویہ میں جو مطلق وعید وارد ہوئی ہے,وہ ٹی وی کی تصویر کو بھی شامل ہے۔اس طبقہ نے اپنے دلائل سے ٹی وی کی تصویر اور دیگر تصویروں میں عدم فرق کو ظاہر فرمایا۔یہ عدم تفریق کا فیصلہ ظنی ہے,قطعی نہیں۔
طبقہ دوم نے کہا کہ ہر تصویر ضرور ناجائز ہے,اور احادیث طیبہ میں بیان کردہ وعید ہر تصویر کو ضرور شامل ہے,لیکن ٹی وی کی تصویر آئینہ اور پانی میں نظر آنے والے عکس کی طرح ہے۔جس طرح آئینہ اور پانی کا عکس تصویر کے حکم سے خارج ہے,اسی طرح ٹی وی کی تصویر بھی تصویر کے حکم سے خارج ہے۔ویڈیو کیسیٹ میں کیمرہ کے سامنے والی چیز کی شعاعوں(Rays)کو قید کر لیا جاتا ہے۔وہ تصویر نہیں۔اس طبقہ نے ٹی وی کی تصویر اور دیگر تصویروں میں فرق ظاہر فرمایا۔یہ تفریق کا فیصلہ بھی ظنی ہے,قطعی نہیں۔
9-ٹی وی بیسویں صدی کی ایجاد ہے,اس لئے قرآن مقدس واحادیث طیبہ یا اقوال مجتہدین میں اس کا کوئی ذکر نہیں کہ ٹی وی کی تصویر حقیقت میں تصویر ہے یا نہیں۔دونوں طبقہ کے پاس ظنی دلائل ہیں,لہذا ٹی وی کی تصویر کا تصویر کے حکم میں ہونا یا نہ ہونا دونوں امور ظنی اور غیر منصوص ہیں۔کسی فریق کا قول قطعی نہیں۔
10-ٹی وی کے مسئلہ میں کسی جانب تفرد نہیں۔بہت سے فقہائے احناف عدم جواز کے قائل ہیں اور بہت سے فقہائے احناف جواز کے قائل ہیں۔اگر برصغیر ہی میں دیکھا جائے تو بھارت کے سنی حنفی فقہائے احناف میں عدم جواز کے قائلین کی اکثریت ہے۔پڑوسی ملک میں قائلین جواز کی اکثریت ہے۔برصغیر کے علاوہ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی فقہائے احناف ٹی وی کے بارے میں مختلف الخیال ہیں۔
تبلیغ دین کے لئے عرفی ضرورت ثابت ہے۔شرعی حاجت کے تحقق پر غور کیا جائے۔آج کل ٹی وی سے دل چسپی بہت کم ہو جکی ہے۔لوگ موبائل میں یوٹیوب وغیرہ پر بدمذہبوں کے بیانات سنتے ہیں اور ان کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔
11-ٹی وی سے متعلق مندرجہ ذیل پانچ امور کو ذہن میں رکھیں۔ان شاء اللہ تعالی اہل سنت وجماعت کا داخلی ماحول درست ہو جائے گا۔
(الف)ٹی وی کے عدم جواز کا مسئلہ ظنیات میں سے ہے۔
(ب)ٹی وی کا عدم جواز مختلف فیہ ہے۔
(ج)ٹی وی کا عدم جواز غیر منصوص ہے۔قرآن وحدیث میں اس کا کوئی ذکر نہیں,کیوں کہ ٹیلی ویژن جدید ایجادات میں سے ہے۔اسی سبب سے اقوال ائمہ مجتہدین میں بھی اس کا کوئی ذکر نہیں۔
(د)بہت سے فقہا کے یہاں تبلیغ دین کے لئے ٹی وی کی شرعی حاجت ثابت ہو چکی ہے۔
(ہ)چوں کہ ٹی وی کا عدم جواز مختلف فیہ اور غیر منصوص ہے,اور اس میں عوام وخواص کی کثیر تعداد مبتلا ہے,اس لئے عموم بلوی کے سبب آج یا کل جواز کا فتوی دینا ہو گا,ورنہ مسلمانوں کی کثیر تعداد کو فاسق وگنہگار قرار دینا پڑے گا۔یہ شریعت اسلامیہ کو منظور نہیں۔
مندرجہ ذیل امور بھی قابل توجہ ہیں۔
(الف)عموم بلوی کے تحقق سے قبل عدم جواز کے قائلین ٹی وی کے ناظرین پر اپنے فقہی موقف کے اعتبار سےحکم فسق عائد کریں گے۔مجوزین فقہا پر قول جواز یا ٹی وی دیکھنے کے سبب حکم فسق عائد نہیں کریں گے۔
(ب)عدم جواز کے قائلین کے موقف کو ماننے والے ناظرین پر حکم فسق عائد ہو گا۔
(ج)مجوزین فقہا کے قول پر عمل کرنے والے ناظرین پر علی الاطلاق حکم فسق عائد ہو گا یا نہیں؟اس پر فقہائے کرام کو غور کرنا چاہئے۔
(د)برصغیر میں اہل سنت وجماعت کے ذیلی طبقات میں سے ہر طبقہ میں محققین ومدققین ہیں۔جو شرعی احکام سے واقف ہیں,اس لئے حکم شرعی کی تحقیق میں دیگر طبقات کے فقہائے معتمدین کی رائے بھی طلب کر لی جائے۔