دعوت و تبلیغ کا نبوی منہج
تحریر: محمد شاداب رضا مصباحی
اسلام ایک آفاقی اور عالمگیر مذہب ہے. ہم سب اس کے ماننے والے ہیں. اللہ تعالی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وساطت سے مخلوق کے نام ایک ابدی صلاح و فلاح پر مشتمل دعوت و پیغام ارسال کیا ہے. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان نبوت کے بعد اپنی ساری زندگی ان پیغامات کی دعوت وتبلیغ میں گزاری. آپ کی وصال کے بعد ان پیغامات کی نشرواشاعت اس امت کے افراد کی زندگی کا دینی فریضہ ہے. چنانچہ قرآن مجید میں اللہ تبارک وتعالی کاارشادہے. ترجمہ: تم بہتر ہو ان سب امتوں میں جو لوگوں میں ظاہر ہوئیں بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو. (آل عمران) .
اس آیت کریمہ میں وضاحت کے ساتھ بیان ہے کہ اس امت کے وجود کا ایک اہم مقصد یہ بھی ہے کہ یہ امت عالم انسانی کے لیے نفع کا باعث ہو اچھی باتوں کا حکم دے اور بری باتوں سے روکے. دعوت و تبلیغ کی ذمہ داری کا احساس دلاتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ” تم میں کا ہر ایک شخص ذمہ دار ہے ہر ایک سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں پوچھا جائے گا”(صحیح مسلم) .
اس تناظر میں جب ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ دعوت و تبلیغ کے لئے کچھ بنیادی اصول ضروری ہوا کرتے ہیں. ہمارے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوتی زندگی دعوت و تبلیغ کے لئے نمونہ عمل ہے. اور یہی میرے مقالہ کا موضوع ہے کہ دعوت و تبلیغ کا نبوی طریقہ.
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ظاہری زندگی ترسٹھ سال کی ہوئی، چالیس سال کی عمر میں آپ نے اعلان نبوت فرمایا اور حق کا پیغام لوگوں کو سنایا گویا کہ چالیس سال تک آپ نے لوگوں کے سامنے حق کا پیغام نہ سنایا. بلکہ صرف اپنا کردار و قول پیش کیا ہے. اور اعلان نبوت کے بعد سے تئیس سال تک آپ نے اپنے کردار و گفتار کے ساتھ ساتھ حق کی دعوت بھی پیش کی ہے.
اعلان نبوت کے بعد تقریبا تین سال تک خفیہ دعوت و تبلیغ کا سلسلہ جاری رہا. اور اس مدت میں آپ نے صرف اپنے قریبی لوگوں کو دعوت پیش کی. کچھ لوگوں نے آپ کی دعوت کو قبول کیا اور آپ پر ایمان لائے.
جب آیت کریمہ "فاصدع بما تؤمر” نازل ہوئی اور آپ کو اعلانیہ تبلیغ کا حکم ہوا تو آپ کوہ صفا پر چڑھے اور لوگوں کو بلایا جب پہاڑی کے نیچے ایک جانب سارے لوگ جمع ہو گئے تو سب سے پہلے آپ نے اپنی شخصیت منوائ ارشاد فرمایا کہ اے لوگو اگر میں کہوں کہ اس پہاڑی کی دوسری جانب ایک لشکر جرار ہے جو تم پر حملہ کرنا چاہتا ہے. تو کیا تم لوگ میری اس بات کو مانو گے؟ تو سب نے بیک زبان ہو کر کہا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اگرچہ ہماری آنکھیں دیکھ رہی ہیں کہ اس جانب کوئی لشکر نہیں ہے لیکن اگر آپ کہیں گے تو ہم ضرور مان لیں گے اس لئے کہ ہم لوگوں نے ہمیشہ آپ کوصادق وامین پایا ہے. آپ کی زبان پر کبھی بھی جھوٹ کا گزر ہی نہ ہوا ہے. جب سارے لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت مان لی تب آپ نے پیغام حق سنایا کہ ” لوگو میں تمہیں سخت عذاب سے ڈرا رہا ہوں ایک خدا پر ایمان لاؤ اور میری رسالت کا اقرار کرو” . جب لوگوں نے اپنی توقعات کے خلاف پیغام سنا تو آپ کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا. آپ کے چچا ابو لہب نے حد کر دی اس نے کہا؛”تبا لک سائر الیوم یا محمد’ الھذا جمعتنا؟ اے محمد تیرا سارا دن تباہ و برباد ہو کیا تونے ہمیں اسی لیے جمع کیا تھا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابو لہب کے گستاخانہ کلمات سن کر خاموش رہے. لیکن اللہ تبارک و تعالٰی نے ابولہب کے جواب اور اس کی مذمت میں قرآن مجید میں ایک مکمل سورت بنام سورہ لہب نازل فرمائ. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو لوگوں کے رویے سے بڑی تکلیف ہوئی. آگے آپ نے اپنی دعوتی کوشش جاری رکھی.
