تبلیغی پرچہ

تبلیغی پرچہ

Table of Contents

تبلیغی پرچہ

کلیم مصباحی

۔پیارے اسلامی بھائیو!
بلاشبہ مذہب اسلام  تمام انسانوں کے لئے  دنیا کا سب سے بہتر مذہب ہے یہ قرآن کہتا ہے حدیث رسول بتاتی ہے اور تاریخ اسلام کے اوراق اس کی گواہی دیتے ہیں ۔ جیساکہ  انبیاءکرام ورسلان  عظام اور ان کے سچے متبعین نے اپنے اپنے زمانوں میں  اپنی اپنی عملی زندگی سے اللہ کے احکام وفرامین کی خوبیوں کو دنیا والوں کو  ماننے اور تسلیم کرنے پر مجبور کیا۔
کہ مذہب اسلام دنیا کا سب سے بہتر مذہب ہے۔
اور یہ بات بھی ہم لوگ قرآن وحدیث اور اسلامی  تاریخ  کے حوالوں سے پڑھتےاور سنتے آئے ہیں
کہ انبیاء کرام ورسلان عظام کے ذمے  خدا کے پیغام کو صرف زبانی طور پر پہچانا نہیں تھا بلکہ اس پر عمل کرکے اسلام کی خوبیوں کا دنیا والوں کو proof بھی دینا تھا ۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کفاران مکہ کے سامنے نے تبلیغی مشن کی شروعات Direct کلمۂ لاالہ الااللہ سے نہیں کی تھی ۔۔۔بلکہ آپ
نے سب سے پہلے اپنی عملی زندگی کے حوالے سے اسلام کی خوبیوں کو Represent کیا ۔۔۔۔۔اس کے بعد تبلیغی مشن کی شروعات۔۔۔۔۔۔۔

” یہ جو آپ کے سامنے دنیا میں دوارب سے زیادہ مسلمانوں کی Population (تعداد) کا  اندازہ ہے وہ اسی عملی Proof کا نتیجہ  ہے  ۔

قرآن اگر صرف کتابی شکل میں ہوتا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی عملی تشریح نہ فرماتے تو مسلمانوں کے سروں پر یہ جو ٹوپیاں اور عمامے نظر آتے ہیں اس کی جگہ چوٹیاں اور پگڑیاں ہوتیں اور پہچان کے طور پر جو مسلم نام (دانش،قمرحیات ،کامران )رکھتے ہیں وہ Kailash, Kalidas, Dinesh
ہوتے۔
اور Cast کے بٹوارے میں سید ،پٹھان ،شیخ ،صدیقی کی جگہ Banvari,Yado,Babhan, Thakur
ہوتا۔

” مذہب اسلام بہت اچھا ہے لیکن لوگوں کی نظروں میں اس کی اچھائی کیسے prove کریں گے ؟

صرف اچھی اچھی تقریریں کرکے؟ Facebook, WhatsApp پر قرآن و حدیث کا حوالہ دے کر ؟ Twitter پر Trend چلاکر ؟ یا Massgener پر ایک Group سے دوسرے Group میں Forwerd کرو ! Forwerd کرو ! کا کھیلا کھیل کر ؟”

"معذرت کے ساتھ کہنا چاہوں گا”

آگے بھیجو ! Forward کرو !
سے وہ والا اسلام نہیں پھیلتا جس سے قاتل امامت کے مصلے پر پہنچ جائے ۔ ظالم اپنے ظلم سے توبہ کرلے ۔
۹۰ لاکھ لوگ مسلمان ہوجائیں۔ ڈاکو اپنی ڈکیتی  چھوڑ کر کسی پیر کا مرید ہوجائے ۔ جھوٹ ، چغلی ، غیبت ، زنا جیسی بری عادت کا خاتمہ ہو۔ سود ، رشوت جیسے برے لین دین  سے لوگ رک جائیں ۔دھوکے اور ناجائز طریقوں سے پیسہ کمانا چھوڑ دیں ۔ حلال کمائیں حلال کھائیں ۔ہر کام میں اسلام کو ترجیح دیں ۔ایک دوسرے سے پیارمحبت ،ہمدردی بھائی چارگی ،امن شانتی کا عملی مظاہرہ کریں ۔دکھاوا نہ کریں۔

