درد مند دل کی کچھ کافرانہ باتیں

درد مند دل کی کچھ کافرانہ باتیں

Table of Contents

درد مند دل کی کچھ کافرانہ باتیں

از قلم: ایس اے رضوی

درد مند دل کی کچھ کافرانہ باتیں
درد مند دل کی کچھ کافرانہ باتیں

 

اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ کی تقریر تعلیمات اسلامی کی ترویج واشاعت کے ذرائع میں سے ایک اہم ترین ذریعہ ہے، خود بانی اسلام علیہ السلام اور صحابہ کرام اور متقدمین و متاخرین نے تقریر کے ذریعے شرق و غرب میں اسلام کو پھیلایا_

لیکن موجودہ وقت میں میدان خطابت ان اغراض ومقاصد سے کافی دور ہو تی جارہی ہے، اور خال خال ہی اس کے ذریعے اصلاح معاشرہ اور رشد و ہدایت کا کام سرانجام دیا جارہاہے-

عمومی طور پر تقاریر کی حیثیت ایک رسم سے زیادہ کچھ بھی نہیں رہ گئی ، جس میں خطبا حضرات اپنی آواز کا جادو جگا کر ،اپنی سانس کی طوالت کا مظاہرہ کرکے اپنی تقریر کا معیار بڑھا رہے ہیں، اب ہمارے مذہبی جلسے سنجیدہ، باشعور ،اہل علم طبقے سے یکسر خالی ہو تے جارہے ہیں ہیں، اور مقرروں کی ہرجا وبےجا بات پر "سبحان اللہ "ماشاءاللہ”دریں چہ شک”۔ کہنے والے” عالم نما "جاہل مولویوں کی بھرمار ہوتی جارہی ہے_

ظاہر ہے کہ جب” عقابوں کا نشیمن زاغوں کے تصرف میں ہوگا تو تو وہاں ہم نشینی کے لیے کوئی عقابی نگاہ رکھنے والا شاہین صفت کہاں سے میسر ہوگا”؟
بڑا قلق ہوتا ہے کہ بدعملی اور خرافات کے اس دور میں جب کہ اسلامی معتدقات ومسلمات کا مذاق بنایا جارہا ہے _ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ مضبوط دلائل وبراہین کے ذریعے ان کا اثبات کیا جاتا، اور دانستہ یا غیر دانستہ طور پر خرافات ولغویات کو شعائر سنیت سمجھ لینے والی بھولی بھالی عوام کے ذہنوں کو صحیح اسلام سے قریب کیاجاتا_
مگر معاملہ یہ ہے کہ ذاتی مفاد کی مصلحتیں فرض کی راہ میں حائل ہو جاتی ہیں، آنکھوں کے سامنے خرافات کا بازار گرم ہوتا دیکھ کر بھی اس پر لب کشائی کرنے کی جرات نہیں ہوتی-

اگرچہ میری بات میں کسی قدر تلخی اور درشتی زیادہ ہے ، مگر حقیقت یہی ہے کہ ہمارے "خطبا کرام "کسی بھی اصلاحی پہلو یا سلگتے ہوئے موضوع پر بولنا اپنے لیے زہر ہلاہل سمجھتے ہیں اور اپنی متعین کردہ اور "رٹی رٹائی” تقریر کرکے لوگوں سے” واہ واہی "حاصل کرلینےاور سستی شہرت پالینے کو "تبلیغ اسلام” گردانتے ہیں ،خود کو "مبلغ اسلام "خطیب اسلام "خطیب ایشیا و یوروپ "کہلوانے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے-

افسوس !
ہمارے اکثر”خطباے عظام ” نے اپنی تن آرامی اورسہل پسندی کے باعث عوام اہلسنت کو اپنی "لچھے دار” تقریروں کا عادی بنا رکھا ہے ، ان حالات میں کشتئ ملت کی ناخدائی اب قوم کا درد رکھنے والے اور ان کے” بہی خواہ "علماکے ہاتھوں میں ہے،ان کی اور ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ان "پیشہ ور "مقرروں کی نقالی نہ کرکے، اپنی علمی وجاہت کا خیا ل کرتے ہوئے ، مہذب ،اور سنجیدہ اسلوب میں اپنی باتیں لوگوں تک پہنچائیں، کیوں کہ تبدیلی تب ہی ممکن ہے جب ہم عملی اور حقیقی طور پر کوشش کریں گے –

ایس اے رضوی

مزید پڑھیں

لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے !

شیئر کیجیے

Leave a comment