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت و تبلیغ کے سلسلے میں حکمت اور کشادہ قلبی کا مظاہرہ کیا. اور اللہ تعالیٰ کے فرمان "ادع الی سبیل ربک بالحکمۃ والموعظۃ الحسنۃ” کے جامع پیکر بن کر دعوت و تبلیغ کرتے رہے اور اپنی دعوت کے تئیں پر امید رہے. آپ کے دل میں خلق خدا پر رحمت و شفقت اور خیر خواہی کا جذبہ تھا، بندگان خدا کی تباہ شدہ حالات سے آپ غمگین اور متفکر ہو جایا کرتے تھے. آپ کی دلی خواہش ہوتی تھی کہ کسی بھی طریقے سے مخلوق خدا، راہ راست پر آجائے. اس پر قرآن مجید شاہد ہے. ترجمہ : بے شک میں تمہارا خیرخواہ ہوں. (الاعراف)
بلکہ امت کی غم خواری کا عالم یہ تھا کہ قرآن مجید میں آیا کہ ترجمہ: کہیں تم اپنی جانوں پر کھیل جاؤ گے ان کے غم میں کہ وہ ایمان نہیں لاتے. (الشعراء).
سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی دعوت و تبلیغ کے صلے میں کسی دنیاوی غرض کی خواہش نہ رکھتے تھے. متعدد دفعہ کفار مکہ و سرداران مکہ کی جانب سے جاہ و منصب اور مال و دولت کی پیشکش کی گئی کہ یہ ساری چیزیں آپ قبول کرلیں اور بدلے میں وحدانیت و رسالت کی دعوت ترک کردیں. لیکن آپ نے قبول نہ فرمایا. قرآن مجید میں ارشاد ہوا کہ ترجمہ: اور میں تم سے اس پر کوئی اجرت نہیں مانگتا میرا اجر تو اس کی ذمہ ہیں جو سارے جہان کا رب ہے. (الشعراء).
بلکہ ایک مرتبہ جب آپ کے چچا ابو طالب نے کفار مکہ کے اصرار پر آپ کو سمجھانے کی کوشش کی اور کہا کہ پیارے بھتیجے اپنے بوڑھے چچا کی پشت پر زیادہ بوجھ نہ ڈالو اور یہ ساری چیزیں چھوڑ دو. تو آپ نے بر جستہ ان کو جواب دیا کہ
اے میرے چچا اگر یہ لوگ میرے دائیں ہاتھ میں سورج لا کر رکھ دیں اور بائیں ہاتھ میں چاند لا کر رکھ دیں پھر بھی میں اپنے فرائض منصبی سے سبکدوش نہ ہوں گا یہاں تک کہ اللہ تعالی میرے اور ان کے درمیان فیصلہ فرما دے یا اس راہ میں مجھے موت آجائے.
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغ دین کی راہ میں بہت ساری مشکلات کا سامنا کیا، آپ نے تکلیفیں جھیلیں، مصائب برداشت کیے، آپ کی راہوں میں کانٹے بچھائے گئے، سجدے کی حالت میں آپ کی پشت مبارک پر غلاظت بھری اوجھڑیاں ڈالی گئیں، آپ کو پاگل و مجنون اور کاہن و ساحر کہا گیا. حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ یا رسول اللہ جنگ احد کے دن سے زیادہ سخت کوئی دن آپ کی زندگی میں آیا ہے؟ تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ ہاں وہ دن جب میں تبلیغ دین کے لئے طائف کے بازار گیا. ابن عبد یالیل اور وہاں کے سرداروں کے سامنے دعوت حق پیش کی. نہ صرف یہ کہ انہوں نے انکار کردیا بلکہ اپنے اوباشوں، غنڈوں اور کمینوں کی جماعت میرے پیچھے لگا دی وہ راستے بھر مجھے پتھر مارتے رہے یہاں تک کہ میں مکہ کے ایک باغ میں آ کر ٹھہرا. میں درد کی شدت سے کراہ رہا تھا اور اپنے بدن سےخون صاف کر رہا تھا کہ اس وقت حضرت جبریل امیں علیہ السلام حاضر بارگاہ ہوئے، سلام عرض کرنے کے بعد عرض گزار ہوئے، یا رسول اللہ آپ کی قوم نے آپ کے ساتھ جو سلوک کیا ہے آپ کے رب نے دیکھا ہے. میرے ساتھ یہ پہاڑوں پر مامور فرشتہ حاضر ہے اگر آپ اسے حکم دیں تو یہ ان دونوں پہاڑوں کو جن کے درمیان یہ لوگ بستے ہیں ملا دے ان میں پس کر یہ لوگ نیست و نابود ہو جائیں.