ہماری (Local Language)مقامی زبان میں” ای ” والا اسلام ہماری ذات سے ادا ہونے والی ہماری اچھی عادتوں سے پھیلتاہے۔
ڈاکو نے  اسلام کو سن کر یا پڑھ کر  توبہ نہیں کیا تھا۔
بلکہ اس نے  ایک اسلامی کردار کی حامل شخصیت (شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃاللہ علیہ)کی عادت دیکھ کر توبہ کی تھی کہ ۴۰ دینار کے نقصان پر راضی تھے لیکن جھوٹ نہیں بولے ۔
اس Type کے مسلمان پہلے اپنی عملی زندگی سے اسلام کی اچھائی بتاتے ہیں بعد میں تقریر کرتے ہیں اور تحریر لکھتے ہیں۔
اور ہم پندرہویں صدی کے مسلمان خو ب تقریریں کرتے ہیں  تحریریں بھی لکھتے ہیں زمینی سطح ہو یا Mobiles, Tv ,Computers کی اسکرین والا صفحہ ہو ہرجگہ ہم اچھی اچھی باتوں کا پٹارہ لئے موجود رہتے ہیں۔
ڈاکو  تو  دور کی بات بیس سال سے ساتھ میں رہنےوالے ہمارے پرانے دوست پر بھی  اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔

وجہ کچھ بھی نہیں ہے یارو!
بات صرف اتنی ہے کہ ان بیس سالوں میں  ہمارے ساتھ رہنے کی وجہ سے ہماری عادتوں اور باتوں کی سچائی سے وہ آگاہ ہوچکا ہے اسے پتہ چل گیا ہے کہ "یہ جو کہتے ہیں یا لکھتے ہیں” اس پر خود بھی عمل نہیں کرتے۔
اس لئے ہماری تقریروں اور تحریروں کو بہت زیادہ  Seriously نہیں لیتا ایک کان سے سنتا ہے دوسرے کان سے اڑا دیتا ہے ۔

قوم کے واعظو!
دنیا میں تبلیغ اسلام کی آبیاری کے لئے اسلام نے جو صحیح سمت (Right Direction )کی نشاندہی کی ہے وہ محلہ پڑوس ہیں۔ گاؤں شہر ہیں۔ اور روئے زمین پر چلنے پھرنے والے پانچ فٹ چھ فٹ کے حقیقی انسان اور ان کے اعمال ہیں۔
ہمیں چاہئے کہ ہم پہلے قوم میں پھیلی برائیوں کی study and Analysis کریں پھر اسی اعتبار سے قوم کے بیچ رہ کر قوم کی اصلاح کریں۔

"یاد رکھیں قوم کی اصلاح میں ہمارا عمل ہی سب سے بڑا اور بہتر مبلغ ہے۔ قوم میں پھیلی برائیوں کو اگر روکنا ہے تو سب سے پہلے خود ہمیں ہر طرح کی برائیوں سے بچنا ہوگا ”

ایک برائی ہم وہ کرتے ہیں جسے صرف رب جانتا ہے مان لیجئے توبہ استغفار سے اللہ وہ برائی معاف فرما دے گا تبلیغ پر اس برائی کا کیا اثر ہوتاہے اللہ ہی بہتر جانے ۔

لیکن وہ برائیاں جو سماج کے بیج رہ کر ہم سے جانے انجانے میں برے ماحول ،خراب سنگت ،خواہشات نفس کی پیروی ، خود ساختہ سیاسی مصلحت کے دباؤ اور دولت وشہرت کی لالچ میں سرزد ہوتی رہتی ہیں۔
وہ چاہے ظلم ،جھوٹ ،غیبت ،چغلی، زنا ہو یا رشوت ،سود، دھوکہ، دوسرے کاحق چھیننا ہو۔
تبلیغ پر ان برائیوں کا منفی اثر دکھتابھی ہے اور بہت سے مبلغین جھیلتے بھی ہیں ۔
تقریر ختم ہوتے ہی لوگوں میں چہ میں گوئیاں شروع ہوجاتی ہیں ۔

"ارے یار یہ لوگ تو باتیں بڑی اچھی اچھی کرتے ہیں لیکن خود عمل نہیں کرتے”

"عالمی پیمانے پر اسلام کو بدنام کرنے کے لئے دوسرے مذاہب کے لوگوں نے زیادہ تر کس چیز کا سہارا لیاہے ؟؟”
قرآن وحدیث پر اعتراض کا ؟

نہیں نہیں !

