برائی اور ظلم کے خلاف آواز بلند نہ کرنے پر عذاب الٰہی

برائی اور ظلم کے خلاف آواز بلند نہ کرنے پر عذاب الٰہی

Table of Contents

برائی اور ظلم کے خلاف آواز بلند نہ کرنے پر عذاب الٰہی

تحریر:سراج احمد قادری مصباحی

آج کے اس ماڈرن دور میں برائیوں کی ایک لمبی فہرست سامنے ہے،نہ تھمنے والے گناہوں کا سلسلہ اپنے عروج پر ہے،فحاشی اپنی انتہا کو پہنچی ہوئی ہے،عیاشیاں اپنے شباب پر ہیں،کیا شہر ،کیا گاؤں ہر جگہ یہ نحوستیں،بلائیں،مصیبتیں اپنے پروں کو پھیلاتی چلی جارہی ہیں،جاہل تو جاہل ایجوکیٹیڈ(educated) طبقہ بھی ان خباثات ونجاسات کا شکار ہوتے نظر آرہے ہیں،افسوس تب ہوتا ہے جب ہمارا مسلم معاشرہ ان گندے سمندروں میں ڈبکیاں لگا رہا ہوتا ہے،ایک طرف تو اسلام اور شریعت کی باتیں سناکر ان پر خود کو عامل گردانتے ہیں تو دوسری طرف اسی اسلام کی تعلیمات واحکامات کی مخالفت اپنے افعال واعمال کے ذریعہ کرتے ہیں،کبھی شادی کے موقع سے گانا بجاکر ورقص وسرور کی محفلیں سجاکر تو کبھی خود کی یا اپنے عزیزوں کی پیدائش کے موقع سے انگریزوں کے طریقۂ کار کو اپناکر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

واقعی آج ہمارے معاشرے،سماج کے اندر بے شمار برائیاں جنم لے چکی ہیں،ظالموں کی کثرت ہے،مظلموں کی انصاف کی بات کرنے سے لوگ خاموش ہیں،حق کی طرف داری کرنے والے ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے،جھوٹ کا ساتھ دینے والے بہت مل جاتے ہیں،بیٹیوں اور بہنوں کو حق وراثت سے بر طرف کردیا جاتا ہے،دوسرے کی زمین پر ناحق قبضہ کرنے والے ہر گاؤں میں مل جائیں گے،محبت کرکے لڑکے اور لڑکیاں بھاگ جاتے ہیں،شراب نوشی، جوا بازی،چغل خوری،زنا کاری،سود خوری،نشہ خوری،غیبت اور حسد وجلن جیسے تباہ کن بیماریوں میں ہمارامسلم طبقہ مکمل طور پر مبتلا ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔

سوال یہ ہے کہ ان برائیوں کا سد باب کیسے ہو؟اور کون کرے؟ان برائیوں کے انقطاع کا طریقہ کار کیا ہونا چاہیے؟میں یہاں طریقہ کار پر روشنی ڈالنا نہیں چاہتا، ان شاء اللہ اس پر کبھی روشنی ڈالی جائے گی۔۔۔۔۔۔۔

یہاں عرض یہ کرنا ہے کہ جس کے اندر ان برائیوں کا خاتمہ کرنے کی طاقت وقوت ہو، انہیں خاتمہ کی ضرور کوشش کرنی چاہیے تاکہ ہمارا سماج،معاشرہ،گاؤں غضب الٰہی ولعنت سے بچ سکے۔۔۔۔۔۔

رب تعالیٰ نے انبیا کو اس لیے مبعوث فرمایا کہ یہ معزز ہستیاں اللہ کے اوامر واحکام کی دعوت دیں اور منہیات ومحرمات سے روکیں،اس کے بعد یہ ذمہ داری عالموں کے حوالے کردی گئی۔الحمد للہ علماے کرام ومشائخ عظام نے اپنی اپنی ذمہ داری خوب نبھائی اور نبھارہے ہیں۔ سلام ہے ان علما کو جن کی جدوجہد سے بے نمازی نماز کا عادی ہوگیا،شرابی وجوار ی نے اپنے گناہوں سے توبہ کرلیا،ظلم وستم کرنے سے باز آگئے،ظالموں نے مظلوموں سے معافی مانگ کر خود کو رب تعالیٰ کا مقرب بنالیا،ناچ ،گانے اور فلم بینی سے خود کو دور کرلیا۔جن کی محنت ومشقت سے عورتیں پردے میں آگئیں،غیر محرموں سے بات چیت تو دور ملنا بھی ترک کردیا،وہ خود بھی اسلامی ماحول میں ڈھل گئیں اور اپنے بچوں کو بھی اسلامی ماحول میں ڈھال لیں،ہر گھر تلاوت قرآن سے گونج اٹھا۔۔۔۔۔