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رب کا شکر ادا کیا ہاتھ اٹھا کر دعا کی کہ اے پروردگار اے مالک ومولی اگر انہیں کچھ دینا چاہتا ہے تو عذاب نہ دے بلکہ ان کی صلبوں سے ایسی نسلیں پیدا فرما جو خدائے واحد کی عبادت کرنے والی ہو، ایک خدا کو ماننے والی ہو.
رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم سراپا رحمت تھے. آپ نے اپنی ذات کے لیے کبھی انتقام نہ لیا. آپ انتقام پر عفو و درگزر کو ترجیح دیتے تھے. اور یہ چیز لوگوں کے دخول اسلام کا سبب بھی بنتی تھی.
فتح مکہ کے موقع پر جب کفار مکہ مجرمین کی حیثیت سے حاضر تھے، اور اپنے انجام سے لرزاں و ترساں تھے. یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے آپ کا معاشرتی بائیکاٹ کیاتھا، دارالندوہ میں آپ کے قتل کی سازشیں رچی تھی، آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو تکلیف پہنچانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا تھا، حتی کہ انہوں نے ہی آپ کو وطن عزیز کو چھوڑنے پر مجبور کیا تھا. جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور پوچھا کہ اے لوگو میرے بارے میں کیا خیال ہے؟ سب نے بیک زبان ہو کر کہا کہ آپ کریم ہیں، کرم کرنے والے کے بیٹے ہیں آپ سے کرم کی ہی امید ہے. پھر آپ نے عام معافی کا اعلان کر دیا فرمایا کہ” لا تثریب علیکم الیوم فاذھبوا انتم الطلقاء” جاؤ سب کے سب آزاد ہو
جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہوئے. قرآن مجید نے اس منظر کی تصویر کشی فتح مبین سے کیا ہے. اور بھی بہت سے عفو و درگزر کے واقعات ہیں جو لوگوں کے دخول اسلام کا سبب ہوئے ہیں.
اور آخری بات کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو رب تبارک و تعالی کی ذات پر کامل توکل و یقین تھا. آپ کسی بھی سنگین حالات سے دل برداشتہ نہ ہوتے تھے. بلکہ اللہ تعالی پر یقین کامل کے ساتھ اپنی جدوجہد جاری رکھتے تھے،لوگوں کے نازیبا کلمات اور ناپسندیدہ رویے آپ کی راہوں میں رکاوٹ نہ بنتے تھے، فرائض منصبی کی اشاعت میں لوگوں کے راضی ہونے یا ناراض ہونے کا خیال نہ فرماتے تھے. اس لیے کہ اللہ تعالی کا فرمان تھا کہ ترجمہ: عزت اللہ کے لیے ہے، اس کے رسول کے لیے اور مومنین کے لیے ہے. (المنافقون)
تو ہمارے لئے بھی واجب و ضروری ہے کہ ہم اپنے نبی کی سیرت و کردار کو اپنائیں، آپ کی عادات حسنہ اور خصائل حمیدہ سے خود کو آراستہ کریں، صبر کا دامن مضبوطی سے تھامیں رہیں، انہی میں ہمارے دین و دنیا کی کامیابی پوشیدہ ہے. دعا ہے کہ اللہ تعالی ہم سب کو سنن نبوی کا عاملین بنائے، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت و کردار سے روشنی عطا فرمائے…… آمین بجاہ نبیہ الکریم
تحریر: محمد شاداب رضا مصباحی
البرکات اسلامک ریسرچ اینڈ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ، علی گڑھ
مزید پڑھیں:
موبائل فون اور ٹاور سے انسانی صحت پر ہونے والے مضر اثرات
سوشل میڈیا کتنا مفید کتنا مضر
پردے کی اہمیت قرآن و حدیث کی روشنی میں
برصغیر کے سنی علما کی ترتیب کردہ چودہ مشہور کتب حدیث
امام احمد رضا کے خلفا، تلامذہ اور مریدین کی تفسیری خدمات