انہوں نے اسلام کو بدنام کرنے کے لئے مسلمانوں کے خراب Character اور غلط Activities کا سب سے زیادہ سہارا لیاہے۔ کیا آپ لوگ نہیں دیکھتے کہ آئے دن Social Media اور Media پر مسلمانوں کے خراب Character کی نمائش ہوتی رہتی ہے۔ جس پر سیاسی لوگ اپنی سیاسی روٹیاں سینکتے ہیں۔ اور T.V. Channels والے اپنی .T.R.P بڑھاتے ہیں۔
مان لیجئے ان کایہ کام ہمارے خلاف سازشوں کاایک حصہ ہے۔خبرسچی نہیں بلکہ سازش ہے۔ Media کا کیا بھروسہ وہ کچھ بھی دکھاتی رہتی ہے….

"۔۔۔لیکن زمینی سطح پر ہمارے character کی سچائی ہی ہمارے تبلیغی مشن کی دشا(disha) اور دشا(dasha) طے کرتی ہے ۔”

"تمام مسلمان یہ بات مانتے ہیں کہ بلاشبہ قرآن وحدیث کی سب باتیں سچی ہیں اچھی ہیں صحیح ہیں ۔۔۔۔۔قرآن وحدیث کے حوالے سے ہماری تقریروں پر لوگ نعرہ لگاتے ہیں۔ فیس بک ،ٹویٹر وغیرہ پر ہماری پوسٹوں اور تحریروں کو لائک اور کمینٹ جیسے اعزاز سے نوازتے ہیں۔ ہماری خوب واہ واہی کرتے ہیں۔ دعوت بھی کھلاتے ہیں ۔ اور حیثیت کے مطابق نذرانہ بھی دیتے ہیں ۔۔۔۔”

"لیکن جب اسلامی احکام و قوانین کی پر عمل کرنے کی بات آتی ہے تو وہی پرانا پرانا سا ماحول۔

تقریر سننے اور تحریر پڑھنے سے پہلے وہ جو ہوا کرتے تھے اس کے بعد بھی وہ وہی رہتے ہیں ۔۔۔۔

پھر وہی بزم غیبت۔ پھر وہی جھوٹ کی کالا بازاری ۔پھر وہی سود اور رشوت کا لین دین ۔پھر وہی دھوکہ فریب۔ نہ نمازیوں کے %میں کوئی بڑھوتری۔ نہ شہوتوں کے گراف میں کوئی کمی ۔ نہ دین کی للک۔ نہ قوم کا درد ۔جوں کا توں ۔جیسے کے تیسے۔ وہی پرانے پرانے سے ۔۔۔۔”

"جبکہ تبلیغ اسلام کی تمام مشینریاں اپنے اپنے شعبے میں کام کر رہی ہیں مدرسین درسگاہوں میں مبلغین جلسے جلوسوں میں ،مصنفین دارالتصنیف اور سماجی رابطے کی ویب سائٹوں پر ،پیران عظام اپنی اپنی خانقاہوں اور مریدستانوں میں،امام مسجدوں اور محلوں میں”

” اور سماج کے وہ لوگ بھی جنہیں ہم عام جنتا کہتے ہیں ان کی تو پوچھیے مت وہ بھی تبلیغی پرچہ اسی طرح گھماتے رہتے ہیں جس طرح ان کے پاس گھومتا ہوا آیا ہوتا ہے۔
بلکہ وہ لوگ کچھ زیادہ ہی جلدی میں آگے گھمادیتے ہیں ۔
اچھی باتوں کی روایت میں وہ کسی سے کم نہیں ہیں( تبلیغی مشن گروپ) سے بھیجی گئی ہر روایت کو وہ بغیر کسی” کمی بیشی” کے آگے بھیجتے رہتے ہیں ۔۔۔۔

ان کی پروفائل اور اسٹیٹس سے تو آپ اندازہ بھی نہیں لگا پائیں گے کہ اس کے پیچھے اپنے محلے کا پپو ہے یا” بیسک اسلام” کے مصنف۔
” خیر جس طرح کی تبلیغ کا عام چلن ہے وہ بھی اس تبلیغی مشن کے ایک اچھے سپاہی ہیں” ۔۔۔۔۔۔

"غرض کہ مسلم سماج کا ہر طبقہ اپنی اپنی قلم، اپنی اپنی زبان اور Mobiles کی اسکرین پر اپنی اپنی انگلیوں کی حرکت سے ایک دوسرے کو ” بھلائی کرو! برائی سے روکو !”کی تبلیغ کررہاہے ۔۔۔

لیکن اس کے باوجود بھی مسلمانوں کے کردار سے نہ مذہب کی خوبی دکھتی ہے نہ اچھا اخلاقی رویہ ۔۔۔۔حالت بلکل Corona جیسی ہوگئی ہے Vaccine پر Vaccine بنائی جارہی ہیں ادھر Delta Varient ہوگیا Vaccine کچھ اثر دکھاتی جب تک Omicron آگیا ۔۔۔۔