بطور مثال ضلع ناگور کا ایک مبارک قصبہ’’باسنی ‘‘ کا ذکر کرنا چاہوں گا،باسنی گاؤں اپنی اسلامی روایات کو برقرار رکھنے والا خوبصورت قصبہ کی حیثیت سے ضلع ناگور راجستھان میں واقع ہے،الحمد للہ اس گاؤں میں عالی شان اور خوبصورت مسجدیں آسمان کو مس کرتی ہوئی گنبدوں کے ساتھ دعوت نماز دے رہی ہیں،لڑکوں کو دینی وعصری تعلیم کے لیے ادارے اور اسکول قائم کئے گئے ہیں،لڑکیوں کے لیے کلیۃ البنات کھولے گئے ہیں،عالمات کا گھر گھر جاکر قرآن وحدیث کی تعلیم دینے کا سلسلہ جاری ہے،مرد حضرات اسلامی لباس میں ملبوس نظر آتے ہیں ،سر پر ٹوپی اورعمامہ سجاکر سنت رسول پر سختی کے ساتھ قائم رہتے ہیں،وقتا فوقتا اصلاحی،فقہی،علمی پروگرام ہوتے رہتے ہیں،عورتیں گھر سے باہر باپردہ نکلتی ہیں،آج تک میں نے اس گاؤں میں کسی بھی عورت کو بے پردہ نہیں دیکھا،لوگ اس گاؤں کو چھوٹا پاکستان کہتے ہیں،شادی بالکل سادگی کے ساتھ ہوجاتی ہے،کبھی کبھی تو صرف چائے پر اکتفتا کرلیا جاتا ہے،جہیز لینے دینے کا بالکل بھی رواج نہیں۔۔۔۔۔

سلام ہے مفتی اعظم باسنی ،عالم باعمل،صوفی ملت،حضرت علامہ مفتی ولی محمد رضوی صاحب قبلہ دامت برکاتھم العالیہ کی بارگاہ میں کہ اس گاؤں میں جو رونقیں،بہاریں ،دینی واصلاحی خدمات دیکھ رہے ہیں مفتی اعظم باسنی مد ظلہ العالی اور ان سے پہلے علماکی شب وروز محنت ومشقت کا نتیجہ ہے۔۔۔

کاش کہ ہر گاؤں کے علما اپنی دینی ذمہ داری سمجھتے ہوئے معاشرے کے اندر سے برائیوں کو ختم کرنے کے لیے تیار ہوجائیں تو وہ دن دور نہیں کہ ہر گاؤں باسنی جیسا دکھے گا۔۔۔۔۔۔

لیکن افسوس اس وقت ہوتا ہے کہ گاؤں کے اندر دن بدن شراب پینے والوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے،بلا وجہ لوگوں پر ظلم کیا جاتا ہے،شادی میں ڈی جے لگا کر گانا بجایا جاتا ہے،اور پھر لڑکیوں کے ساتھ ڈانس بھی کیا جاتا ہے،اذان ہورہی ہے اور ہمارے مسلمان بھائی چائے کی دکان پر خوب ٹھٹھے مار کر ہنس رہے ہیں ، غیبت کرنے اور چغلی میں خوب مست ہیں،ان برائیوں اور گناہوں سے علما مطلع رہتے ہیں پھر بھی انہیں کچھ نہیں کہتے ،نہ انہیں سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں نہ اپنے ساتھ مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے لے جاتے ہیں،شاید وہ یہ سمجھتے ہیں کہ میرے کہنے پر اگر بندہ برائی سے نہ رکا تو میری بدنامی ہوگی، یہ سوچ یہ فکر سراسر غلط ہے کیوں کہ ہمارا کام نیکی اور اصلاح کا راستہ دکھانا ہے، رب تعالیٰ کی جانب سے جسے ہدایت کی توفیق مل جاتی ہے وہ یقینا کامیاب ہوتا ہے،اور ہماری دعوت وتبلیغ کا ثواب ہمیں مل جاتا ہے۔اگر آپ کی تبلیغ سے کوئی راہ راست پر نہ آیا پھر بھی آپ کو اس تبلیغ کا صلہ ملے گا۔۔۔۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جو شخص کوئی بات خلاف شرع دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ سے روک دے اور اگر ہاتھ سے روکنے کی قدرت نہ ہو تو زبان سے منع کرے اور اگر زبان سے بھی منع کرنے کی قدرت نہ ہو تو دل سے برا جانے اور یہ سب سے کمزور ایمان ہے۔(مشکوۃ شریف ص:۴۳۸۔۴۳۷۔۴۳۶)
ہم نے شراب پینے والے کو شراب سے نہ روکا،زنا کی تباہیوں کو ختم نہ کیا،مظلوم کو انصاف دینے کی بات نہ کی،جھوٹ کو جھوٹ اور سچ کو سچ نہ کہاتو پھر رب تعالی کی طرف سے عذاب کا انتظار کریں۔۔۔۔۔۔۔

