غیر عالم کا وعظ و تقریر کرنا کیسا ہے؟

غیر عالم کا وعظ و تقریر کرنا کیسا ہے؟

Table of Contents

غیر عالم کا وعظ و تقریر کرنا کیسا ہے؟

غیر عالم کا وعظ و تقریر کرنا کیسا ہے؟
غیر عالم کا وعظ و تقریر کرنا کیسا ہے؟

سوال:

کہ ایک شخص ہے وہ عالم نہیں ہے،

لوگ اس کو عالم صاحب کہتے ہیں تو وہ منع بھی نہیں کرتا ہے،

اور ممبر پر وعظ و تقریر کرتا ہے۔

مزید یہ کہ وہ قرآن پاک کو درست طریقے سے پڑھ بھی نہیں پاتا پھر بھی وہ امامت کرتا ہے۔

اس کیا حکم ہوگا۔

سائل :- مقبول قادری ایرچ ( جھانسی )

 

الجواب بعون الملک الوھاب

اولًا واضح رہے کہ عالم اسے کہتے ہیں جو بغیر کسی کی مدد کے ضروریات کے مسائل کتب دینیہ سے اخذ کر سکے —

اعلی حضرت امام اہل سنت عالم کی تعریف یوں فرماتے ہیں —

عالم کی تعریف یہ ہے کہ عقائد سے پورے طور پر آگاہ ہو اور مستقل ہو اور اپنی ضروریات کو کتاب سے نکال سکے بغیر کسی کی مدد کے — ( احکام شریعت صفحہ ٢٣٠ )

غیر عالم کو عالم و غیر حافظ کو حافظ کہنا درست نہیں ہے جو لوگ لا علمی میں ایسا کرتے ہیں ان کو اس سے آگاہ کیا جائے جن حضرات کو لوگ کہتے ہیں اگر وہ عالم یا حافظ یا مفتی نہیں ہے تو ان کو خود ہی آگاہ کر دینا چاہئے —

غیر عالم کا اعتقادی و فقہی مسائل پر وعظ و تقریر کرنا جائز نہیں ہاں بزرگان دین کے جو واقعات کسی معتبر کتاب میں پڑھے ہوں تو ان کو بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں جب کہ فاسق نہ ہو —

جو لوگ کسی غیر عالم کو عالم کہیں اور وہ منع بھی نہ کریں نیز بغیر علم کے فتوی بھی دے ایسے شخص کے بارے میں حدیث پاک میں ہے

بیشک اللہ اس طرح علم کو نہیں اٹھائے گا کہ علم کو بندوں کے سینوں سے نکال لے لیکن علما کے اٹھانے سے علم کو اٹھا لیگا حتی کہ وہ جب کسی عالم کو باقی نہ رکھے گا تو لوگ جاہلوں کو سردار بنا لیں گے ان سے سوال کیا جائے گا تو وہ بغیر علم کے فتوی دیں گے پس خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے *( بخاری شریف حدیث نمبر ١٠٠ بحوالہ نعمة الباری فی شرح صحیح البخاری )

 

فتاوی رضویہ میں ہے

وعظ میں اور ہر بات میں سب سے مقدم اجازت اللہ و رسول ہے جل اللہ و صلی اللہ تعالی علیہ وسلم جو کافی علم نہ رکھتا ہو اسے واعظ کہنا حرام ہے اور اس کا وعظ سننا جائز نہیں— ( فتاوی رضویہ جلد ٢٣ صفحہ ٣٧٩ مطبوعہ رضا فاونڈیشن لاہور )

 

دوسری جگہ ہے

منبر مسند نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہے جاہل اردو خواں اگر اپنی طرف سے کچھ نہ کہے بلکہ عالم کہ تصنیف پڑھ کر سنائے تو اس میں حرج نہیں جبکہ وہ جاہل فاسق مثلا داڑھی منڈہ وغیرہ نہ ہو کہ اس وقت وہ جاہل سفیر محض ہے اور حقیقت وعظ اس عالم کا جس کی کتاب پڑھی جائے اور اگر ایسا نہیں بلکہ جاہل خود بیان کرنے بیٹھے تو اسے وعظ کہنا حرام ہے اور اس کا وعظ سننا حرام ہے اور مسلمانوں کو حق ہے بلکہ مسلمانوں پر حق ہے کہ اسے منبر سے اتار دیں کہ اس میں نہی منکر ہے اور نہی منکر واجب ہے — ( فتاوی رضویہ جلد ٢٣ صفحہ ۴١٠ مطبوعہ رضا فاونڈیشن لاہور )

امام بننے کے لئے عالم یا حافظ ہونا شرط نہیں ہے جو شخص فاسق معلن نہ ہو اور قرآن کی تلاوت اس حد تک درست کرتا ہوں کہ جس سے نماز میں فساد لازم نہ آئے تو ایسے شخص کا امامت کرنا جائز ہے اگر قرآن کی تلاوت ایسی کرتا ہو کہ جس سے نماز فاسد ہو جائے مثلًا س کو ش پڑھنا وغیرہ کہ جس سے معنی تبدیل ہو جائے تو ایسے شخص کا امامت کرنا جائز نہیں اور اس کو امام بنانا بھی جائز نہیں ہے — ( عام کتب فقہ )

 

ھذا ما ظہر لی واللہ تعالی و رسولہ اعلم بالصواب

از: محمد توصیف رضا

( کالپی شریف )

مزید پڑھیں

انگریری زبان یا تعیلم حاصل کرنا فتاوی رضویہ کی روشنی میں

ایک حکیمانہ قول کی توضیح

مقرر کے لئے کتنی شرائط ہیں؟

مہر کی مقدار کیا ہے ؟

مسجد کی اشیاء ذاتی مفاد کے لئے استعمال کرنا کیسا ہے ؟

شیئر کیجیے

Leave a comment