لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے !

لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے !

Table of Contents

لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے !

ایس اے رضوی

لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے !
لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے !

یقینا یہ احسان فراموشی کی بدترین مثال ہے کہ جن لوگوں نے اس ملک کی آزادی کے لیے فضا ہموار کی تھی اور برطانوی استعمار کے مقابلے میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھا پھانسی کے پھندوں کو چوما تھااور سینوں پر گولیاں کھائیں تھیں انہیں ہی اس ملک سے نکالنے کی خاطر نت نئے قوانین نافذ کیے جارہے ہیں ،اور نت نئی ترکیبیں استعمال کی جا رہی ہیں,
اور وہ لوگ جو اس کفن بردوش قافلے میں سرِ راہ آکر شامل ہوگئے تھے انھوں نے خود کو ملک کا تاجور سمجھ لیا ہے اور لوگوں نے انہیں ملک کی شہنشاہی سونپ دی ہے –
دنیا کی تاریخ بتاتی ہے کہ ظلم انتہا کو پہنچ جاتا ہے تو اس کا انجام بہت خراب ہوتا ہے، اور تاریکی چاہے کتنی ہی مہیب ہو،سیدہِ سحر نمودارہوکر رہتا ہے، مظلوم اپنی ظلم کا انتقام لیتے ہیں اور آخرکار ظلم کے شکنجے کو توڑ دیتے ہیں- وہ وقت بظاہر اب دور نہیں ہے جب ظلم وستم کے کوہِ گراں روئی کی طرح اڑ جائیں گے، جب تخت گرائے جائیں گے ،جب تاج اچھالے جائیں گے جو آج تک محکوم اور مظلوم رہے ہیں وہ مسند پر بٹھائے جائیں گے – ملک ہند مطلق العنانی کی آگ میں جھلستا نظر آرہا ہے بظاہرافق پر بھی اندھیرا ہے ،کہیں دور تک روشنی کی کرن نظر نہیں آرہی ہے،سفینہ ساحلِ نجات کو کب پہنچے گا کسی کو نہیں معلوم ، جب ہر نا خدا سے امید کا سر رشتہ ٹوٹ جاتا ہے تب غیب سے خدا کی کارسازی کا ظہور ہوتا ہے، وہ { *فعّال لمايريد }* ہے، ظالم کو سزا ضرور ملتی ہے اور وہ کیفر کردار تک پہنچ کر ہی رہتا ہے، اور ہمیں دعا بھی کرنی چاہیے{ *اللهم انصرنا على القوم الظالمین* } لیکن دعاکب قبول ہوگی؟ یہ سب پردہ تقدیر میں ہے ،اللہ کے ارادے کو کوئی جان نہیں سکتا کیوں کہ : ؂
*گزریں سے بھی پوشیدہ ہے فاطر کا ارادہ*

ہم مسلمان ہیں اور اسلام نے ہمیں ظلم کے خلاف کھڑا ہونا سکھایا ہے
اس لئے ہمیں حسینی کردار کو نبھانا چاہیے اور پورے جذبے اور ہمت کے ساتھ یزیدِ وقت سے لڑنا چاہیے :

اسی دریا سے اٹھتی ہے وہ موجِ تندِجولاں بھی
نہنگوں کے نشیمن جس سے ہوتے ہیں تہہ و بالا

ایس اے رضوی

 کرلا ممبئی

شیئر کیجیے

Leave a comment