برائیوں کو روکنے کے لئے تبلیغ کے جتنے نت نئے طریقے اور Sources استعمال کئے جارہے ہیں برائیاں بھی اتنی ہی زور شور سے پھیل رہی ہیں۔۔۔۔۔ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی ۔۔۔۔

اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ قوم کے مبلغین نے صرف اسلامی تقریروں اور تحریروں کو ہی ہر جگہ تبلیغ اسلام کے لئے ادھر ادھر گھمایا ہے سارا زور و شور
تقریر و تحریر، پرچار پرسار، پوسٹر بینر میں صرف کیا ہے ۔۔۔

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے جانثار صحابہ کی طرح اسلامی کردار اگر ادھر ادھر گمھاتے۔
قوم اور مذہب کی بقا کے لئے زمینی سطح پر کچھ عملی اقدام کرتے۔کوششیں کرتے۔ سروں کا نذرانہ نہ دیتے بلکہ ہلکی پھلکی چھوٹی موٹی قربانیاں دیتے۔ خواہشات نفس کی شدت میں تھوڑی کمی ہی لے آتے۔

تو قوم مسلم اپنی مذہبی اور اخلاقی پستی کے آخری دہانے پر نہ ہوتی اور آج دوعرب مسلمانوں کی جمعیت کے ساتھ اپنے خلاف غیروں کی سازشوں کا رونا نہ روتی۔

"شازشیں ، چیلنجز ، مشکلات ، وسائل کی قلت ، غربت وافلاس ، افراد کی کمی اس وقت بھی تھی جب تنہا ایک ذات محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کی پہاڑی پر کلمہ لاالہ الاللہ محمد الرسول کی تبلیغ کے لئے ایک سخت قوم کے سامنے کھڑے تھے نہ کسی کا ساتھ تھا نہ کسی سپورٹ”
اس لئےتمام مسلمانوں سے مودبانہ گذارش ہے کہ رسول کی زندگی کو اپنی زندگی کا نمونہ بنائیں ۔اسباب وسائل کی قلت اور سازشوں کا رونا نہ روئیں ۔۔۔

کسی کا سپورٹ اور ساتھ ملے نہ ملے آپ کی ذات اور اللہ کی مدد یقینا آپ کے ساتھ ہے۔
آپ کچھ نہ کریں بس عملی زندگی میں اسلامی کردار کے ساتھ اپنی ذات کا بہتر استعمال کریں خاص طور سے اپنے گھر ،محلے ،گاؤں ،شہر میں ۔
آپ کی ذات سےتبلیغی تقاضے بھی پورے ہونگے اور ان شاء اللہ

” قاتل امامت کے مصلےپر”والا نتیجہ بھی نکلے گا۔۔۔۔

باقی جو نت نئے طریقے تبلیغ اسلام کے نام پر رائج ہیں اس کی افادیت سے ہمیں انکار نہیں ہے حالات زمانہ کے پیش نظر وہ بھی بہت ضروری ہیں ۔
لیکن زمینی سطح پر عملی تبلیغ کے بغیر امت مسلمہ کی نئی نسلوں میں اسلامی کردار کے بیج بونا اپنے آپ میں ایک علاحدہ چیلنج ثابت ہوگا ۔

جیسا کہ دور حاضر میں تمام مسلم مفکرین کو اس بات کا احساس بھی ہے کہ علمی تبلیغ کے ذریعے مسلم گھرانوں تک اسلامی تعلیمات کسی نہ کسی حد تک ضرور پہونچی ہیں ۔
لیکن اکثر مسلمانوں کے عملی Syllabus میں اسلامی تعلیمات کی نہ تو کوئی مستقل حیثیت ہے نہ حصے داری ۔۔۔۔بس کبھی کبھی کہیں کہیں عمل ہوجاتا ہے ۔۔۔

حالانکہ اسلا می اعمال ہی دنیا میں ہمارے لئے سب سے بڑے اور بہتر ہتھیار ہیں جو ہماری موجودگی اور بقا کو تحفظ کا جامہ پہناتے ہیں ۔

قوموں کی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے اس بات اندازہ عقلمندوں کو ضرورہونا چاہئے۔

"کہ بغیر ہتھیار کے جو قومیں زندگیاں گذارتی ہیں انھیں اپنے وجود کے بکھرنے کا ہمیشہ ڈر اورخوف لگا رہتا ہے”