حضور ﷺ نے فرمایا:کسی قوم کا کوئی آدمی ان کے درمیان گناہ کرتا ہو اور وہ اسے روکنے کی طاقت رکھتے ہوں مگر نہ روکیں تو خدائے تعالیٰ ان سب پر عذاب بھیجے گا اس سے پہلے کہ وہ مریں۔(مشکوۃ شریف ص:۴۳۸۔۴۳۷۔۴۳۶)

نیزآپ نے فرمایا:لوگ جب کوئی برا کام دیکھیں اور اس کو نہ مٹائیں تو عنقریب خدائے تعالیٰ ان سب کو اپنے عذاب میں مبتلا کرے گا۔

نیز فرماتے ہیں:اللہ تعالیٰ سب لوگوں کو بعض لوگوں کے عمل کے سبب عذاب نہیں دیتا ،مگر جب کہ وہ اپنے درمیان برے کام ہوتے دیکھیں اور اسے روکنے کی طاقت رکھتے ہوئے نہ روکیں ،اگر انہوں نے ایسا کیا تو خدائے تعالیٰ عام اور خاص سب کو عذاب دے گا۔

نیزفرماتے ہیں:قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے،تم ضرور اچھی باتوں کا حکم کرنا اور برے کاموں سے منع کرتے رہنا،ورنہ عنقریب اللہ تعالیٰ تم پر اپنے پاس سے عذاب بھیج دے گا،پھر اس سے دعا کروگے تو تمہاری دعا قبول نہیں کی جائے گی۔(المرجع السابق)

ہمارے سماج میں کچھ ایسے علما موجود ہیں جو اپنی کسی مصلحت یا مفاد کی خاطرلوگوں کو گناہوں سے باز رہنے کے لیے نہیں کہتے ہیں،وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر میں ان کے مزاج کے خلاف گیا ،ان کی طبیعت کے خلاف بات کیا تو مجھے نذارنہ نہیں ملے گا،دوبارہ مجھے دعوت پر نہیں بلائے گا،مدرسے کے لیے چندہ نہیں دے گاوغیرہ وغیر،ہ تو ایسے علما حضور ﷺ کے ارشاد کو ضرور پڑھیں اور اپنا محاسبہ کریں۔۔۔۔

رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں:جب فتنے ظاہر ہوں،اور ہر طرف بے دینی پھیلنے لگے اور ایسے موقع پر عالم دین اپنا علم ظاہر نہ کرے اور اپنی کسی مصلحت یا مفاد کی لالچ میں خاموش رہے،تو اس پر اللہ کی اور تمام فرشتوں کی اور سارے انسانوں کی لعنت ہے،اللہ نہ اس کا فرض قبول کرے گا اور نہ اس کی نفل۔(الصواعق المحرقہ،ص:۱۲،الملفوظ،ج:۴،ص:۴)

ان احادیث طیبہ سے ہمیں جو سبق ملا وہ یہ کہ اگر ہم برائی کو روکنے کی طاقت رکھتے ہیں ،تو ضرور روکیں اگر ہاتھ سے روک سکتے ہیں تو ہاتھ سے روکیں، زبان سے روک سکتے ہیں تو زبان سے روکیں اگر ان دونوں پر قدرت نہیں تو پھر دل سے اسے برا جانیں۔طاقت کے باوجود اگر ہم برائیوں کو نہیں روکتے ہیں تو ہمارا رب تعالی کے عذاب میں مبتلا ہونا یقینی ہے۔ایسے موقع سے علما کو اپنے علم کا مظاہرہ ضرور کرنا چاہیے،اگر وہ کسی مصلحت یا ذاتی مفاد کی خاطر خاموش رہتے ہیں برائی سے نہیں روکتے تو ایسے علما پر اللہ اور تمام فرشتوں کی لعنت ہوتی ہے،نہ ان کا فرض قبول ہوگا اور نہ نفل نہ دعائیں مقبول ہوں گی۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں برائیوں سے نفرت کرنے والا بنادے۔آمین بجاہ النبی الکریم ﷺ

تحریر:سراج احمد قادری مصباحی

استاذ ومفتی:جامعہ قادریہ کلیم العلوم وسئی مہاراشٹر
seraj.misbahi17@gmail.com
6355155781

مزید پڑھیں

حافظ ملت : ایک علمی جہان

شیئر کیجیے

Leave a comment