کیا موجودہ دور میں یہ حال مسلمانوں کا نہیں ہے کہ وہ ڈر،خوف اور سازشوں کے سائے تلے جی رہے ہیں ؟

"اگر ہمارے دلوں میں موجود اسلامی تعلیمات پر ہمارا عملی کردار نہ دھڑکے تو دل کو مردہ ہونے سے کوئی چیز نہیں بچاسکتی ”

یہ شعر سب نے پڑھا ہوگا ۔۔۔اسلام زندہ ہوتاہے ہر کربلا کے بعد ۔۔۔
کربلا عملی تبلیغ کی ایک ایسی مثال ہے جس کا تذکرہ ہی سن کر مسلمانوں کے دل پسیج جاتے ہیں ۔۔۔۔

تبلیغ کی اصل روح(عمل) کا نام ہے

"شہادت شہدائے کربلا”

ان نفوس قدسیہ کے کردار سے جب ہمارا کردار میل کھائے گا تب اسلام زندہ ہوگا ”
حسینی کردار ہی اسلام کو زندگی بخشتا ہے ۔

رہ گئی بات تذکروں اور داستانوں کی !

تو” تذکرۂ شہدائے کربلا "محرم الحرام”خاک کربلا”شہید ابن شہید”وغیرہ کتابیں ڈاکٹروں کے لکھے گئے دوائی کے پرچے کی طرح ہیں ۔
بس فرق صرف اتنا ہےکہ کتابیں روحانی مرض کا پرچہ ہوتی ہیں اور ڈاکٹرجو لکھتے ہیں وہ جسمانی مرض کے پر چے ہوتے ہیں ۔

دوائی کانام پڑھ کر یاسن کر مریض کو صرف دواکی جانکاری ہوتی ہے مرض نہیں ٹھیک ہوتا ۔

مرض ٹھیک ہونے کے لئے دوائی کھانی پڑے گی ۔۔۔۔
"مطلب عمل کرنا پڑے گا ”

‘ پرچے پر لکھی گئی دواکو صرف پڑھ کر یا سن کر مرض کی شدت میں کمی کی آرزو کر نا’

"بھولے پن ،کورے پن ،لڑکپن "کی پہچان ہے ۔

خیر!

ایک حدیث ہے "تکلیف دہ چیز کو راستے سے ہٹانا صدقہ ہے ”

ایک آدمی نے جگمگاتے اسٹیج پر ہاتھ میں مائک لیا اور یہ والی حدیث سامعین کے گوش گزار کی ” کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا "راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانا صدقہ ہے ”

بات مکمل کرکے اسٹیج سے وہ آدمی اترا اپنی گاڑی میں بیٹھنے کے لئے اسے پچاس میٹر کاراستہ پیدل طے کرناتھا راستے کے بیچ میں اسے ایک بڑی اینٹ دکھائی دی اس نے وہ اینٹ بیچ راستے سے ہٹاکر کنارے ایک side میں کردی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس نے اپنے سامعین کو ایک پیغام دیا ۔

"جو میں کہتا ہوں وہ میں کرتا ہوں ”

اسے کہتے ہیں ایک نمبری تبلیغ ۔۔۔۔۔

ایک آدمی اسٹیج پر چیختی آواز میں سامعین کو بتاتا ہے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "تکلیف دہ چیز کو راستے سے ہٹانا صدقہ ہے ”

بات مکمل کرکے اسٹیج سے اترا گاڑی میں بیٹھنے کے لئے اسے بھی پچاس میٹر کا راستہ پیدل طے کرنا تھا راستے کے بیچ اسے بھی ایک بڑی اینٹ دکھائی اس نے اینٹ کراس کی اور لمبے لمبے قدموں سے چل کر گاڑی میں بیٹھ گیا ۔

اس نے اپنے سامعین کو ایک پیغام دیا۔
” جو میں کہتا ہوں وہ میں نہیں کرتا ”
اسے کہتے ہیں دو نمبری تبلیغ ۔۔۔۔

"تبلیغ میں اثر پیدا کرنے کے لئے تبلیغی نمبر کا لحاظ کرنا وقت کی اہم ضرورت ہمیشہ تھا اور دور حاضر میں تو کچھ زیادہ ہی ہے ۔”

 

اللہ ہمیں اور دنیا کے تمام مسلمانوں کو اسلامی قوانین وفرامین پر عمل کرنے کی خوب خوب توفیق عطافرمائے۔۔۔۔۔

کلیم مصباحی

نواری بازار امبیڈکر نگر 01.01.2022

مزید پڑھیں

حافظ ملت : ایک علمی جہان

شیئر کیجیے

Leave a comment